ColumnRoshan Lal

سانحہ لیاری میں بے موت مرنے والے

سانحہ لیاری میں بے موت مرنے والے
تحریر : روشن لعل

لیاری میں پانچ منزلہ ، مخدوش اور ناقابل رہائش قرار دی گئی عمارت گرنے سے 27انسانوں کی ہلاکت پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔اکثر لوگ یہاں یہ سوچتے ہیں کہ لیاری میں عمارت گرنے جیسے سانحوں پر چاہے کچھ لکھا جائے یا نہ لکھا جائے کسی کو کچھ فرق نہیں پڑتا۔ یہ بات بڑی حد تک درست ہونے کے باوجود اپنا حال یہ ہے کہ عام لوگوں کے بے موت مارے جانے جیسے واقعات پر اگر کچھ نہ لکھا جائے تو اپنے اندر کمی سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ اسی احساس نے لیاری میں بے موت مارے جانے والے 27انسانوں کے لیے کچھ لکھنے پر اکسایا۔ لیاری کی مخدوش عمارت کے گرنے پر جو کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے اس میں افسوس کی نسبت سیاست کا اظہار زیادہ دیکھنے کو ملا۔ اس معاملہ میںنہ صرف پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کے مخالفوں نے سیاست برائے سیاست کی بلکہ حکومتی ترجمانوں کے جواب میں بھی سیاست صاف نظر آئی۔ اس سانحہ پر صرف حکومتی یا حزب مخالف سیاستدانوں کے ہی نہیں بلکہ میڈیا اور مرنے والوں کے لواحقین کے انداز بیان میں بھی سیاست کا عنصر نمایاں رہا۔
سانحہ لیاری پر جو سیاست ہوئی اسے ایک طرف رکھتے ہوئے یہ بات برملا کہی جارہی ہے کہ لیاری میں ناقابل رہائش عمارت کے گرنے سے ہونے والی ہلاکتوں کی کئی دیگر وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت مخدوش عمارتوں کے معاملہ کو ذمہ داری سے نمٹانے میں ناکام رہی ہے۔ یہ بات کوئی راز نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی کے ناقد اسے رعایتی کیا کبھی واجب پوری نمبر دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے۔ ایسی صورتحال میں ضرورت اس امر کی تھی جن ناقابل رہائش عمارتوں کے گرنے سے عام لوگوں کے بے موت مارے جانے کا واضح امکان موجود تھا ، پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کوئی سانحہ رونما ہونے سے پہلے انہیں خالی کراتی، لیکن جو کچھ لیاری میں ہو چکا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ سندھ حکومت کی صوبائی محکموں پر کمزور گرفت کی وجہ سے ان محکموں کے افسران بالا اپنے فرائض کی ادائیگی میں ناقابل معافی غفلت کے مرتکب ہوتے رہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، لیاری کی ناقابل رہائش عمارت کے گرنے کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس کا ڈیزائن 5+1 نہیں بلکہ +1 منظور کرایا گیا تھا۔ ابتدائی طور پر یہ عمارت منظور شدہ ڈیزائن کے مطابق تعم یرہوئی لیکن مخدوش اور ناقابل رہائش قرار دیئے جانے کے بعد اس کے مالک نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے افسروں کی ملی بھگت سے اسے گرانے کی بجائے اس پر تین مزید منزلیں تعمیر کر لیں۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ کسی بھی کثیر المنزلہ عمارت کی تعمیر سے قبل تیار کیا جانے والے ڈیزائن میں سٹیل یا سریے کی مقدار نیچے سے اوپر نہیں بلکہ انجینئرنگ کے فارمولوں کے تحت اوپر سے نیچے کی طرف اخذ کی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی عمارت اگر چھ منزلہ ہے تو اوپر سے نیچے کی طرف اس کی ہر منزل کے بیم ، پلر اور لینٹر میں استعمال ہونے والے سریے یا سٹیل کی مقدار میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا جائے گا کیونکہ اوپر سے نیچے کی طرف ہر منزل کے وزن میں اضافہ ہونا قدرتی بات ہے۔ لیاری کی جو عمارت گرائونڈ فلور پر دو مزید منزلوں کی تعمیر سے ہی مخدوش اور ناقابل رہائش ہو چکی تھی ، نہ تو اس پر ملی بھگت سے مزید تین منزلیں تعمیر کرنے والے مالکان نے یہ محسوس کیا کہ وہ انسانی جانوں سے کھیلنے جیسا کتنا بڑا جرم کرنے جارہے ہیں اور نہ ہی اس غیر قانونی تعمیر پر اپنی آنکھیں بند رکھنے والے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے افسران کو یہ احساس ہوا کہ ان کی لالچ اور غفلت کی وجہ سے کتنے معصوم لوگ بے موت مارے جاسکتے ہیں۔
لیاری میں عمارت گرنے سے ہونے والی 27لوگوں کی ہلاکت پر پیپلز پارٹی کے صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی کی معذرت کے بعد ان لوگوں کی وکالت کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی جو اس معاملے میں سندھ حکومت کو بری الزمہ قرار دینے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ سعید غنی نے معذرت کرنے کے ساتھ غفلت اور بدعنوانی کے مرتکب سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے افسران بالا کے خلاف سخت کاروائی کرنے کا بیان بھی دیا تھا ۔ سعید غنی کے بیان کے مطابق سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے مجاز افسروں کی گرفتاری کے بعد ان کے خلاف مزید قانونی کاروائی کا آغاز ہو چکا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سندھ حکومت اور بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے افسروں پر تنقید کرنے والے میڈیا پر ابھی تک اس مالک کا نام اور تصویر سامنے نہیں آسکی جو ایک مخدوش تین منزلہ عمارت پر مزید تین غیر قانونی منزلیں تعمیر کرنے کے جرم کا مرتکب ہوا۔ اس ذکر سے پہلے کہ کراچی میں منظور شدہ بنیادی ڈیزائن سے ہٹ کر غیر قانونی کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر کا سلسلہ کتنا پرانا ہے ، یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ غیر قانونی اور ناقص عمارتیں تعمیر کرنے کا کام کراچی ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں جاری ہے اور اس کام کی مثالیں کہیں اور نہیں بلکہ لاہور میں بھی تلاش کی جاسکتی ہیں۔ لاہور میں نومبر 2015ء میں انڈسٹریل ایریا سندر میں ایک ایسی زیر تعمیر فیکٹری گرنے سے 45مزدور ہلاک اور 150زخمی ہوئے تھے جس کی تکمیل سے پہلے ہی اس میں شاپنگ بیگ بنانے کا کام شروع کر دیا گیا تھا۔ جس فیکٹری میں تکمیل سے پہلے انڈسٹریل پروڈکشن شروع نہیں ہونی چاہیے تھی اس میں صوبائی حکومت کے متعلقہ اداروں کی غفلت کی وجہ سی ناقص میٹریل استعمال ہوا اور پھر اس کے گرنے سے کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ مذکورہ فیکٹری گرنے سے ایک برس قبل لاہور کی علاقہ داروغہ والا میں منظور شدہ ڈیزائن کے برعکس تعمیر کی گئی مسجد کی چھت گرنے سے 24نمازی زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ وطن عزیز میں ڈیزائن کی بغیر یا منظور شدہ ڈیزائن کے برعکس غیر قانونی اورناقص عمارتیں تعمیر کرنے کا سلسلہ کتنا پرانا پرانا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ستمبر 1976 ء یعنی اب سے تقریباً49برس قبل کراچی میں ایک چھ منزلہ عمارت گرنے سے 80لوگ ہلاک اور 50کے قریب زخمی ہوئے تھے۔ اس دور میں شائع شدہ اخبارات کے مطابق ، عمارت کے منظور کرائے گئے ڈیزائن کے تحت گرائونڈ فلور کے بعد صرف دو مزید منزلیں تعمیر کی جاسکتی تھیں لیکن اس کے مالک نے متعلقہ محکموں کی ملی بھگت سے تین مزید منزلیں تعمیر کر کے اسے چھ منزلہ بنا دیا۔ جس عمارت کا ڈیزائن تین منزلہ تھا اس پر چھ منزلیں تعمیر کیے ہوئے ابھی صرف ایک برس ہوا تھا کہ یہ عمارت زمین بوس ہو گئی ۔ اس عمارت کے زمین بوس ہونے سے کرم الٰہی نامی اس کے مالک کی اپنی فیملی کے چھ لوگ بھی ہلاک ہوئے تھے۔ لیاری میں مخدوش اور ناقابل رہائش قرار دی گئی بلڈنگ کے گرنے سے 27لوگوں کی ہلاکت کے بعد سندھ حکومت نے مزید مخدوش اور ناقابل رہائش قرار دی گئی عمارتوں کو گرانے اور بلڈنگ کوڈ پر سختی سے عمل درآمد کا عندیہ تو دے دیا لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ کراچی میں کثیر المنزلہ عمارتوں کی غیر قانونی تعمیر کی وجہ سے معصوم لوگوں کے بے موت مارے جانے کا دہائیوں پرانا سلسلہ کب ختم ہوتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button