بے نظیر انکم سپورٹ کی ادائیگی میں ہیرا پھیری

بے نظیر انکم سپورٹ کی ادائیگی میں ہیرا پھیری
تحریر : رفیع صحرائی
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا آغاز 2008ء میں بننے والی پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے دور میں ہوا تھا جس کے تحت مستحق افراد کو ہر ماہ امدادی رقم پوسٹ آفس کے ذریعے دی جاتی تھی۔ یوں جہاں پیپلز پارٹی نے اپنی شہید قائد کی خدمات کے اعتراف اور عوام میں اس کی یاد کو زندہ رکھنے کے لیے ایک کامیاب پروگرام کو شروع کیا وہیں پر کم آمدنی والے افراد کی حکومت کی طرف سے مالی مدد بھی شروع ہو گئی۔ 2013ء میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو اس حکومت نے بھی یہ پروگرام بے نظیر انکم سپورٹ کے نام سے ہی جاری رکھا اور امدادی رقم میں بھی اضافہ کر دیا۔ اس کے بعد 2018ء میں عمران خان کی حکومت آئی تو انہیں بتایا گیا کہ مستحقین کی لسٹ میں بہت سے گھپلے ہیں اور غیر مستحق افراد کی ایک کثیر تعداد بھی اس سے استفادہ کر رہی ہے۔ تحقیقات ہوئیں تو ہوشربا انکشافات سامنے آئے۔ کتنے ہی گریڈ 17اور اس سے اوپر کے حاضر سروس آفیسر بھی بے نظیر انکم سپورٹ سے امدادی رقم وصول کر رہے تھے۔ بہت سے زمیندار اور متمول افراد بھی مستحقین کی فہرست میں شامل تھے چنانچہ غیر مستحق افراد کو لسٹ سے نکال دیا گیا۔ فہرست سے نکالے جانے والے افراد کی کل تعداد 8لاکھ 20ہزار تھی۔ جن میں کئی مستحق افراد بھی سیاسی مخالفت کی بھینٹ چڑھ کر فہرست سے خارج ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی عمران خان نے ایک اور فیصلہ بھی کیا کہ سندھ کی اتحادی جماعتوں کے مطالبے پر اس سپورٹ پروگرام کا نام تبدیل کر کے احساس کفالت پروگرام رکھ دیا۔ ( بعد ازاں پی ڈی ایم حکومت نے دوبارہ اسے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP)کا نام دے دیا)۔ کرونا کے دنوں میں امدادی رقم بھی بڑھا دی گئی تھی۔ البتہ ایک خرابی یہ ضرور ہوئی کہ پوری تحصیل کے مستحقین کے لیے ایک یا دو مراکز قائم کر کے یہ امداد دی جانے لگی۔ عام طور پر کوئی سکول یا کالج مرکز بنایا جاتا جہاں دور دراز سے چل کر مستحقین پہنچتے۔ مستحقین کی تعداد ہزاروں میں ہوتی
تھی۔ مرکز میں ان کے بیٹھنے کا کوئی معقول انتظام ہوتا تھا نہ پینے کے پانی کا۔ لوگ بہت خوار ہوتے۔ اکثر لوگوں کی باری تین چار روز بعد آتی۔ ایسے میں کرپٹ مافیا حرکت میں آیا اور عملے نے اس مافیا کے ساتھ ملی بھگت کر کے لوٹ مار شروع کر دی۔ اس مافیا کے ایجنٹ کھلم کھلا مستحقین سے ایک ہزار سے دو ہزار روپے وصول کر کے ان کا نمبر فوری لگوا دیتے۔ مستحقین مجبور ہوتے تھے۔ سارا دن خوار ہونے کے بعد بھی ان کی باری نہیں آتی تھی۔ انہیں مایوس گھروں کو لوٹنے اور اگلے دن پھر چالیس پچاس کلو میٹر کا سفر کر کے آنے اور کرایہ خرچ کرنے کی نسبت پیسے دے کر کام نکلوانا بہتر آپشن لگتا تھا۔ کئی لوگ شکایت پر پکڑے بھی جاتے مگر اگلے ہی روز وہ دوبارہ ’’ اپنے کام میں مصروف‘‘ نظر آتے کیونکہ اس نیک کمائی میں سب برابر کے حصہ دار ہوتے تھے۔
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام نے اپنے آغاز سے مستحقین تک رقوم کی ترسیل کے لیے مختلف طریقے اپنائے جن میں پاکستان پوسٹ کے ذریعے منی آرڈرز، اسمارٹ ڈیبٹ کارڈ، موبائل فون بینکنگ، اور بایو میٹرک تصدیقی نظام(BVS)شامل ہیں۔ اس وقت (BVS)کے ذریعے ہی رقم دی جا رہی ہے۔ ہر تین ماہ بعد مستحقین کو اوسطاً 14000روپے دئیے جا رہے ہیں۔ BISPکی انتظامیہ نے رقوم کی ترسیل کے لیے مختلف شہروں میں لوگوں کو فرنچائز دے کر انہیں BVSڈیوائسز دے رکھی ہیں۔ اس سے یہ فائدہ ہوا ہے کہ مستحقین کو دور دراز کا سفر نہیں کرنا پڑتا اور انہیں اپنے ہی شہر میں رقم کی ادائیگی کی سہولت مل گئی ہے۔ BISPان فرنچائزز کو رقوم کی ادائیگی کے صلے میں 300روپے فی مستحق سروس چارجز کی مد میں ادا کرتی ہے۔
فرنچائزز کی سہولت نے آسانی کے ساتھ ساتھ ایک خرابی کو بھی جنم دیا ہے۔ فرنچائزز والے فی مستحق پانچ سو سے دو ہزار روپے تک مستحقین سے وصول کر رہے ہیں۔ اگر کوئی مستحق مطلوبہ رقم کی ادائیگی سے انکار کرے تو اسے یہ کہہ کر واپس کر دیا جاتا ہے کہ آپ کے انگوٹھے کا نشان نادرا کے ریکارڈ سے میچ نہیں کر رہا۔ البتہ رقم کی ادائیگی کے بعد یہ نشان فوراً میچ کر جاتا ہے۔
فرنچائز والے مبینہ طور پر ایک اور بہت بڑا گھپلا یہ کرتے ہیں کہ کسی شریف اور بھولے بھالے مستحق کو تاڑ لیتے ہیں۔ اس کی بایو میٹرک تصدیق کے بعد کہتے ہیں کہ آپ کے اکائونٹ میں کوئی مسئلہ ہو گیا ہے۔ دوبارہ درخواست دینی پڑے گی۔ اگلی مرتبہ رقم آنا شروع ہو جائے گی۔ وہ مرد یا خاتون اسی بات پر خوش ہو جاتے ہیں کہ اس بندے کی مہربانی سے ہمارا اکائونٹ بحال ہو جائے گا اگلی دفعہ سے رقم ملنے لگے گی۔ وہ دعائیں دیتے خالی ہاتھ رخصت ہو جاتے ہیں جبکہ رقم فرنچائز والے کی جیب میں چلی جاتی ہے۔ اس طریقہ واردات سے یہ فرنچائز مالکان ہر ماہ لاکھوں روپے کما رہے ہیں۔ BISPسے ملنے والی رقم اس کے علاوہ ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP)کے تحت ادائیگی کے طریقہ کار کو شفاف بنایا جائے۔ تمام مستحقین کے فری بینک اکائونٹ کھول کر انہیں اے ٹی ایم کارڈ مہیا کیے جائیں۔ ہر سہ ماہی میں خود کار نظام کے تحت مستحقین کی رقوم ان کے بینک اکائونٹ میں ٹرانسفر کر دی جائیں تاکہ مستحقین قطاروں میں لگے بغیر باوقار طریقے سے اپنی رقم اے ٹی ایم کے ذریعے بینکوں سے وصول کر سکیں۔