لاپتہ افراد ایک بہانہ۔۔۔!

تحریر ، عبد اللہ حیدر
بلوچستان میں ’’ لاپتہ افراد‘‘ کے نام پر جو بیانیہ بنایا گیا ہے، وہ درحقیقت ایک گہری سازش کا حصہ ہے، جسے بھارت کی پشت پناہی سے فتنہ الہندوستان اور اس کی پراکسی تنظیمیں چلاتی ہیں۔ ان تنظیموں میں بلوچ یکجہتی کمیٹی (BYC)، بلوچ اکٹویسٹ الائنس میڈیا (BAAM)، بلوچ وائس فار جسٹس، اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز (VBMP)جیسے گروہ شامل ہیں جو انسانی حقوق کا لبادہ اوڑھ کر سوشل میڈیا اور بین الاقوامی فورمز پر ریاست پاکستان کو بدنام کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ حالیہ مثال محمد نعیم ساتکزی کی ہے، جسے 6اگست 2024ء کو ’’ لاپتہ‘‘ قرار دیا گیا، مگر یکم جولائی 2025ء کو مستونگ میں فتنہ الہندوستان بی ایل اے کے دہشت گردی کی واردات میں مارا گیا۔ جسے ان نام لیوا انسانی حقوق کے تنظیموں کی رکن گلزادی بلوچ، یاسر بلوچ وغیرہ کی جانب سے مسنگ پرسنز قرار دیا، اس پر معصوم بن کر خوب شور و غوغا کیا گیا۔ جبکہ حقیقت یہ نکلی کہ فتنہ الہندوستان نے خود یکم جولائی 2025ء کو مستونگ میں اس کی کارروائیوں کو تسلیم کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ’’ نعیم ساتکزی نے مستونگ میں عام شہریوں کو دہشت گردی کا نشانہ بناتے ہوئے ایک سولہ سالہ بچے کو قتل جبکہ 8عام شہریوں کو زخمی کیا‘‘، چنانچہ سکیورٹی فورسز کی جانب سے موثر اور بروقت جوابی کارروائی میں ہلاک کر دیا گیا۔ نعیم ساتکزی کی مثال واضح کرتی ہے کہ فتنہ الہندوستان اور بی وائی سی بھارت کے ایجنڈے کے تحت دہشت گردوں کو ’’ لاپتہ افراد‘‘ کا لبادہ پہنا کر عوامی ہمدردی حاصل کرتے ہیں، مگر بعد میں یہی عناصر دہشت گردی اور لوٹ مار کرتے ہوئے پکڑے یا مارے جاتے ہیں۔
ایسے متعدد واقعات سامنے آ چکے ہیں جہاں بی وائی سی اور دیگر بلوچ قوم پرست تنظیموں نے دہشت گردوں کو لاپتہ افراد کے طور پر پیش کیا۔ یہاں سات کیسز عوام کے سامنے رکھ رہا ہوں، پہلا یہ کہ جعفر ایکسپریس پر حملے کے دوران مارے جانے والے دہشت گردوں میں نور زمان بلوچ اور ندیم شامل تھے، جن کا تعلق تربت اور گوادر سے تھا۔ یہ دونوں افراد بلوچ یکجہتی کمیٹی کی فہرست میں ’’ لاپتہ افراد‘‘ کے طور پر شامل تھے۔ اسی طرح حمال فتح بلوچ، جنہوں نے گوادر کے پی سی ہوٹل پر حملہ کیا، اور کریم جان بلوچ، جن کی بہن نے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ ان کا بھائی فتنہ الہندوستان کے بلوچ لبریشن آرمی ( بی ایل اے) کا رکن تھا، بھی انہی کیمپینز کا حصہ رہے۔
دوسرا جب جہانزیب مینگل عرف بالاچ، جو نوشکی کے علاقے قادر آباد کا رہائشی تھا، گزشتہ دو سال سے دہشت گرد تنظیم بی ایل اے کے ساتھ منسلک تھا۔ 27مارچ کو نوشکی میں ایک آپریشن کے دوران وہ مارا گیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اسے بھی بلوچ یکجہتی کمیٹی نے ’’ لاپتہ افراد‘‘ کی فہرست میں شامل کر کے شدید پروپیگنڈا کیا۔
تیسرا جب اگست 2024ء میں لسبیلہ آپریشن کے دوران مارے جانے والا دہشت گرد طیب بلوچ عرف لالا دراصل ان نام نہاد ’’ لاپتہ افراد‘‘ میں شامل تھا۔ اس کا نام بلوچ یکجہتی کمیٹی اور ماما قدیر کی جانب سے ’’ جبری گمشدہ‘‘ ظاہر کیا گیا، ایف آئی آر تک درج کرائی گئی، جبکہ درحقیقت وہ بی ایل اے کا سرگرم رکن تھا اور پہاڑوں میں ریاست مخالف کارروائیوں میں مصروف رہا۔ اس پروپیگنڈے کا سب سے زیادہ نقصان اس کے سادہ لوح خاندان کو ہوا، جو سڑکوں پر اپنوں کی بازیابی کے لیے احتجاج کی آڑ میں فتنہ الہندوستان کی جال میں پھنس کر عزیمتیں اٹھا رہے تھے۔ ان تنظیموں کا مقصد صرف ریاستی اداروں پر الزام لگانا اور عوامی جذبات کو گمراہ کرنا ہے۔
سوشل میڈیا پر جھوٹے بیانیے کی تشہیر کے لیے مخصوص شخصیات اور صفحات استعمال ہوتے ہیں۔ ماہرنگ غفار اور سمی دین جیسے افراد کی ٹویٹس آج بھی سوشل میڈیا پر موجود ہیں، جن میں کامران بلوچ کے بارے میں انہوں نے واویلا مچایا کہ انہیں مشکے سے سیکیورٹی فورسز نے لاپتہ کیا ہے، لیکن بعد میں بلوچ لبریشن فرنٹ نے خود انہیں اپنا کارکن قرار دے کر ہیرو کا لقب دے دیا اور پوسٹر جاری کر دئیے۔ ماہرنگ غفار اور سمی دین کے جھوٹے دعوے آج بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’’ ایکس‘‘ پر موجود ہیں۔ یہ تھا چوتھا واقعہ۔
مسنگ پرسنز کے حوالے سے جھوٹے پروپیگنڈوں کا پردہ ایک بار پھر اس پانچویں حصے میں اشکار ہوا جب بی ایل اے کے اہم کمانڈر عید محمد عرف شکاری کو بھی ’’ لاپتہ‘‘ قرار دے کر ریاست کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ جبکہ وہ 2013ء سے دہشت گرد تنظیم سے منسلک تھا اور 28فروری 2025ء کو قلات کے علاقے نرموک میں سیکیورٹی فورسز کے آپریشن میں مارا گیا۔
اسی نوعیت کا چھٹا واقعہ ایک مرتبہ پھر جھوٹ پر مبنی رہا جب انجینئر ظہیر بلوچ جنہیں ماہرنگ غفار نے 2022ء میں جعلی ان کائونٹر میں ہلاک قرار دیا۔ اس کے بعد کئی دنوں تک سڑکیں بند کی گئیں، مظاہرے کئے گئے، اور ریاست کے خلاف زہر اگلا گیا۔ حقیقت اس وقت سامنے آئی جب ظہیر بلوچ ایران سے واپس آکر پریس کانفرنس میں اپنے زندہ ہونے اور گرفتاری کی اصل وجہ بیان کی۔ یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ’’ لاپتہ افراد‘‘ کا نعرہ صرف ایک سیاسی اور دہشت گردی کو چھپانے کا آلہ ہے۔
ساتویں نمبر پر اتا ہے کہ فتنہ الہندوستان بی ایل اے کی صفوں سے کئی ایسے نام بھی سامنے آ چکے ہیں جنہیں پہلے لاپتہ افراد ظاہر کیا گیا، بعد ازاں ان کی لاشیں دہشت گرد کارروائیوں میں شمولیت کے ثبوت ملے۔ جیسے عبدالمالک بلوچ کو بی وائی سی نے لاپتہ قرار دیا، مگر حقیقت میں وہ بی ایل اے کے داخلی اختلافات کاشکار ہو کر مارا گیا۔ اسی طرح عبدالودود ساتکزئی، امتیاز احمد ولد رضا محمد، اور دیگر کئی افراد جنہیں ’’ معصوم شہری‘‘ ظاہر کیا گیا، دراصل دہشت گرد کیمپوں سے برآمد ہوئی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر متعدد بار اپنی بریفنگز میں ان جھوٹے بیانیوں اور بھارت کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ناقابل تردید شواہد پیش کر چکے ہیں۔ بھارت کی خفیہ ایجنسی را بلوچستان میں دہشت گردی کے لیے مالی، تربیتی، اور ابلاغی مدد فراہم کرتی ہے۔ ان پروپیگنڈا گروہوں کو سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کروانا، مغربی میڈیا تک رسائی دلوانا، اور انسانی حقوق کے پردے میں ریاست پاکستان کو بدنام کرنا اس ایجنڈے کا اہم حصہ ہے۔
یہ حقیقت اب چھپ نہیں سکتی کہ فتنہ الہندوستان، بی ایل اے، بی وائی سی اور ان کے حمایتی دراصل بلوچستان کے نوجوانوں کو گمراہ کر کے دہشت گردی کی بھینٹ چڑھاتے ہیں۔ ان کے جھوٹ، منافقت، اور دہرا معیار اب عوام پر آشکار ہو چکا ہے۔ نعیم ساتکزی اور دیگر بیش بہا لاپتہ ہونے کی کہانیاں دراصل فتنہ الہندوستان کی تیار کردہ ایک دہشت گردی کی داستان ہے، جو نوجوانوں کو گمراہ کر کے بلوچستان میں بدامنی اور تباہی پھیلانے کے ایجنڈے کا کام کرتا ہے۔ یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ ’’ لاپتہ افراد کا بیانیہ‘‘ دراصل دہشت گردوں کی پردہ پوشی کے لیے استعمال ہوتا ہے
ہر لاپتہ فرد کا بیانیہ اب عوام کے سامنے ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے، کیونکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان نام نہاد ’’ مسنگ پرسنز‘‘ کی اصل شناخت دہشت گرد کے طور پر سامنے آ رہی ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم بطور قوم ان سازشوں کو پہچانیں، ان کے جھوٹے بیانیے کو رد کریں، اور بلوچستان میں امن، ترقی، اور اتحاد کے سفر کو جاری رکھیں۔
عبداللہ حیدر