Column

ٹڈاپ اسکینڈل کے پس پردہ حقائق

ٹڈاپ اسکینڈل کے پس پردہ حقائق
تحریر : روہیل اکبر

سابق وزیر اعظم اور چیئرمین سینٹ سید یوسف رضا گیلانی اپنے تمام کے تمام28مقدمات سے بری ہوگئے، گیلانی صاحب کو مقدمات میں الجھانے والے ان کے سابق حریف اور موجودہ حلیف ہیں جنہوں نے دل کھول کر اپنے مخالفین پر کرپشن کے مقدمات بنائے انہی مقدمات میں ایک کیس ٹڈاپ بھی تھا ویسے پاکستان میں مالی بدعنوانی کی کہانیاں کوئی نئی بات نہیں مگر کچھ اسکینڈلز ایسے ہوتے ہیں جو صرف خبروں تک محدود نہیں رہتے بلکہ ملک کے معاشی، قانونی اور سیاسی نظام کی اصلیت کو ننگا کر کے رکھ دیتے ہیں ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان (TDAP)اسکینڈل انہی افسوسناک واقعات میں سے ایک ہے جس میں اربوں روپے کی قومی دولت جعلی کمپنیوں، کرپٹ سرکاری افسران اور سیاسی اثر و رسوخ کے ذریعے ضائع ہوئی۔ سبسڈی کے نام پر لوٹ مار کا سلسلہ آج کی کہانی نہیں بلکہ پرانا قصہ ہے کبھی چینی تو کبھی گندم پر اربوں روپے کی سبسڈی دی گئی اس سبسڈی کا مقصد کیا ہوتا ہے اس کے لیے ٹڈاپ کیس کو سمجھنا ضروری ہے کہ یہ ہے کیا؟TDAP یعنی ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان ایک وفاقی ادارہ ہے جس کا بنیادی مقصد پاکستانی مصنوعات کی بیرونِ ملک برآمدات کو فروغ دینا ہے یہ ادارہ برآمدکنندگان کو مختلف سبسڈیز اور ری بیٹس (rebates)دیتا ہے تاکہ ان کے کاروبار کو سپورٹ ملے لیکن بدقسمتی سے 2008ء سے 2013 ء کے درمیان یہی ادارہ کرپشن کا گڑھ بن گیا درجنوں جعلی کمپنیاں رجسٹر کی گئیں جنہوں نے TDAPسے برآمدی سبسڈی حاصل کرنے کے لیے جعلی انوائسز اور دستاویزات جمع کرائیں ان کمپنیوں کا نہ کوئی وجود تھا نہ انہوں نے کبھی کوئی ایکسپورٹ کی لیکن پھر بھی انہیں اربوں روپے کی سبسڈی جاری کی گئی یہ سب کچھ TDAP کے اندر بیٹھے افسران اور ان کے ’’ سیاسی سرپرستوں ‘‘ کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہ تھا اس اسکینڈل کی سب سے بڑی حیران کن بات یہ تھی کہ اس میں ملک کے سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور سابق وزیر تجارت مخدوم امین فہیم ( مرحوم) کے نام سامنے بھی آئے امین فہیم پر الزام تھا کہ انہوں نے کرپٹ افسران کی تعیناتیاں کیں اور ان کے ذریعے جعلی ادائیگیاں کرائیں جبکہ سیدیوسف رضا گیلانی پر الزام تھا کہ انہوں نے منظورِ نظر افراد کو اہم عہدوں پر تعینات کیا اور ادارے میں ہونے والی مالی بدعنوانیوں پر آنکھیں بند رکھیں جس پر نیب اور ایف آئی اے نے دونوں رہنماں کے خلاف درجنوں مقدمات درج کیے جبکہ TDAPکے کئی افسران کو گرفتار بھی کیا گیا لیکن حقیقت میں اس اسکینڈل پر نیب کی کارروائیاں سست، عدالتی نظام کمزور اور سیاسی دبا شدید رہا کئی مقدمات زیرِ التواء رہے کچھ افسران نے پلی بارگین کے ذریعے رقم واپس کر دی لیکن اصل مجرمان کا تعین ہوسکا نہ کوئی گرفتاری عمل میں آئی اور وہ آج بھی آزاد ہیں جس سی یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کیا پاکستان میں کسی طاقتور کو کرپشن پر واقعی سزا ملتی ہے؟ یا صرف چھوٹے افسر، کلرک اور درمیانے درجے کے افراد ہی قربانی کا بکرا بنتے ہیں؟ ٹڈاپ اسکینڈل کئی تلخ حقائق سے پردہ اٹھاتا ہے کہ اداروں میں سیاسی مداخلت کرپشن کی بنیاد ہے جس کے بعد ری بیٹ و سبسڈی جیسے فلاحی اقدامات کو شفاف نظام کے بغیر کرپشن کا ذریعہ بنا دیا جاتا ہے لوٹ مار کرنے والے اسی رقم سے کچھ نہ کچھ ادا کرکے پاک صاف ہو جاتے ہیں اور روٹی چوری کرنے والے کو پر تشدد کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ہمارے تھانے اس بات کی دلیل ہیں کہ ہمارا نظامِ انصاف طاقتور کے لیے الگ اور کمزور کے لیے الگ ہے پاکستان میں احتساب صرف نعروں میں ہے عملی طور پر بے اثر ہے ٹڈاپ اسکینڈل پاکستانی عوام کے اس اعتماد کو ٹھیس پہنچاتا ہے جو وہ اپنے اداروں سے وابستہ کرتے ہیں اگر ہم واقعی "شفاف پاکستان” چاہتے ہیں تو محض نعرے کافی نہیں بلکہ ہمیں اداروں کو آزاد، عدالتی نظام کو تیز اور سیاسی اثر و رسوخ کو محدود کرنا ہوگا ورنہ ہر نیا دن کسی نئے اسکینڈل کے ساتھ طلوع ہوگا اور ’’ اسکینڈلز‘‘ تاریخ کا حصہ بنتے جائیں گے وہ بھی کسی سزا اور انجام کے بغیر جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ شائد یہ اسکینڈلز مخالفین کو دبانے اور توڑنے کے لیے بنائے جاتے ہیں کیونکہ جب بھی کوئی حکومت میں ہوتا ہے تو وہ بڑے زور شور سے جانے والوں کے خلاف احتساب کے نام پر مقدمات درج کرواتے ہیں بیشک پاکستان میں ’’ احتساب‘‘ ایک ایسا نعرہ ہے جو ہر دور میں زور و شور سے لگایا گیا ۔
مگر انجام اکثر سیاسی انتقام، تاخیری حربے، یا خاموش سمجھوتوں پر ہوا اگر دیکھا جائے تو پاکستان کی سیاست میں اگر کوئی لفظ سب سے زیادہ استعمال ہوا ہے تو وہ ہے ’’ احتساب‘‘ ہر نئی حکومت، ہر نیا حکمران اور ہر نیا بیانیہ اس مقدس لفظ کو اپنی طاقت بنانے کی کوشش کرتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا ملک میں واقعی کبھی کوئی غیر جانبدار، شفاف اور موثر احتساب ہوا ہے؟ یا یہ محض ایک سیاسی ہتھیار رہا ہے جو مخالفین کو دبانے کے لیے استعمال کیا گیا؟ ایوب خان دور میں احتساب کا یہ نعرہ EBDO (Elective Bodies Disqualification Order)کی صورت میں سامنے آیا جس میں سیاست دانوں کو نااہل کیا گیا ضیاء الحق کے مارشل لا میں احتساب فوجی عدالتوں اور کوڑوں کے ذریعے کیا گیا جس کا اصل ہدف جمہوریت پسند قوتیں تھیں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے ادوار میں احتساب بیورو بنا مگر یہ ادارہ خود سیاسی انجینئرنگ کا آلہ بن گیا پرویز مشرف نے نیب کے ذریعے ’’ لوٹوں ‘‘ کو قابو میں کیا اور NROجیسے سمجھوتوں نے احتساب کو مذاق بنا دیا اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں احتساب کے تمام ادارے نیب، ایف آئی اے، اینٹی کرپشن بظاہر خودمختار نظر آتے ہیں مگر عملی طور پر طاقتور کی مرضی کے پابند ہیں اور یہ مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ جب کسی اپوزیشن رہنما کے خلاف کیس بنے تو ’’ نیب متحرک‘‘ ہو جاتا ہے جب وہی شخص حکومت کا حصہ بنے تو ’’ نیب خاموش‘‘ ہو جاتا ہے۔ یہ تضاد عوام کے ذہن میں احتساب کے تصور کو غیر معتبر کر دیتا ہے کہ کیا احتساب صرف ’’ نیچے‘‘ والوں کے لیے؟ بڑے مگرمچھ کبھی جال میں نہیں آتے بار بار احتساب کے نعروں، ٹی وی ٹاک شوز اور میڈیا ٹرائلز نے عوام کو سیاسی افراتفری میں الجھا دیا ہے، جبکہ ہمارے ہاں اصل مسئلہ مہنگائی، تعلیم، صحت اور روزگار ہے، جس کی بجائے ہمیں کرپشن کے تماشے پر لگا دیا گیا ہے۔

روہیل اکبر

جواب دیں

Back to top button