Aqeel Anjam AwanColumn

کال سینٹرز ‘‘ کا پاکستانی معیشت میں حصہ!!!

’’ کال سینٹرز ‘‘ کا پاکستانی معیشت میں حصہ!!!
تحریر : عقیل انجم اعوان

پاکستان میں پچھلے چند برسوں کے دوران ایک ایسا شعبہ تیزی سے ابھرا ہے جو نہ صرف لاکھوں نوجوانوں کو روزگار فراہم کر رہا ہے بلکہ ملک کے لیے قیمتی زرمبادلہ بھی کما رہا ہے۔ یہ شعبہ ہے ’’ کال سینٹرز‘‘ ۔ یہ وہ دفاتر ہیں جہاں دن رات تین شفٹوں میں کام کرنے والے نوجوان فون کالز کے ذریعے دنیا بھر کے گاہکوں سے بات کرتے ہیں ان کی شکایات سنتے ہیں ان کو سروسز دیتے ہیں اور یوں ملک کے لیے کمائی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ آج پاکستان میں قریباً ہزار سے زائد کال سینٹرز رجسٹرڈ ہیں۔ صرف دو سال پہلے یعنی 2022ء میں یہ تعداد 761تھی جو اب بڑھ کر ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ بعض رپورٹس کے مطابق غیر رجسٹرڈ یا چھوٹے پیمانے پر چلنے والے کال سینٹرز کو بھی شامل کیا جائے تو یہ تعداد10ہزار سے بھی اوپر جا چکی ہے۔ ان سینٹرز میں کام کرنے والے نوجوانوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ صرف وہ نوجوان جو براہِ راست ان دفاتر میں ملازمت کر رہے ہیں، ان کی تعداد 3لاکھ سے زائد سمجھی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ فری لانسنگ، ڈیجیٹل مارکیٹنگ، آئی ٹی سپورٹ، کسٹمر سروس، وائس اور نان وائس پراجیکٹس جیسے کاموں سے وابستہ نوجوان الگ ہیں۔ یہ سب لوگ گھر بیٹھے یا دفاتر میں بیٹھ کر پاکستان کے لیے کمائی کر رہے ہیں۔ مالی سال 2024۔25میں پاکستان نے صرف کال سینٹرز کی مدد سے 207ملین ڈالر کی ایکسپورٹ آمدنی حاصل کی ہے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 20فیصد زیادہ ہے۔ اسی طرح پاکستان کی آئی ٹی اور آئی ٹی ایز کی ایکسپورٹ کا حجم سولہ ارب ڈالر سالانہ سے تجاوز کر چکا ہے۔ یعنی یہ شعبہ نہ صرف روزگار دے رہا ہے بلکہ ملکی معیشت کو سہارا بھی دے رہا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ایسے اہم اور نفع بخش شعبے کے ساتھ ریاست کا رویہ کیسا ہے؟ کیا ریاست اس شعبے کو سر آنکھوں پر بٹھا رہی ہے؟ کیا حکومت ان نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے؟ کیا ادارے ان کی مدد کے لیے آگے آ رہے ہیں؟ جواب ہے ’’ نہیں‘‘۔ اس کے برعکس آئے دن خبریں آتی ہیں کہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ یا دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی کال سینٹر پر چھاپہ مارتے ہیں، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، موبائل، ہارڈ ڈرائیو، ڈی وی آر، سی سی ٹی وی کیمرے تک اٹھا کر لے جاتے ہیں تاکہ دفتر کے پاس کچھ ثبوت ہی باقی نہ رہے۔ جب دفتر والے اپنا سامان واپس لینے جاتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ پہلے اعلیٰ افسر کی سفارش لائیں۔ بعض اوقات کئی کئی چکر لگانے کے بعد بھی کچھ نہیں ملتا۔ آخرکار خاموشی سے پیسے دے کر اپنا سامان واپس لینا پڑتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ ادارے قانونی طور پر رجسٹرڈ ہیں اگر ان کے پاس ایس ای سی پی یا پی ایس ای بی سے اجازت نامہ ہے اگر ان کے ملازمین کا ریکارڈ ہے اگر ان کے دفتر میں کوئی غیر قانونی کام نہیں ہو رہا تو پھر ریاستی ادارے ان کے دفاتر پر کیوں چھاپے مارتے ہیں؟ ان کے ڈیٹا کو کیوں ضبط کرتے ہیں؟ اور ان کا نظام کیوں تباہ کرتے ہیں؟ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف حکومت نوجوانوں کو فری لانسنگ سکھانے کی بات کرتی ہے۔ وزیراعظم ہر تقریر میں ڈیجیٹل پاکستان کا خواب دکھاتے ہیں، نوجوانوں کو آئی ٹی ٹریننگ دینے کی باتیں ہوتی ہیں مگر دوسری طرف انہی نوجوانوں کے دفاتر پر دھاوا بول دیا جاتا ہے۔ یہ رویہ اس طبقے کے ساتھ زیادتی نہیں بلکہ کھلی ناانصافی ہے۔ ایماندار لوگ خوفزدہ ہو جاتے ہیں بعض دفتر بند کر دیتے ہیں زیادہ تر ملک چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور کچھ خاموشی سے گھر بیٹھ جاتے ہیں۔ مگر اس خاموشی کی قیمت صرف وہی نہیں بلکہ پورا ملک ادا کرتا ہے۔ ایسے ماحول میں ایک ایماندار کال سینٹر جو تین شفٹوں میں پچاس نوجوانوں کو روزگار دے رہا ہو وہ اگر بند ہو جائے تو اس کے اثرات صرف ان پچاس افراد تک محدود نہیں ہوتے بلکہ ان کے خاندانوں ان کے گھروں اور معیشت تک جاتے ہیں۔ اس وقت ریاست کو ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ واضح پالیسی بنائے۔ سب سے پہلے کال سینٹرز کی رجسٹریشن چیک کرے۔ دیکھے کہ دفتر کے پاس قانونی اجازت نامہ ہے یا نہیں ملازمین کا ریکارڈ ہے یا نہیں، بیرونِ ملک کمپنیوں سے کیا معاہدے ہیں اور پھر اگر کوئی فراڈ ہو رہا ہو تو یقیناً کارروائی کرے۔ مگر سب کو ایک ہی لاٹھی سے نہ ہانکا جائے۔ یہ تاثر کہ ’’ ہر کال سینٹر جرم کی آماجگاہ ہے‘‘، ملکی مفاد کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ دنیا میں پاکستان کا امیج خراب ہوتا ہے۔ بیرون ملک کمپنیاں اعتماد کھو بیٹھتی ہیں۔ نوجوان مایوس ہوتے ہیں۔ آخر کتنی دیر تک ہم اپنے ہی لوگوں کو مجرم سمجھتے رہیں گے؟ اور جب ہمارے ادارے خود سسٹم کے بغیر ہوں تو انصاف کیسے ممکن ہے؟
دوسری طرف بھارت کی معیشت میں کال سینٹرز اور بی پی او (Business Process Outsourcing)انڈسٹری نے گزشتہ دو دہائیوں میں غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔ انگریزی زبان پر عبور، سستی افرادی قوت اور ٹائم زون کے فائدے نے بھارت کو عالمی آئوٹ سورسنگ کا مرکز بنا دیا۔ یہ صنعت اب محض کالز تک محدود نہیں رہی بلکہ مالیاتی تجزیہ، ٹیکنیکل سپورٹ، قانونی معاونت اور ہیلتھ کیئر سروسز تک پھیل چکی ہے۔ 2024ء میں بھارت نے صرف بی پی او خدمات سے 55ارب ڈالر سے زائد زرِ مبادلہ کمایا جبکہ 50لاکھ سے زائد افراد براہِ راست اس شعبے سے منسلک ہیں۔ بنگلور، پونے، حیدرآباد اور دہلی جیسے شہر عالمی کمپنیوں کا مرکز بن چکے ہیں جہاں گوگل، ایمازون، مائیکروسافٹ، سٹی بینک وغیرہ کے بی پی او دفاتر موجود ہیں۔ اس انڈسٹری نے بھارتی متوسط طبقے کو مالی استحکام، بین الاقوامی exposureاور خود اعتمادی دی ہے۔ ان کال سینٹرز نے بھارت کو عالمی خدماتی معیشت میں ممتاز مقام دلوایا ہے۔
ہمارے ملک میں ضرورت ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے خود اپنی اصلاح کریں۔ اپنا طریقہ کار درست کریں۔ کوئی واضح نظام بنائیں۔ پہلے یہ شناخت کریں کہ کون فراڈیا ہے کون غیر قانونی کال سینٹر چلا رہا ہے اور کون ایمانداری سے ملک کے لیے کام کر رہا ہے۔ ایمانداروں کو حوصلہ دیں مجرموں کو سزا دیں۔ کال سینٹرز اس وقت لاکھوں خاندانوں کی امید ہیں۔ یہ وہ ادارے ہیں جو پاکستان کے اندر باہر سے ڈالر لا رہے ہیں۔ یہ وہ نوجوان ہیں جو گھر بیٹھ کر پاکستان کا پرچم بلند کر رہے ہیں۔ ان کی امید توڑنا ان کی حوصلہ شکنی کرنا دراصل پاکستان کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ یاد رکھیں اگر ریاست نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے اگر اپنا رویہ نہ بدلا، اگر ہم نے ان ایماندار اور محنتی نوجوانوں کو تحفظ نہ دیا تو صرف کال سینٹرز نہیں بلکہ اعتماد، معیشت اور ترقی سب کچھ بکھر جائے گا اور پھر ہم خود ہی حیران کھڑے ہوں گے کہ آخر کہاں غلطی ہو گئی۔ یہ کالم نہ کسی سیاسی ایجنڈے کے لیے لکھا گیا ہے نہ کسی ذاتی مفاد کے لیے یہ ان لاکھوں خاموش نوجوانوں کی آواز ہے جو دن رات محنت کر کے پاکستان کے لیے کچھ کر رہے ہیں مگر بدلے میں خوف چھاپے اور تضحیک سہہ رہے ہیں۔ ان کی طرف ایک بار محبت سے دیکھیں یہی پاکستان میں ڈالر لا کر پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھا سکتے ہیں، بس زرا حکومتی توجہ درکار ہے۔

جواب دیں

Back to top button