Column

تھامس ایڈیسن

تھامس ایڈیسن
تحریر : علیشبا بگٹی

تاریخ انسانی میں جتنے بھی نمایاں کارنامے انجام دئیے گئے، ان کے پیچھے ناکامیوں کی ایک طویل فہرست چھپی ہوئی ہے۔ ان میں سب سے نمایاں مثال تھامس ایڈیسن کی ہے۔ تھامس ایڈیسن ایک سیلف ایجوکیٹڈ اور سیلف میڈ انسان تھے۔ تھامس ایڈیسن کے اسکول کے استاد نے ایک خط ایڈیسن کے ہاتھ میں دے کر اس کی ماں کے لیے بھیجا تھا۔ جب ایڈیسن اپنی ماں کے پاس پہنچا اور خط دیا، تو اُس کی ماں نے خط پڑھنے کے بعد رونا شروع کر دیا۔ ایڈیسن نے پوچھا کہ خط میں کیا لکھا ہے؟، تو اُس کی ماں نے مسکرا کر کہا۔ اس میں لکھا ہے کہ ’’ آپ کا بیٹا ایک غیر معمولی ذہین بچہ ہے۔ ہمارا اسکول اتنا قابل نہیں کہ اسے تعلیم دے سکے، اس لیے آپ خود ہی اس کی تعلیم کا بندوبست کریں‘‘۔ ایڈیسن کی ماں نے اسے گلے لگا کر گھر میں پڑھانا شروع کیا۔ سالوں بعد، جب ایڈیسن ایک عظیم موجد بن چکا تھا، اُس نے وہی پرانا خط تلاش کیا۔ اُس میں دراصل یہ لکھا تھا ’’ آپ کا بیٹا ذہنی طور پر کمزور ہے۔ ہم اسے اسکول میں نہیں رکھ سکتے‘‘۔ یہ جان کر ایڈیسن بہت رویا اور کہا ’’ تھامس ایڈیسن ایک عظیم بچہ تھا، لیکن ایک عظیم ماں نے اُسے بنایا‘‘۔
تھامس ایڈیسن 11فروری 1847ء کو امریکہ کے شہر میلان، اوہایو میں پیدا ہوئے۔ اور 84سال کی عمر میں 18اکتوبر1931 ء کو نیو جرسی امریکہ میں انتقال کر گئے۔ اُس کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا، والد سیاسی طور پر متحرک اور والدہ ایک سکول ٹیچر تھیں۔ بچپن سے ہی ایڈیسن کی طبیعت جستجو، سوالات اور تجربات کی طرف مائل تھی۔ وہ روایتی بچوں کی طرح نہیں تھا۔ وہ چیزوں کو توڑ کر ان کے اندر دیکھنا چاہتا تھا، آوازیں سن کر ان کی وجوہات جاننا چاہتا تھا۔
ایڈیسن نے صرف تین سے چار ماہ سکول میں تعلیم حاصل کی۔ اسے اس کے استاد نے’’ mentally unfit‘‘ یعنی ذہنی طور پر ناقص قرار دیا۔ اس واقعے نے اس وقت کے تعلیمی نظام کی وہ خامی ظاہر کی جو تخلیقی، مختلف یا غیر روایتی ذہنوں کو برداشت نہیں کر سکتی۔ لیکن یہاں اُس کی ماں نینسی ایڈیسن کا کردار نہایت اہم ہے۔ اس نے اپنے بیٹے کو نہ صرف سکول سے نکالنے پر احتجاج کیا بلکہ اُسے گھر پر خود پڑھانا شروع کیا۔ ماں کی تعلیم اور توجہ نے ایڈیسن کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا۔
ایڈیسن نے مطالعے کی عادت خود بنائی۔ وہ لائبریری سے کتابیں لے کر پڑھتا اور پھر اُن پر تجربات کرتا۔ وہ نیوٹن، گلیلیو، اور فرینکلن جیسے سائنسدانوں سے متاثر تھا۔ 12سال کی عمر میں وہ ریلوے میں اخبار اور مٹھائیاں بیچتا تھا اور اُسی دوران اس نے ٹرین کے ڈبے میں ایک چھوٹی لیبارٹری بھی بنا لی تھی۔ جہاں وہ چھوٹے موٹے سائنسی تجربات کیا کرتا تھا۔ ایک بار کیمیکل گرنے سے دھماکہ ہوا، جس پر اُسے نوکری سے نکال دیا گیا، لیکن اُس کے شوق میں کمی نہ آئی۔ ایڈیسن بچپن میں ایک بیماری کی وجہ سے سماعت سے جزوی طور پر محروم ہو گیا تھا۔ کچھ لوگ اسے ایک کمزوری سمجھتے ہیں، لیکن ایڈیسن نے کہا ’’ میرے اس بہرے پن نے مجھے شور سے بچایا، جس نے میری توجہ کو تیز کر دیا‘‘۔
یہ رویہ اس بات کی دلیل ہے کہ اُس نے اپنی جسمانی کمزوری کو کبھی بہانہ نہیں بنایا بلکہ اُسے ذہنی ارتکاز کا ذریعہ بنایا۔ ایڈیسن کی سب سے مشہور جدوجہد بجلی کے بلب کی ایجاد تھی۔ اس نے ایک ہزار سے زائد ناکام تجربے کیے، مگر ہار نہیں مانی۔ وہ مختلف دھاتیں، مواد اور تار آزماتا رہا۔ ہر ناکامی کے بعد وہ نیا تجربہ کرتا، نئی راہ تلاش کرتا۔ ایڈیسن نے ہر ناکامی پر سوچا ’’ یہ کیوں نہیں چلا ؟ کہاں غلطی ہوئی؟ اب کیا بدلا جائے؟‘‘۔ یہی انداز فکر اسے ہر بار بہتر کرنے میں مدد دیتا رہا۔ ایڈیسن نے ایک ہزار بار کوشش کی، بلب نہ جل سکا۔ لوگ ہنسے، طنز کیے، مایوس کیا، لوگوں نے باتیں سنائیں۔ بارہا پاگل کہا۔ مگر اس نے جواب دیا’’ میں ناکام نہیں ہوا، میں نے ایک ہزار طریقے سیکھے جو کام نہیں کرتے‘‘۔
یہی سوچ کامیاب انسانوں کی پہچان ہے۔ وہ ہر ناکامی میں چھپی کامیابی کو ڈھونڈ لیتے ہیں۔ وہ گر کر روتے نہیں، بلکہ اٹھ کر خود سے کہتے ہیں ’’ چلو ایک بار پھر کوشش کرتے ہیں‘‘۔
یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ اصل ناکامی وہ ہوتی ہے جب ہم کوشش کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اس نے کہا کانچ سے روشنی نکال کے رہوں گا۔ آخر کار، 1879ء میں، اس نے وہ بلب ایجاد کیا جس نے دنیا کو اندھیرے سے نکال کر روشنی میں ڈال دیا۔
ہمارا معاشرہ اکثر پہلی ناکامی پر ہمیں چھوڑ دیتا ہے، طعنے دیتا ہے۔ حوصلہ توڑتا ہے۔ لیکن اصل ہیرو وہ ہوتا ہے جو سب کچھ سننے کے باوجود، خود پر یقین رکھے۔ جو جانتا ہو کہ خواب سستے نہیں ہوتے۔ ان کے پیچھے پسینہ، آنسو، اور بار بار گرنے کا درد ہوتا ہے۔ ان کے پیچھے مسلسل محنت ہوتی ہے۔ نیند تک کو ترک کرنا پڑتا ہے۔
تھامس ایڈیسن کے 1093پیٹنٹس یعنی اختراعات تھے۔ جو اُن کی ایجاد کردہ مختلف چیزوں پر امریکہ میں رجسٹرڈ کیے گئے تھے۔ یہ پیٹنٹس انہیں دنیا کے سب سے زیادہ پیداواری موجدوں میں شمار کرتے ہیں۔ کچھ مشہور ایجادات جن پر انہیں پیٹنٹ ملا۔ الیکٹرک لائٹ بلب، فونگراف یعنی آواز ریکارڈ کرنے والی مشین، موشن پکچر کیمرہ یعنی فلم بنانے کا آلہ ، الیکٹرک پاور ڈسٹری بیوشن سسٹم اور ’’ ایڈیسن جنرل الیکٹرک‘‘ کی بنیاد رکھی۔ جو بعد میں General Electricبنی، جو آج بھی دنیا کی بڑی کمپنیوں میں شمار ہوتی ہے۔ تھامس ایڈیسن کے 1093پیٹنٹس اُس کی عظیم محنت، تخلیقی سوچ اور کبھی نہ ہار ماننے والے جذبے کی علامت ہیں۔
تھامس ایڈیسن کی کہانی صرف ایک شخص کی جدوجہد نہیں، بلکہ لاکھوں لوگوں کے لیے حوصلے اور امید کا پیغام ہے۔ جسے دنیا نے ذہنی طور پر کمزور سمجھا، وہی انسان دنیا کو روشنی دینے کا سبب بنا۔ اس نے ہار نہیں مانی، بلکہ ہر ناکامی کو سیکھنے کا موقع بنایا۔ اور ثابت کیا کہ ناکامی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بلکہ سیڑھی ہوتی ہے۔ ایڈیسن کی کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ ناکامی دراصل سیکھنے کا عمل ہے۔ ہر ناکامی ہمیں آگے بڑھنے، سیکھنے اور بہتر کرنے کا موقع دیتی ہے۔
ناکامی کو صرف ایک منفی تجربہ سمجھنے کے بجائے، اسے سیکھنے، نکھرنے اور کامیابی کی بنیاد کے طور پر سمجھا جائے۔ بس ہمیں یقین، صبر اور مسلسل محنت کے ساتھ اپنے خواب کا پیچھا کرنا ہے۔ ایڈیسن کی طرح، ہمیں بھی اپنے اندر کی روشنی تلاش کرنی ہے۔ تب ہی ہم باہر کی دُنیا کو روشنی دے پائیں گے۔ زندگی کی جنگ وہی جیتتا ہے جو ہار ماننے سے انکار کر دے۔ یاد رکھیں، دنیا تمہیں اس وقت سلام کرے گی، جب تم خود پر یقین رکھ کر، ہر اندھیرے میں اپنا چراغ جلا دو گے۔ ناکامی اکثر منفی جذبوں، مایوسی اور شرمندگی سے جوڑی جاتی ہے، لیکن تخلیقی اذہان کے لیے یہ صرف ایک وقتی رکاوٹ نہیں بلکہ ایک تخلیقی راستہ ہوتا ہے۔ تھامس ایڈیسن کی زندگی سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کامیابی کی راہ میں ناکامی صرف ناگزیر ہی نہیں بلکہ ضروری بھی ہے۔ ناکامی تخلیق کا حصہ کیوں ہے؟ کیونکہ نئی چیزیں آزماتے وقت غلطی ایک فطری عمل ہے۔ تخلیقی ذہن یہ جانتا ہے کہ ہر ناکام کوشش ایک قدم آگے کی جانب ہے۔ ناکامی بطور تعمیری قوت ہے، ناکامی سے نئے امکانات کی دریافت ہوتی ہے۔ تخلیقی عمل اکثر متوقع نتائج نہیں دیتا، بلکہ غیر متوقع مگر مفید دریافتوں کی طرف لے جاتا ہے۔ ناکامی سیکھنے کا عمل اور ’’ ناکامی برداشت کرنے کی صلاحیت‘‘ کا سبب بن کر سامنے آتا ہے۔ ناکامی تخلیقی صلاحیتوں کو پنپنے دیتا ہے۔ سیکھنے کے عمل کو گہرائی دیتا ہے۔ تخلیقی عمل میں نہ صرف نئے خیالات ملتے ہیں بلکہ اس میں خود احتسابی، اور نئے زاویوں سے تجزیہ اور تجربہ بھی شامل ہوجاتا ہے۔ ہر ناکامی ایک نیا سبق دیتی ہے۔ ہر غلطی ایک نیا راستہ دکھاتی ہے۔ اور ہر رکاوٹ ایک نئی کھڑکی کھولتی ہے۔
تھامس ایڈیسن کی زندگی ایک مکمل درسگاہ ہے۔ وہ ایک ایسا بچہ تھا جسے سکول نے مسترد کر دیا، ایک ایسا نوجوان جس نے خود کو خود پڑھایا۔ ایک ایسا انسان جو سن نہیں سکتا تھا مگر دنیا کو سنانے والے آلے بنا گیا اور ایک ایسا موجد جس نے دنیا کو اندھیرے سے نکالا۔ ایڈیسن کی یہ جدوجہد ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ناکامی نہ دیوار ہے، نہ دلدل، یہ وہ پُل ہے جو صرف محنت، استقامت اور یقین سے عبور ہوتا ہے۔ تخلیقی ذہن اکثر معمولی اصولوں سے ہٹ کر سوچتا ہے۔ وہ رٹے رٹائے نظام میں فٹ نہیں آتا۔ تھامس ایڈیسن کی ’’ آئوٹ آف دی باکس‘‘ سوچ اس بات کی گواہی ہے کہ تعلیمی ادارے اور معاشرے کے لوگ اکثر تخلیقی اذہان کو پہچاننے سے قاصر رہتے ہیں۔ ایڈیسن نے ہر ناکامی کو نئے زاویے سے دیکھا، یہ’’ divergent thinking‘‘ ہے۔ وہ مسئلے کو مختلف پہلوئوں سے پرکھ کر بار بار نئی حکمت عملی اپناتا رہا۔ ریزیلینس وہ ذہنی طاقت ہے جو انسان کو مشکلات کے باوجود دوبارہ کھڑا ہونے کی ہمت دیتی ہے۔ ایڈیسن کی بار بار کی ناکامیاں اور ہر بار کی بلند حوصلگی ہمیں دکھاتی ہے کہ کامیابی دراصل مسلسل جدوجہد سے جڑی ہوتی ہے، نہ کہ کسی ’’ ایک موقع‘‘ سے۔ روایتی تعلیم اکثر تخلیقی سوچ کو محدود کرتی ہے۔ اس میں صرف ، رٹا، نمبرز اور یکساں فہم کی قدر کی جاتی ہے۔ ایڈیسن جیسے بچے جو روایتی سانچے میں نہیں ڈھلتے، وہ اس نظام سے نکال دئیے جاتے ہیں، حالانکہ وہی دنیا کو بدلنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ ناکامی کوئی شکست یا رکاوٹ نہیں بلکہ سیکھنے کا ایک فطری راستہ ہے۔ تخلیقی ذہنوں کو روایتی تعلیمی نظام میں پہچاننا مشکل ہے۔ حوصلہ، خوداعتمادی اور مستقل مزاجی ہی اصل کامیابی کے ستون ہیں۔
علیشبا بگٹی

جواب دیں

Back to top button