موجود آبی بحران کا حل اور بند دروازے

موجود آبی بحران کا حل اور بند دروازے
تحریر : مسعود چودھری
تربیلا ڈیم کے اسپل وے کے دروازے ایک بار پھر کھل چکے ہیں۔ مگر افسوس، ہمارے فہم و فراست، ادارہ جاتی اصلاحات اور قومی ترجیحات کے دروازوں پر اب بھی قفل پڑے ہیں۔ تربیلا سے دو لاکھ ستر ہزار کیوسک پانی کا اخراج اُس المیے کا تسلسل ہے جسے ہم سال ہا سال سے دہرا رہے ہیں۔ قدرت کا انمول تحفہ پانی ہمیں مفت ملتا ہے، مگر ہم نہ اُسے سنبھال پاتے ہیں، نہ محفوظ کر پاتے ہیں، اور نہ ہی اس سے پوری طرح فائدہ اٹھا پاتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ پانی، جو زندگی کی علامت ہے، ہماری بدانتظامی اور نالائقی کا استعارہ بن چکا ہے۔
پاکستان دنیا کے اُن چند ممالک میں شامل ہے جن کے پاس اپنی ضروریات کا محض تیس دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان جیسے زرعی ملک کو کم از کم دو سو دنوں کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ اس کے مقابلے میں بھارت 180دن اور چین ایک ہزار دن کا پانی محفوظ رکھنے کی استعداد رکھتا ہے۔ جب ہم ہر سال کی مون سون بارشوں یا گلشیئر پگھلنے کے دوران حاصل ہونے والے وافر پانی کو نہ تو اسٹور کرتے ہیں، نہ بجلی بنانے میں استعمال کرتے ہیں، تو وہ پانی بغیر کسی مصرف کے سمندر میں جا گرتا ہے۔
تربیلا ڈیم کے سِپل وے سے خارج ہونے والا پانی نہ صرف ضائع ہوتا ہے، بلکہ وہ قومی سطح پر اُس صلاحیت کا بھی منہ چڑاتا ہے جو ہم ابھی تک بروئے کار نہیں لا سکے۔ پاکستان اپنے کل دستیاب سالانہ پانی کا صرف 10فیصد ( یعنی 14ملین ایکڑ فٹ) ذخیرہ کر پاتا ہے، جب کہ اس وقت ہمیں کم از کم 50سے 60ملین ایکڑ فٹ سٹوریج کی ضرورت ہے۔ اِرسا کے ڈیٹا کے مطابق، صرف گزشتہ تین سالوں میں اوسطاً ہر سال 15سے 20ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر برد ہو چکا ہے، جبکہ 2022ء میں یہ حجم 40ملین ایکڑ فٹ تک جا پہنچا۔
بدقسمتی سے یہ پانی اس وقت ڈیلٹا میں آتا ہے جب اسے وہاں ضرورت نہیں ہوتی، اور جب ڈیلٹا کو پانی درکار ہوتا ہے، تب وہ خشک، نمک زدہ اور بنجر زمین کا منظر پیش کرتا ہے۔ ایسا بالکل ویسے ہی ہے جیسے کسی شخص کو پورے سال کی خوراک صرف سات دنوں میں دے دی جائے، وہ چاہے تو بھی اُس خوراک کو سنبھال کر سال بھر نہیں کھا سکتا۔ اگر کوٹری بیراج سے روزانہ 14000کیوسک پانی چھوڑا جائے، تو یہ سالانہ 10ملین ایکڑ فٹ بنتا ہے جو ڈیلٹا کی ماحولیاتی بحالی کے لیے کافی ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ باقی دنوں کے لیے ہمارے پاس ذخیرہ ہو۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اب بھی بنیادی باتوں پر اتفاق نہیں کر پاتے۔ جبکہ دوسری طرف دنیا ہمیں بار بار یاد دلاتی ہے کہ مسائل کا حل ممکن ہے، اگر ارادہ ہو۔ وہ ممالک جو شدید پانی کی قلت کا شکار ہیں، آج اپنی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بارش کے پانی کا 85فیصد محفوظ کرتے ہیں اور جدید ترین ری سائیکلنگ ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہیں۔ یہ بہت زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔ سنگاپور نے اپنے پورے شہری نظام کو ’’ نیواٹر‘‘ یعنی ری سائیکلڈ واٹر پر منتقل کر دیا ہے۔ بھارت کے شہر اندور اور سوراشترا میں مقامی سطح پر ریچارج ویل اور چھوٹے ذخائر بنائے گئے ہیں جن کے ذریعے پانی کی زیر زمین سطح بحال کی گئی ہے۔ بنگلور میں کئی نئی ہائوسنگ اسکیمز میں بارش کے پانی کا ذخیرہ قانونی طور پر لازمی قرار دیا جا چکا ہے۔
پاکستان کے پاس بھی اس ضمن میں ایک عملی، مقامی، سادہ اور کامیاب ماڈل موجود ہے۔ صرف افسوس یہ ہے کہ ہم نے اسے بڑے پیمانے پر اپنانے کی کوشش نہیں کی۔ سنہ 2015ء میں لاہور کے قذافی اسٹیڈیم کے قریب انجینئرز نے ایک منفرد تجربہ کیا۔ انہوں نے بارش کے پانی کو سڑکوں سے زیر زمین جذب کرنے کے لیے ’’ پانی چوس کنویں‘‘ بنائے۔ یہ کنویں صرف 6x9x8فٹ کے تھے، جن کی تہہ میں بجری، ریت، پتھر اور سوراخ دار پائپ لگائے گئے تھے تاکہ بارش کا پانی زمین میں جذب ہو سکے۔ حیران کن طور پر، پہلی ہی بارش میں سڑک پر جمع ایک لاکھ لیٹر پانی ان کنوئوں نے تین گھنٹے کے اندر اندر جذب کر لیا۔ نہ پانی سڑک پر رکا، نہ ٹریفک بند ہوئی، نہ گندا پانی گٹروں میں گیا، اور سب سے اہم بات ، زیر زمین پانی کی سطح 3.5فٹ بلند ہو گئی۔
پانی کا فلٹر کیا گیا نمونہ لیبارٹری میں ٹیسٹ کروایا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ پانی بارش کے آلودہ پانی سے صاف ہو چکا تھا۔ دو کنوئوں پر کل لاگت صرف 15لاکھ روپے آئی تھی۔ اگر اسی اصول پر پورے لاہور میں 43نشاندہی شدہ نشیبی جگہوں پر کنویں بنائے جائیں تو ہزاروں ایکڑ فٹ پانی ہر سال زمین میں واپس پہنچایا جا سکتا ہے، جو کہ اربن فلڈنگ کے مستقل مسئلے کا بھی حل ہے اور زیر زمین پانی کی سطح کو بحال رکھنے کا بھی۔ انجینئرز نے حساب لگایا کہ صرف مون سون کے پانی سے لاہور جیسے شہر میں ایک کروڑ سے زائد افراد کے سال بھر کے لیے پینے اور صنعتی استعمال کا پانی زمین میں ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔
یہ ماڈل لاہور تک محدود نہیں۔ کراچی، اسلام آباد، فیصل آباد، ملتان، پشاور الغرض ہر شہر میں نشیبی علاقے، خالی پارکس، اسکول، دفاتر، اور فیکٹریوں کی جگہیں موجود ہیں جنہیں ریچارج زون میں بدلا جا سکتا ہے۔ اسلام آباد جیسے شہر، جہاں مارگلہ کی پہاڑیوں سے نیچے بہتا بارانی پانی ہر سال سیلاب بن کر گلیوں میں جمع ہو جاتا ہے، وہاں پارکوں، کالجوں، اور سرکاری دفاتر میں ریچارج کنویں نہایت موثر ثابت ہو سکتے ہیں۔’’ ڈونگی گرائونڈز‘‘ اب ختم ہو گئیں لیکن بارش کا پانی زیر زمین پہنچانے کا اچھا اور سستا مصرف رہیں۔ ’’ چھپڑ سسٹم‘‘ جو لاہور اور دہلی میں صدیوں سے پانی کو جمع رکھنے کے لیے استعمال ہوتا رہا، اسے جدید سائنسی اصولوں کے تحت دوبارہ متعارف کروایا جا سکتا ہے۔
اس مقصد کے لیے قومی سطح پر ایک ’’ واٹر ریچارج اتھارٹی‘‘ قائم کرنا ضروری ہے جو تمام صوبائی اداروں، وفاقی اداروں، واسا، جامعات، انجینئرنگ اداروں، اور شہری تنظیموں کو ایک چھت تلے لائے اور ہر شہر کے لیے الگ الگ ریچارج ماسٹر پلان ترتیب دے۔ قانونی سطح پر ہر نئی عمارت، ہاسنگ اسکیم اور صنعتی زون میں ریچارج کنواں لازمی قرار دیا جائے، اور پرانی عمارتوں کو مرحلہ وار اس نظام میں شامل کیا جائے۔
موجودہ وقت ہم سے سوال کر رہا ہے۔ تربیلا کے دروازے ہر سال کھلتے ہیں، لاکھوں ایکڑ فٹ پانی بہتا ہے، سیلاب آتے ہیں، فلڈ ایمرجنسیز لگتی ہیں، ڈیلٹا خشک رہتا ہے، اور پھر اگلا سال آ جاتا ہے۔ لیکن ہمارے شعور کے دروازے کب کھلیں گے؟ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم کب تک پانی کے مسئلے کو صرف ’’ ڈیم‘‘ یا ’’ تنازع‘‘ سمجھتے رہیں گے، اور کب اس کا حل مقامی، شہری، قدرتی اور موثر طریقوں سے تلاش کریں گے۔ پانی کا مستقبل، درحقیقت پاکستان کا مستقبل ہے اور یہ فیصلہ ہمیں آج کرنا ہے، وگرنہ بہت دیر ہو جائے گی۔