Columnمحمد مبشر انوار

آنکھ مچولی

آنکھ مچولی
تحریر :محمد مبشر انوار(ریاض)

سلسلہ وہیں سے شروع کرتا ہوں کہ جہاں اپنی گزشتہ تحریر ’’ ہوشمندانہ جواب‘‘ ختم کی تھی کہ معاملات بہرحال ایک تسلسل کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں اور بنیادی مقصد میں بہرطور کوئی جوہری تبدیلی سامنے نہیں ماسوائے یہ کہ مقاصد کے حصول کا طریقہ کار، حالات کے بہائو کے مطابق، تبدیل ہو رہے ہیں۔ گزشتہ تحریر کا اختتام ان الفاظ پر کیا تھا کہ ’’ بعینہ ایسی ہی صورتحال ایک بار پھر بن چکی ہے کہ جن عرب ریاستوں کو غزہ کے انتظام و انصرام کی ذمہ داری سونپی جانی تھی، ان ریاستوں کی جانب سے یہ موقف سامنے آ گیا ہی کہ تب تک غزہ کا انتظام انصرام نہیں سنبھال سکتے جب تک کہ فلسطینی عوام، ان کے ساتھ کھڑی نہیں ہوتی۔ علاوہ ازیں! ان ریاستوں نے ممکنہ طور پر اس خدشہ کو بھانپتے ہوئے کہ اس نئے پینترے سے، انہیں براہ راست جنگ میں ملوث کیا جا سکتا ہے، ساٹھ دن کی بجائے مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے تا کہ اگر انتظام انصرام ان ریاستوں کو تفویض ہوتا ہے تو کم از کم یہ ریاستیں طویل مدتی ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کریں بجائے عجلت میں غیر معیاری ترقیاتی کام کئے جائیں۔ میری دانست میں ان ریاستوں، ایک طرف مستقبل قریب میں براہ راست اس جنگ میں ملوث ہونے کے خدشات کو کم کیا ہے تو دوسری طرف ساٹھ دن کے لالی پاپ کی بجائے مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کرکے، اسرائیلی درندگی و ریاستی دہشت گردی و مسلم نسل کشی کو روکنے کی سعی کی ہے۔ وقت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے، ان ریاستوں کے ہوشمندانہ جواب نے چال الٹ دی ہے‘‘۔ اسی دوران حالات پر نظر رکھنے والوں کو علم ہے کہ نیتن یاہو امریکی یاترا پر، نیویارک پہنچ چکے تھے اور ان کی ملاقاتیں نہ صرف امریکی صدر ٹرمپ بلکہ ان کے نائب جے ڈی وینس، سیکرٹری آف سٹیٹ مارکو روبیو اور سٹیو وٹکوف سے بھی ہوئی تھی، نیتن یاہو کی یہ ملاقاتیں معمول سے زیادہ طویل ہوئی ہیں، جن سے یہ نظر آنے لگا کہ نیتن یاہو کے لئے وائٹ ہاؤس او ر اس کے مکیں دیدہ و دل فرش راہ کئے ہوئے ہیں اور اس کی اہمیت بہرطور بہت زیادہ ہے۔ ان ملاقاتوں کا احوال تقریبا سب کو علم ہے کہ ان ملاقاتوں میں بہرکیف مشرق وسطی کی صورتحال پر ہر گفتگو ہوئی اور وائٹ ہاؤس کے مکین نیتن یاہو کی خواہشات کی تکمیل کرتے دکھائی دئیے محسوس ہوئے کہ جو باتیں نیتن یاہو نے امریکی صدر و نائب صدر کی موجودگی میں میڈیا سے کی، ان سے یہ تاثر مزید پختہ ہوتا نظر آیا کہ وائٹ ہائوس بظاہر کسی اصولی موقف کے ساتھ کم جبکہ نیتن یاہو و صیہونی خواہشات کے ساتھ زیادہ کھڑا ہے۔ وہ امیدیں، جو دنیا ان ملاقاتوں سے وابستہ کئے بیٹھی تھی، ابتدائی مرحلے پر دم توڑتی نظر آئی کہ جب نیتن یاہو نے میڈیا کے سامنے ان ملاقاتوں کی تفصیل رکھتے ہوئے ، ایک انچ تو کیا ملی میٹر بھی صیہونی عزائم سے پیچھے ہٹنے سے انکار کیا اور یہ تاثر دینے کی بھرپور کوشش کی کہ نیتن یاہو اور صیہونی منصوبوں پر امریکہ و انتظامیہ اس کے ساتھ ہے اور وہ اپنے مظالم غزہ پر ایک تسلسل کے ساتھ جاری رکھے گا۔ اس صورتحال کے منظر عام پر آنے کے بعد، یقینی طور پر عرب ریاستوں کا ’’ ہوشمندانہ جواب‘‘ ناقدین کو سمجھ آنے لگا کہ واقعتا ایسی کسی بھی خواہش کے نتیجے، کسی ٹھوس یقین دہانی کی عدم موجودگی میں، عرب ریاستوں کا غزہ کا انتظام و انصرام سنبھالنا ایک نئی مشکل سے دوچار ہونے کے مترادف ہوتا گو کہ دوسری طرف قطر میں مذاکرات کا سلسلہ تاحال جاری ہے اور نیتن یاہو کی خواہشات کے برعکس، غزہ کی صورتحال کو پرامن کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ نیتن یاہو کو سب سے بڑا مسئلہ ایک طرف غزہ میں موجود حماس سے ہے تو دوسری طرف وہ اپنے یرغمالیوں کی بازیابی کے لئے اتاولا دکھائی دیتا ہے لیکن تاحال اسرائیل اپنی تمام تر کوششوں و کاوشوں و درندگی کے باوجود، حماس کے قبضہ سے اپنے یرغمال بازیاب نہیں کروا سکا جبکہ جتنے بھی یرغمالی آزاد ہوئے ہیں، ان کی بازیابی میں حماس کی آمادگی ضروری امر رہا ہے۔ یوں اسرائیلی طاقت و عسکری حیثیت کا جو جنازہ عالمی سطح پر نکل چکا ہے، اس سے دنیا بالعموم جبکہ مسلم دنیا بالخصوص اسرائیلی طاقت کے دبدبے سے بہرطور آزاد ہوتی دکھائی دیتی ہے تاہم ہنوز مسلم دنیا اسرائیل کے ساتھ براہ راست کسی بھی جنگ میں عملی طور پر کودنے کے لئے تیار دکھائی نہیں دیتی۔ اس حوالے سے اسے مسلم دنیا کی کمزوری سمجھیں یا ان کی دفاعی صلاحیت کے اغیار پر انحصار کو مورد الزام ٹھہرائیں، حقیقت یہی ہے کہ وہ غزہ کے قریب ترین مسلم دنیا براہ راست اسرائیل سے ٹکر لینے کی پوزیشن میں تاحال نہیں ہے۔ اپنی عسکری قوت کا ٹھیک ٹھیک اندازہ نہ لگاتے ہوئے، کسی ایسے دشمن سے بھڑ جانا، سراسر حماقت اور اپنی خودمختاری کو پلیٹ میں رکھ کر پیش کرنے کے مترادف ہے، جب آپ کی دفاعی طاقت کے ذمہ داران ببانگ دہل، آپ کے دشمن کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے دعویدار ہوں، لہذا اس صورتحال میں دانشمندی کا تقاضہ یہی ہے کہ پہلے اپنی دفاعی طاقت و صلاحیت کو اغیار کے انحصار سے آزاد کرائیں، دشمن کی طاقت کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگائیں، اس کے کمزوریوں کو بخوبی سمجھیں اور اپنی طاقت میں اتنا اضافہ ضرور کریں کہ میدان جنگ میں آپ کو خفت نہ اٹھانی پڑے۔
اپنی دفاعی طاقت و صلاحیت کے حوالے سے مشرق وسطی میں ایران نے اپنا بھرپور اظہار کر دیا ہے کہ کم از کم اس کی دفاعی صلاحیت بہرطور اس کے دشمنوں کے تعاون پر انحصار نہیں کرتی لہذا وہ اپن دفاعی صلاحیت کے بل بوتے پر کسی بھی دشمن کے سامنے کھڑی ہو سکتی ہے۔ ایران نے بہرطور جو نقصان چند دنوں کی جنگ میں اسرائیل کو پہنچایا ہے اور جس طرح نیتن یاہو اور اس کی قبیل کے لوگوں کی چیخیں نکلوائی ہیں، وہ اب ساری دنیا کے سامنے ہے، جس سے کم از کم اسرائیل کے نہ صرف ناقابل تسخیر ہونے کا زعم ختم ہوا ہے بلکہ موجودہ صورتحال میں اس کے گریٹر اسرائیل کے منصوبے کی خامیاں بھی سامنے آ گئی ہیں، تاہم یہ الگ بات ہے کہ اسرائیل کے پشت پناہ گریٹر اسرائیل منصوبے پر اسرائیل کی مدد میں کس حد تک جاتے ہیں اور ان خامیوں کو کیسے اور کتنی جلدی کور کرتے ہیں، اس کا اندازہ بھی جلد ہی ہو جائیگا کہ گریٹر اسرائیل کا منصوبہ بہرطور وقوع پذیر تو ہونا ہے اور ہونی کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ نیتن یاہو اپنے حالیہ دورہ امریکہ میں اپنی بھرپور کوششوں میں ہے کہ کسی نہ کسی طرح امریکہ اس کے موقف پر قائل ہو جائے اور غزہ سے نہ صرف حماس کو بے دخل کرنے کے احکامات جاری کرے بلکہ کسی نہ کسی طرح جنگ بندی کی بجائے، اسرائیل کو یہ اجازت دے کہ وہ ہر حالت میں غزہ میں جاری درندگی و قتل و غارت گری و نسل کشی کا شرمناک کام جاری رکھے لیکن کیا امریکہ کے لئے یہ سب کرنا ممکن ہے یا ہو گا؟ اطلاعات یہ ہیں کہ امریکہ نے نیتن یاہو سے اس کی خواہشات کا اظہار تو میڈیا کے سامنے کروا دیا ،اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کی لیکن اب سننے میں یہ آرہا ہے کہ امریکی انتظامیہ کی جانب سے سخت رویہ اختیار کیا جا چکا ہے اور نیتن یاہو کو یہ باور کروانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اس کی خواہشات اپنی جگہ لیکن بہرطور نیتن یاہو کو ہر صورت امریکی امن منصوبے کے مطابق کام کرنا ہو گا۔ یہ احکامات اگر واقعتا حالات و واقعات کو سمجھتے ہوئے، خلوص نیت سے دئیی جارہے ہیں تو نیتن یاہو اور اس کے انتہائی پسند حامیوں کے لئے یہ ممکن نہیں کہ ان احکامات سے صرف نظر کر سکے تاآنکہ وہ اس دوران اپنی پٹاری سے کوئی ایسی نئی تجویز سامنے نہ لے آئے، جو امریکی انتظامیہ کو ازسرنو اپنے احکامات کا جائزہ لینے پر مجبور کر دے اور نیتن یاہو کے خون آلود ہاتھوں کو روکنے لیت و لعل سے کام لے۔ حیرت انگیز طور پر، غزہ کا بحران مسلسل اپنی صورتحال بدلتا ہوا دکھائی دیتا ہے کہ یہاں پر ہر وہ منصوبہ جس سے جنگ بندی ممکن ہو سکے، نیتن یاہو اپنی مکاری چالبازی و دھوکہ دہی سے ناکام کرتا چلا آرہا ہے اور غزہ کے مسلمانوں کی نسل کشی مسلسل جاری ہے۔ اس وقت بھی میڈیا پر ایسی خبریں بہرحال چل رہی ہیں کہ امریکی انتظامیہ نے نیتن یاہو کے تمام تر حربوں کے باوجود اسرائیل کو سختی کے ساتھ جنگ بندی کے احکامات دئیے ہیں اور مسلم ریاستوں کے تحفظات کو مد نظر رکھتے ہوئے، اس جنگ بندی کو مستقل بنیادوں پر قائم کرنے کا امکان بھی بہرحال موجود ہے، اگر اس آنکھ مچولی میں بالآخر مستقل جنگ بندی ہوجاتی ہے تو یہ بہرحال ایک بڑی کامیابی ہو گی۔

جواب دیں

Back to top button