بارش سے پہلے اور بعد۔۔۔۔۔

بارش سے پہلے اور بعد۔۔۔۔۔
تحریر : روشن لعل
رومانیت پسند لوگ برسات کے موسم کو رتوں کا راجہ کہتے ہیں۔ شاعروں اور ادیبوں نے لو گوں کو رومان پرور ی کی طرف مائل کرنے کے لیے برسات کے موسم کو ، ابر کرم ، ابر رحمت ، رم جھم ، پھوار، کالی گھٹائیں، بادو باراں، برکھا رت اور میگھ ملہار جیسے نام دے کر نہ جانے کیا کچھ لکھ رکھا ہے۔ گو کہ یہاں موسموں کا چلن ماضی جیسا نہیں رہا لیکن برسات کا تصور ذہن میں آتے ہیں رومانیت کا احساس در آنے سے روکنا ممکن نہیں رہتا۔ برسات کے تصور سے رومانیت چاہے جس قدر بھی روح میں سما چکی ہو، مگر بارش کے بعد جو مناظر یہاں دیکھنے کو ملتے ہیں وہ اس قدر دردناک ہوتے ہیں کہ رومان کا تصور، فوراً رنج و الم میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ جب کسی حساس انسان کو اس طرح کی خبریں سننے کو ملیں کہ 26جون سے 18جولائی 2025ء تک برسنے والی بارشوں کے دوران ریاست اور عوام کے کروڑوں روپے کے مال و متاع کے نقصان کے ساتھ ملک میں کل 193لوگ ہلاک اور 544زخمی ہو چکے ہیں تو سوچا جاسکتا ہے کہ برکھا رت اس کے لیے کیونکر مسحور کن بنی رہے گی۔
مون سون کی بارشیں پاکستان اور علاقے کے دیگر ملکوں کے سماجی ڈھانچے کی ترقی اور معاشی استحکام کے لیے صدیوں سے بنیادی کردار ادا کرتی چلی آرہی ہیں۔ پاکستان میں مون سون کے دوران برسنے والی بارشوں کا ملک میں ہونے والی مجموعی بارشوں میں 75سے90فیصد تک حصہ ہوتا ہے۔ یہ ایک عیاں حقیقت ہے کہ موسم خریف اور ربیع کی فصلوں کی بہتر پیداوار کا عمومی انحصار مون سون کی بارشوں کے معمول کے مطابق برسنے پر ہے۔ اگر مون سون کی بارشیں معمول کے مطابق نہ برسیں تو نہ صرف خریف کی فصلوں کے لیے ضرورت سے کم پانی دستیاب ہوتا ہے بلکہ ربیع کی فصلوں کے لیے پانی ذخیرہ کرنا بھی ممکن نہیں رہتا ۔ صرف بہتر زراعت ہی نہیں بلکہ نصب شدہ استعداد کے مطابق پن بجلی کا حصول بھی معمول کے مطابق مون سون کی بارشوں پر ہی منحصر ہے۔ معمول کے مطابق مون سون کی بارشوں کا برسنا ہمارے ملک میں زندگی کی روانی کے لیے بہت ضروری ہے۔ جس طرح سے کم بارشوں کی وجہ سے ہمارے لیے بحرانی صورتحال پید اہو سکتی ہے اسی طرح معمول سے زیادہ بارشیں بھی ہمارے معمولات زندگی کو شدید مسائل سے دوچار کر سکتی ہیں۔ بارشوں کا معمول سے کم یا زیادہ برسنا ایک قدرتی عمل ہے۔ ان دونوں صورتوں کی ہمیں اگر پیشگی اطلاع مل جائے تو ممکنہ مشکلات کو کم کرنے کے لیے بہتر منصوبہ بندی کی جاسکتی ہے۔
جیسے، یہاں ہر کسی کو علم ہی کہ مون سون کی آمد کوئی نئی بات نہیں ویسے ہی سب جانتے ہیں کہ کسی بھی معاملے پہلے سے تیار نہ ہونا ہماری پرانی عادت ہے۔ کسی بھی معاملے میں پہلے سے تیار رہنا منظم ہونے کی نشانی ہے مگر کیا کیا جائے کہ غیر منظم رہنے کی ہماری روایتیں اور عادتیں صدیوں پرانی ہیں۔ انگریز بہادر نے اپنے دور میں ہماری روایتیں اور عادتیں تبدیل کر کے ہمیں منظم بنانے کی بہت کوشش کی مگر اس کی غلامی سے آزاد ہوتے ہی ہم نے اپنے رنگ ڈھنگ ایسے تبدیل کیے کہ نہ تیتر رہے اور نہ بٹیر رہے۔ انگریز نے ہمیں ایسا انتظامی ڈھانچہ دیا تھا جس میں نہ صرف آئندہ حالات کی پیش بینی ایک ضروری عنصر تھا بلکہ اس پیش بینی کے مطابق خود کو تیار رکھنا بھی لازمی جزو تھا۔ انگریزوں نے جن شعبوں میں پیش بینی اور پہلے سے تیاری کے نظام کو ترجیحی بنیادوں پر استوار کیا ان میں دریائوں کے بہائو کی پیمائش اور نگرانی کرنے والا محکمہ انہار سر فہرست تھا۔ اسی محکمہ کو سیلاب کی وجہ سے نمودار ہونیوالے مسائل سے نمٹنے کیلئے کردار ادا کرنیکی ذمہ داری بھی سونپی گئی تھی۔ اس ذمہ داری کو پورا کرنے کیلئے محکمہ موسمیات اور محکمہ انہار کو ایک دوسرے سے تعاون کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔ موسم گرما اور مون سون کی آمد کے موقع پر ان دونوں محکموں کے کاموں کی اہمیت بہت زیادہ ہو جاتی تھی۔ محکمہ موسمیات بارشوں کی پیشگوئی کرتا اور اس پیشگوئی کے مطابق محکمہ انہار یہ طے کرتا کہ ان بارشوں سے دریائوں کے بہائو پر کیا اثر پڑیگا۔ اس طرح سے محکمہ انہار سیلاب کی امکان اور نوعیت کے متعلق ضلعی، صوبائی اور مرکزی حکومتوں کے ساتھ ساتھ براہ راست عوام کو بھی باخبر رکھتا تھا۔ سیلاب اور مون سون کا کیونکہ چولی دامن کا ساتھ ہے اسلئے موسم گرما کی برسات کے دنوں میں محکمہ موسمیات اور محکمہ انہار زیادہ متحرک ہو جایا کرتے تھے۔ انگریز نے یہاں کسی مسئلے کی پیش بینی اور اس سے نمٹنے کیلئے پہلے سے تیاری کا جو نظام متعارف کرایا وہ سائنسی آلات کا محتاج تھا۔ ماضی میں ان سائنسی آلات کی کارکردگی کیونکہ موجود دور کی طرح مطلق اور کامل نہیں تھی اسلئے انگریزوں کے عہد میں کسی بھی صورتحال کی پیش بینی کے بعد تیاری کیلئے دستیاب وقت اس قدر قلیل ہوتا تھا کہ سیلاب جیسے مسائل سے نمٹنے کیلئے بخوبی تیاری نہیں ہو پاتی تھی۔ سائنسی آلات کا معیار کم ہونے کے باوجود اس دور میں انتظامیہ اس قدر مستعد ہوتی تھی کہ کسی آفت یا مصیبت کی وجہ سے ہونے والے نقصان کا ذمہ دار انسانی غلطی کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا تھا۔
دور بدلا، انگریز یہاں سے گئے اور ہم کہنے کو آزاد ہوگئے۔ آزادی کے بعد ہم تو نامعلوم کیا سے کیا ہوگئے مگر سائنس کی ترقی کا سفر جاری و ساری رہا۔ سائنسی آلات جدید سے جدید تر ہوتے گئے اور پوری دنیا میں ان آلات کی مدد سے سیلاب جیسی آفات کی پیش بینی کا کام زیادہ بہتر اور نقائص سے پاک ہوتا چلاگیا۔ یہ سائنسی آلات کی جدت کا اعجاز ہے کہ برصغیر میں مون سون کا آغا ز تو حسب سابق جون کے آخر میں ہوتا ہے مگر اقوام متحدہ کے موسمیاتی ادارے ورلڈ میٹرولو جیکل آرگنائزیشن کے تعاون سے جنوبی ایشیا میں موسمیاتی پیشگوئیوں کے لیے قائم کیا گیا اس کا ذیلی ادارہ سائوتھ ایشین کلائمیٹ آئوٹ لک فورم 2009ء کے بعد سے، ہر برس اپریل کے آخری ہفتے میں یہ پیشگوئی کر دیتا ہے کہ آنے والے دنوں میں بارشیں ، معمول کے مطابق، معمول سے کم یا معمول سے زیادہ برسنے کا کس حد تک امکان ہے۔
سائوتھ ایشین کلائمیٹ آئوٹ لک فورم نے اس برس بھی 30اپریل کو یہ پیشگوئی کر دی تھی کہ چند حصوں کو چھوڑ کر سائوتھ ایشیا کے اکثر علاقوں میں معمول سے 35تا 75فیصد زیادہ بارش برسنے کا امکان ہے۔ سائوتھ ایشین کلائمیٹ آئوٹ لک فورم نے جس نقشے کے ذریعے اپنی پیش گوئی کی وضاحت کی ، اس نقشے میں راولپنڈی ڈویژن کے علاقوں میں معمول سے55تا 75فیصد زیادہ بارشوں کا امکان ظاہر کیا گیا تھا۔ چکوال، جہاں 17جولائی کو 400ملی میٹر سے بھی زیادہ بارشیں برسنے کی خبریں سامنے آئیں وہاں بھی معمول سے 75فیصد تک زیادہ بارشوں کی پیش گوئی کی گئی تھی۔ یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ برسات کا موسم شروع ہونے سے کئی ہفتے قبل بارشوں کے متعلق جو پیشگوئی کی گئی تھی ، کیا بارشوں کے بعد کی صورتحال کو دیکھ کر یہ سوچا جاسکتا ہے کہ ہماری حکومتوں نے اس پیشگوئی کو مد نظر رکھ کر مون سون سے نمٹنی کی تیاریاں کیں۔