خسارے میں ڈوبتے بڑے ادارے

خسارے میں ڈوبتے بڑے ادارے
تحریر : امتیا ز احمد شاد
پاکستان میں سرکاری ادارے، جنہیں کبھی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا تھا، آج قومی خزانے پر بوجھ بنتے جا رہے ہیں۔ وزارتِ خزانہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق 15سے زائد بڑے سرکاری اداروں کے مجموعی نقصانات 59کھرب روپے سے تجاوز کر چکے ہیں۔ صرف گزشتہ مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں ہی ان اداروں کے خسارے میں 3.45کھرب روپے کا اضافہ ہوا۔ اس کے ساتھ ہی پنشن واجبات 17کھرب روپے اور گردشی قرضے 49کھرب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار نہ صرف معیشت کی زبوں حالی کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ اس بات کا عندیہ بھی ہیں کہ اگر فوری اور سنجیدہ اصلاحات نہ کی گئیں تو مستقبل میں حالات مزید بدتر ہو سکتے ہیں۔
سب سے زیادہ نقصان نیشنل ہائی ویز اتھارٹی ( این ایچ اے) نے کیا، جس کا مجموعی خسارہ 1953کھرب روپے ہو چکا ہے۔ اس کے بعد بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں نقصان میں سرفہرست ہیں۔ کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی ( کیسکو) کا مجموعی خسارہ 770.6کھرب روپے، جبکہ پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی ( پیسکو) کا خسارہ 684.9ارب روپے ہے۔ جون 2024سے دسمبر 2024کے دوران این ایچ اے نے 153ارب 27کروڑ روپے کا نقصان کیا۔ اسی عرصے میں کیسکو کا نقصان 58ارب 10کروڑ روپے رہا جبکہ سیپکو کا 29ارب 60کروڑ روپے۔ مجموعی طور پر بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا 6ماہ کا نقصان 472ارب 99کروڑ روپے تک پہنچ گیا ہے۔ یہ صورتحال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ بجلی کے شعبے میں لائن لاسز، چوری، ناقص انفراسٹرکچر اور ناقص انتظامی فیصلے بدستور جاری ہیں۔ حالیہ سالوں میں بجلی کی قیمتوں میں بار بار اضافہ بھی نہ تو گردشی قرضے ختم کر سکا اور نہ ہی کمپنیوں کے نقصانات کم ہو سکے۔ بجلی اور شاہراہوں کے علاوہ دیگر شعبوں کی کارکردگی بھی حوصلہ افزا نہیں۔ پاکستان اسٹیل ملز، جو کسی دور میں پاکستان کی معاشی ترقی کا استعارہ تھی، آج بند پڑی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسٹیل ملز کا 6ماہ کا نقصان 15ارب 60کروڑ روپے جبکہ مجموعی نقصان 255ارب 82کروڑ روپے ہو چکا ہے۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی ( پی ٹی سی ایل) کا 6ماہ کا نقصان 7ارب 19کروڑ روپے جبکہ مجموعی نقصان 43ارب 57کروڑ روپے ہو چکا ہے۔ پاکستان ایگریکلچر اسٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن ( پاسکو) نے 6ماہ میں 7ارب روپے کا نقصان کیا جبکہ اس کا مجموعی نقصان 11ارب 13کروڑ روپے تک جا پہنچا ہے۔ یہ تمام ادارے ایک عرصے سے خسارے میں چل رہے ہیں۔ ان میں سے کئی ادارے ایسے ہیں جہاں پیداوار یا سروسز تقریباً بند ہو چکی ہیں، لیکن انتظامیہ کے اخراجات، ملازمین کی تنخواہیں اور مراعات بدستور جاری ہیں۔
قابل غور بات ہے کہ گردشی قرضے 49کھرب روپے تک پہنچ چکے ہیں، جن میں بجلی کے شعبے کا حصہ 24کھرب روپے ہے۔ گردشی قرضے اس لیے بڑھتے جا رہے ہیں کیونکہ بجلی بنانے والی کمپنیوں کو ادائیگیاں وقت پر نہیں ہو پاتیں، جس کی وجہ سے وہ تیل یا گیس خریدنے کے لیے قرضے لیتی ہیں اور یہ بوجھ عوام پر ڈال دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف پنشن کی مد میں واجبات 17کھرب روپے ہو چکے ہیں۔ یہ رقم ہر سال بڑھتی جا رہی ہے کیونکہ نئی بھرتیاں ہوتی ہیں، ریٹائرڈ ملازمین کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے اور پنشن کے نظام میں اصلاحات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہ سوال سب کے ذہن میں آتا ہے کہ آخر یہ ادارے کیوں مسلسل خسارے میں جا رہے ہیں؟ یہ جاننا کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ بنیادی طور پر سیاسی مداخلت، شفافیت کا فقدان، ناقص انفراسٹرکچر، بد انتظامی اور کرپشن نے ایسے ناسور ان تمام اداروں کی تنزلی کا سبب بنے ہیں۔ یہ تمام نقصانات آخر کار عوام کی جیب سے پورے کیے جاتے ہیں۔ ان اداروں کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے حکومت کو نئے قرضے لینے پڑتے ہیں یا ٹیکس بڑھانے پڑتے ہیں، جس کا نتیجہ مہنگائی، بیروزگاری اور ترقیاتی منصوبوں میں کٹوتیوں کی صورت میں نکلتا ہے۔
پاکستان میں کئی دہائیوں سے اصلاحات کی بات کی جا رہی ہے، لیکن عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ماہرین اور بین الاقوامی اداروں کی سفارشات واضح ہیں کہ ان اداروں کی نجکاری یا جزوی نجکاری کی جائے تاکہ مسابقت پیدا ہو اور کارکردگی بہتر ہو۔ انتظامیہ میں پروفیشنل لوگ لائے جائیں، سیاسی مداخلت ختم کی جائے، مالی معاملات میں شفافیت اور سخت آڈٹ کا نظام بنایا جائے، ضرورت سے زیادہ اسٹاف کو ری سٹرکچر کیا جائے، ملازمین کی تربیت کی جائے اور انفرا سٹرکچر میں سرمایہ کاری کی جائے تاکہ ادارے جدید تقاضوں کے مطابق اپنی خدمات فراہم کر سکیں۔ دنیا کے کئی ممالک نے اپنے سرکاری اداروں میں اصلاحات کر کے انہیں نفع بخش بنایا۔ بھارت نے ریلوے کے شعبے میں بڑی اصلاحات کیں، برطانیہ نے کئی ادارے پرائیویٹ سیکٹر کو دے دیے، جبکہ ترکی نے بجلی کے شعبی میں نجکاری کے ساتھ ساتھ سخت قوانین نافذ کیے جن کے مثبت نتائج سامنے آئے۔
پاکستان کے سرکاری ادارے بدانتظامی، بدعنوانی اور غیر موثر پالیسیوں کی وجہ سے ملکی معیشت پر بوجھ بن چکے ہیں۔ یہ 59کھرب کا نقصان محض ایک عدد نہیں، بلکہ اس کے پیچھے عوام کی مشکلات، ترقیاتی منصوبوں کی بندش، مہنگائی اور بیروزگاری کی ایک طویل داستان ہے ۔ یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ موجودہ نظام کو جوں کا توں چلانا ممکن نہیں رہا۔ ہمیں سخت فیصلے لینے ہوں گے۔ فوری اصلاحات کی جائیں، غیر ضروری اخراجات ختم کیے جائیں اور اداروں کو خودمختار اور خود انحصار بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ یہ فیصلہ حکومت کو کرنا ہوگا کہ یہ ادارے اسی طرح قومی خزانے کو دیمک کی طرح چاٹتے رہیں گے یا پھر انہیں ملکی ترقی کا زینہ بنایا جائے گا۔ معاشی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی سرکاری ادارے بنتے جا رہے ہیں۔ اگر ہم نے آج فیصلے نہ کیے تو آنے والا کل مزید مشکل ہو گا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ان اداروں کو سیاست سے آزاد کر کے عوام اور معیشت کے فائدے کے لیے استعمال کیا جائے۔