Column

یومِ الحاقِ پاکستان: کشمیر کا پاکستان سے اٹوٹ رشتہ

یومِ الحاقِ پاکستان: کشمیر کا پاکستان سے اٹوٹ رشتہ
تحریر : طلعت نسیم

19جولائی 2025ء کو دنیا بھر میں پاکستانی اور کشمیری عوام یومِ الحاقِ پاکستان تاریخی جوش و جذبے سے مناتے ہیں۔ یہ دن پاکستانیوں اور کشمیریوں کیلئے گہری تاریخی اور جذباتی اہمیت کا حامل ہے اور پاکستان اور کشمیر کے درمیان موجود اٹوٹ رشتے کی یاد دہانی کراتا ہے۔ یہ دن 1947ء کی اُس تاریخ ساز گھڑی کی یاد دلاتا ہے جب کشمیری عوام کے حقیقی نمائندوں نے متفقہ قرارداد کے ذریعے پاکستان کے ساتھ الحاق کی غیر متزلزل خواہش کا اظہار کیا۔ یہ فیصلہ مشترکہ شناخت اور یکساں مستقبل کی بنیاد پر کیا گیا۔
اگرچہ کئی دہائیاں گزر چکی ہیں، بھارت نے کشمیری عوام کی اس جائز خواہش کو طاقت، ظلم اور جبر کے ذریعے دبانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ان مظالم کے باوجود کشمیری عوام کے حوصلے پست نہیں ہوئے اور ان کا رشتہ پاکستان سے پہلے سے زیادہ مضبوط ہو چکا ہے۔1947ء میں جب برصغیر کی تقسیم طے پا رہی تھی، تو جموں و کشمیر کے ہندو مہاراجہ نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی عوامی خواہش کے برخلاف کشمیر کو ایک آزاد ریاست بنانے کی کوشش کی۔ کشمیر کے مسلم رہنمائوں نے راجہ کے ارادوں کو بروقت بھانپ لیا۔ 19جولائی 1947ء کو آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کا ایک اہم اجلاس سرینگر کے میں سردار محمد ابراہیم خان کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا۔ اس اجلاس کی صدارت بزرگ کشمیری رہنما چودھری حامداللہ خان نے کی۔
اس اجلاس میں 59بہادر اور زیرک کشمیری رہنمائوں نے ’’ اللہ اکبر‘‘ اور ’’ پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعروں کی گونج میں پاکستان سے الحاق کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی۔ یہ فیصلہ کوئی اتفاقیہ اقدام نہیں تھا بلکہ مذہبی، جغرافیائی، ثقافتی اور اقتصادی قربت پر مبنی ایک گہری وابستگی کا اظہار تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ فیصلہ پاکستان اور بھارت کے باضابطہ قیام سے تقریباً ایک ماہ قبل کیا گیا، جو کشمیری عوام کی آزادانہ اور خودمختارانہ سوچ اور مرضی کا مظہر تھا۔
یہ قرارداد اُس نام نہاد ’’ معاہدہ الحاق‘‘ سے قبل منظور کی گئی جس کے بارے میں بھارت کا دعویٰ ہے کہ مہاراجہ نے اکتوبر 1947ء میں بھارت سے کیا۔ پاکستانی موقف اور کشمیری عوام اس دعوے کو سختی سے مسترد کرتے ہیں اور اسے ایک جعلی اور جبری دستاویز قرار دیتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے بھی بھارت کے اس دعوے کو قانونی حیثیت نہیں دی اور کشمیر کو متنازع علاقہ تسلیم کیا ہے۔
یہ قرارداد، پاکستان کے کشمیر پر دعوے کو ایک مضبوط اخلاقی اور سیاسی بنیاد فراہم کرتی ہے اور بھارت کے اقدامات کو کشمیری عوام کی مرضی اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتی ہے۔ اس میں زور دیا گیا کہ کشمیری عوام کی پاکستان سے مذہبی، ثقافتی، جغرافیائی اور اقتصادی ہم آہنگی ہے جس کی بنیاد پر وہ پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں اور یہ بات دو قومی نظریے کے عین مطابق ہے جس کی بنیاد پر پاکستان قائم ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ مسئلہ کشمیر محض زمینی تنازعہ نہیں بلکہ پاکستان کے نظریاتی وجود اور مسلمان اکثریتی خطے کے حقِ خودارادیت کا مسئلہ ہے، جو تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے۔
کشمیر کی پاکستان سے جغرافیائی قربت ناقابلِ تردید حقیقت ہے۔ شمالی پاکستان سے شینا اور بلتی زبانیں اور پنجاب سے پوٹھوہاری اور پہاڑی لسانی و ثقافتی رشتے کشمیری شناخت کو پاکستان سے جوڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ الحاقِ پاکستان کی قرارداد کشمیری مزاحمت کی بنیاد بنی اور آج بھی ان کی آزادی کی جدوجہد کو جلا بخشتی ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے 1947ء میں پاکستان سے ایک ’’اسٹینڈ سٹل ایگریمنٹ‘‘ کیا یعنی کہ وہ کشمیر کے الحاق سے متعلق کسی قسم کا فیصلہ نہیں کریں گے اور اس کی آئینی حیثیت کو جوں کا توں برقرار رکھیں گے، تاہم جب عوامی بغاوت زور پکڑ گئی تو بھارت نے دعویٰ کیا کہ 26اکتوبر 1947ء کو مہاراجہ نے بھارت سے الحاق کا معاہدہ کر لیا ہے۔ یہ دعویٰ پاکستان، کشمیری عوام اور بین الاقوامی ماہرین کی جانب سے شک و شبہ کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
بھارت خود یکم جنوری 1948ء کو مسئلہ کشمیر کو اقوامِ متحدہ میں لے کر گیا۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 47، 21اپریل 1948ء کو منظور ہوئی، جس میں کشمیری عوام کو حقِ خودارادیت دینے کی بات کی گئی۔ تاہم بھارت نے بعد ازاں نہ صرف رائے شماری کے وعدے سے انحراف کیا بلکہ ہر سطح پر اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔ یہ رویہ واضح کرتا ہے کہ بھارت نے بین الاقوامی اداروں کو اپنی سہولت کے وقت استعمال کیا اور جب فیصلے اس کے حق میں نہ آئے تو انہیں نظر انداز کر دیا۔
ماضی کی امن کوششوں کی ایک بڑی خامی یہ رہی کہ بھارت نے کشمیریوں کو اس تنازعے کے حل میں شریک کرنے سے انکار کیا۔ بین الاقوامی برادری پر اخلاقی اور قانونی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بھارت پر موثر دبائو ڈالے تاکہ وہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور عالمی قوانین پر عمل کرے۔
بھارت کے زیرِ تسلط جموں و کشمیر (IIOJK)کو دنیا کے سب سے زیادہ عسکریت زدہ علاقے میں تبدیل کر دیا گیا ہے، جہاں 9لاکھ سے زائد بھارتی فوج تعینات ہے، یعنی ہر آٹھ کشمیریوں پر ایک فوجی۔ اس کے علاوہ بھارت ’’ سیٹلر کولونیلزم‘‘ کی پالیسی کے تحت کشمیریوں کی سیاسی، مذہبی اور ثقافتی شناخت کو مٹانے کے درپے ہے۔ اس میں نئے ڈومیسائل قوانین متعارف کروانا، چار ملین سے زائد غیر کشمیری ہندوئوں کو جعلی ڈومیسائل دینا اور مقامی کشمیریوں کی زمینوں و املاک پر قبضہ شامل ہے۔
ایسا ہی ایک عمل 5اگست 2019ء کو بھارت نے کیا جس میں غیر قانونی طور پر کشمیر کی خودمختار حیثیت ختم کرکے براہِ راست بھارتی حکومت کے ماتحت کر دیا۔ یہ اقدامات کشمیریوں کی شناخت کو مٹانے اور ان کے حقِ خودارادیت کی آواز کو دبانے کے ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہیں۔
بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھارتی فوج کی طرف سے سنگین مظالم کو تفصیل سے دستاویزی شکل میں محفوظ کیا ہے، جن میں جعلی مقابلے، حراستی قتل، چھاپے، پیلٹ گنوں کا استعمال، جبری گمشدگیاں اور خواتین کے خلاف جنسی تشدد شامل ہیں۔ ہزاروں لاشیں بغیر نشان زد قبروں میں ملی ہیں۔ بھارت کے کالے قوانین جیسے آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ (AFSPA)نے فوج کی طرف سے ایسے غیر انسانی جرائم کو مکمل استثنا دے رکھا ہے۔بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ نے کشمیر کو پاکستان کی ’’ شہ رگ‘‘ قرار دیا تھا۔ یہ محض ایک سیاسی نعرہ نہیں بلکہ ایک نظریاتی اور جذباتی حقیقت کا اظہار ہے، جہاں ایک طرف کشمیر پاکستان کے مسلمان تشخص سے جڑا ہے، وہیں دوسری جانب کشمیر جغرافیائی طور پر پاکستان سے زیادہ متصل ہے، پاکستان کی طرف بہنے والے دریائوں کا ماخذ کشمیر ہی ہے۔
مرحوم حریت رہنما سید علی شاہ گیلانی کا نعرہ ’’ ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘‘، آج بھی مقبوضہ کشمیر میں گونجتا ہے اور نسل در نسل مزاحمت کی علامت بن چکا ہے۔ 19جولائی 1947ء کی قرارداد محض ایک تاریخ نہیں بلکہ کشمیریوں کی اجتماعی شناخت اور جدوجہد کی روح ہے۔
یومِ الحاقِ پاکستان کے موقع پر یہ حقیقت واضح ہے کہ کشمیری عوام نے اپنے حقیقی نمائندوں کے ذریعے 19جولائی 1947 ء کو پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیا، جو تقسیمِ ہند سے قبل کا مستند اور جائز اعلان تھا۔ یہی قرارداد آج بھی کشمیریوں کی آزادی کی جدوجہد کی بنیاد ہے۔
پاکستان کشمیری عوام کی جائز جدوجہدِ آزادی کی مکمل اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھے گا، اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ان کے حقِ خودارادیت کے حصول کے لیے اپنی پرعزم کوششوں کو جاری رکھے گا۔

جواب دیں

Back to top button