Column

زرداری اپنی صدارتی مدت پوری کریں گے

زرداری اپنی صدارتی مدت پوری کریں گے
تحریر : شکیل سلاوٹ
پاکستان کی سیاست ایک بار پھر اس موڑ پر ہے جہاں تجربہ، تدبر اور سیاسی بصیرت کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔ ایسے وقت میں صدر آصف علی زرداری کی موجودگی نہ صرف سیاسی استحکام کی ضمانت ہے بلکہ اُن کی ثابت قدمی اس بات کا بھی اعلان ہے کہ وہ اپنی آئینی مدت پوری کریں گے۔ اور مخالفین صرف دیکھتے رہ جائیں گے۔آصف علی زرداری، جو کئی دہائیوں سے ملکی سیاست کے اتار چڑھائو کا سامنا کر چکے ہیں، آج ایک بار پھر ملک کے صدر ہیں۔ وہ وہی شخصیت ہیں جنہوں نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی جمہوریت کا علم بلند رکھا اور مصالحت و مفاہمت کی سیاست کو فروغ دیا۔
اب جب کہ وہ دوبارہ ایوانِ صدر میں ہیں، ان کے مخالفین کو ایک بار پھر اُن کی سیاسی حکمت عملی کے سامنے پسپائی کا سامنا ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ آصف علی زرداری پس منظر میں چلے جائیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اب بھی منظرِ سیاست پر پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہیں۔ صدر آصف علی زرداری ہر قسم کے حالات کا سامنا رکھنے کی سکت رکھتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اگر کسی رہنما نے صبر، حکمت اور تدبر کے ساتھ حالات کا سامنا کیا ہے تو وہ سابق صدر اور موجودہ صدر مملکت آصف علی زرداری ہیں۔ وہ نہ صرف جمہوری جدوجہد کا استعارہ ہیں بلکہ اُن کا سیاسی کیریئر ثابت کرتا ہے کہ وہ ہر قسم کے داخلی و خارجی بحران کا جرأت مندانہ طور پر مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
آصف علی زرداری نے اپنی زندگی کے کئی قیمتی سال جیلوں میں گزارے، جہاں اُن پر بے شمار مقدمات قائم کیے گئے، مگر اُنہوں نے کبھی شکایت کا اظہار نہیں کیا۔ اُن کی خاموشی دراصل ان کی طاقت تھی۔ اُن کا یہ قول ’’ جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ نہ صرف ایک سیاسی نعرہ بلکہ ایک عملی حکمت عملی بھی بن چکا ہے، جس پر وہ ہمیشہ کاربند رہے۔ حالیہ ملکی سیاسی و معاشی صورتحال میں جب دیگر رہنماؤں کے قدم ڈگمگا رہے ہیں، آصف علی زرداری انتہائی پُرعزم اور متوازن نظر آتے ہیں۔ اُن کی سیاسی بصیرت، بین الاقوامی تعلقات کو سمجھنے کی صلاحیت، اور پارٹی قیادت کو متحد رکھنے کی کوششیں قابلِ تحسین ہیں۔ آصف علی زرداری نے صرف پیپلز پارٹی کو بحرانوں سے نکالنے میں کردار ادا نہیں کیا بلکہ قومی سیاست میں بھی مفاہمت، برداشت اور سیاسی استحکام کا درس دیا۔2008ء کے بعد جب وہ ملک کے صدر منتخب ہوئے تو اُن کے دور میں نہ صرف تمام اداروں کو مضبوط کیا گیا بلکہ صوبوں کو خودمختاری دینے کے لیے 18ویں ترمیم جیسے انقلابی اقدامات بھی کیے گئے۔
آج جب وہ ایک بار پھر ملک کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہیں، تو وہ تمام تجربات اور سبق اُن کے ساتھ ہیں جو انہوں نے ماضی کے کٹھن حالات سے سیکھے۔ آصف علی زرداری کی موجودگی ایک ایسے سیاسی رہنما کی نشاندہی کرتی ہے جو بحرانوں سے گھبرانے والا نہیں بلکہ انہیں حکمت سے قابو پانے والا ہے۔
آصف علی زرداری نہ صرف ایک زیرک سیاست دان ہیں بلکہ ایک مدبر، صلح جو اور قومی وحدت کے علمبردار بھی ہیں۔ آصف زرداری کی سیاست ہمیشہ صبر، برداشت، اور سیاسی تدبر کی علامت رہی ہے۔ وہ کبھی جذبات میں بہہ کر فیصلے نہیں کرتے، بلکہ ہر قدم پھونک پھونک کر رکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ مخالفین کب کیا کھیل کھیل سکتے ہیں، اور وہ اس کھیل کے ماہر کھلاڑی ہیں۔
وہ رہنما جو کل تک آصف علی زرداری کے ساتھ تصویریں بنوا رہے تھے، آج اُن پر تنقید کی نشتر چلا رہے ہیں۔ لیکن آصف علی زرداری نہ کبھی ماضی میں ان حرکتوں سے پریشان ہوئے اور نہ آج ہوتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ وقت سب سے بڑا منصف ہے، اور وفاداریاں بدلنے والے آخرکار بے نقاب ہو جاتے ہیں۔
آصف علی زرداری کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ وہ جمہوریت کو کمزور نہیں ہونے دیتے۔ وہ پارلیمنٹ، عدلیہ اور دیگر اداروں کے احترام پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج اُن کے مخالف بھی ان کی سیاسی فہم کو تسلیم کرتے ہیں، خواہ زبانی نہ سہی۔ صدر زرداری آئینی مدت پوری کریں گے۔ یہ نہ صرف ایک سیاسی پیشگوئی ہے بلکہ ایک حقیقت ہے جس کی آثار واضح ہو چکے ہیں۔ ان کے مخالفین ہر محاذ پر ہار کا سامنا کر رہے ہیں اور شاید آنے والے دنوں میں وہ صرف یہ کہتے سنائی دیں گے۔
ہر سازش اور پریشانیوں میں صبر کرنے والا، دوستوں کا ساتھ دینے والا آصف علی زرداری پاکستان کی سیاسی داستان میں آصف علی زرداری کا نام ان رہنمائوں میں شامل ہے جنہوں نے ہر دور میں چیلنجز اور سازشوں کا مقابلہ صبر و حکمت سے کیا۔ دوستوں کا ساتھ نبھانے اور سیاسی اختلافات کے باوجود قومی مفاد کو مقدم رکھنے کا جذبہ آصف علی زرداری کی شخصیت کا اہم جزو رہا ہے۔
سازشوں کے دفاعی حصار میں:
آصف علی زرداری نے اپنی سیاسی جدوجہد کے آغاز سے ہی مخالفین کی سازشوں کو دیکھتے ہوئے ہر موڑ پر محتاط چالیں چلیں۔ 1990ء کی دہائی میں ان پر لگائے گئے مقدمات اور جیل خانوں کے دورانیے نے انہیں کمزور نہیں کیا بلکہ مضبوط کیا۔ انہوں نے ہمیشہ کہا کہ دشمن کی منصوبہ بندی کا سب سی بہترین جواب عوام کی خدمت ہے اور یہی اصول انہوں نے اپنی سیاست کا نصب العین بنایا۔
مشترکہ حکمت عملی اور اتحادیوں کا اعتماد:
آصف علی زرداری کو ان کے قریبی اتحادی اور پارٹی رہنما اپنا روحانی بزرگ تصور کرتے ہیں۔ متحدہ اپوزیشن کے آغاز سے لے کر قومی سیاست میں مفاہمت کے اقدامات تک، انہوں نے ہمیشہ دوستوں کے ساتھ کھڑے ہونے کو اہمیت دی۔ 2008 ء میں جب پیپلز پارٹی نے حکومت سنبھالی، تو انہوں نے تمام جمہوری قوتوں کو ساتھ ملا کر ملک کو استحکام کی راہ پر گامزن کیا۔صبر و تحمل کا عملی درسآصف علی زرداری کا قول ہے۔ یہی فلسفہ انہوں نے 2013ء کے انتخابات کے بعد درپیش قحط، مہنگائی اور سیاسی بحران میں بھی اپنایا۔ ان کے رہنما اصولوں میں تلخی نہیں بلکہ معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی روایت شامل ہے۔ صدر مملکت کی حیثیت سے آف علی زرداری نے قومی یکجہتی اور سیاسی مستقل مزاجی کے علاوہ دوستوں اور اتحادیوں کے ساتھ تعاون کو فروغ دیا۔ انہوں نے بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کا مثبت تاثر قائم رکھا اور مختلف عالمی رہنمائوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو مضبوط کیا۔
آج جب وہ ایک بار پھر ملک کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں، تو ان کے پاس وہ تمام تجربات اور عقل ہے جو انہوں نے طویل سیاسی سفر میں حاصل کیے۔ ہر سازش کے سامنے ان کا صبر اور دوستوں کے ساتھ ان کا وفادارانہ رویہ پاکستان کی سیاست میں ایک مثال ہے۔
شکیل سلاوٹ

جواب دیں

Back to top button