ہوشمندانہ جواب

تحریر : محمد مبشر انوار (ریاض)
اس وقت عالمی سطح پر اگر کوئی مسئلہ درپیش ہے تو وہ مشرق وسطیٰ میں جاری اسرائیلی درندگی و مسلم نسل کشی کو نکیل ڈالنا ہے تا کہ امن عالم کو محفوظ و یقینی بنایا جاسکے کہ اس مسئلے کو حل کئے بغیر یہ ممکن نہیں کہ خطے و کرہ ارض پر امن قائم ہو سکے۔ ایسا نہیں کہ کرہ ارض پر صرف یہی خطہ جنگ و درندگی و نسل کشی میں دھنسا ہوا ہے، حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کے علاوہ بھارت میں بھی معاملات اتنے سیدھے نہیں ہیں کہ ان سے صرف نظر کیا جاسکے گو کہ وقتی طور پر وہاں قدرے سکون دکھائی دیتا ہے لیکن یہ سکون کسی بھی وقت قتل و غارت گری میں بدل سکتا ہے، اکا دکا واقعات ہنوز یہاں جاری ہیں لیکن ان میں شدت کا عنصر فی الوقت غائب ہے۔ بھارت نے اپنے تئیں کوشش تو کی تھی کہ اسرائیلی مدد کے ساتھ، اس خطے میں بھی جنگ کا ماحول گرمایا جائے لیکن حسرت ان غنچوں پہ جو بن کھلے مرجھا گئے، سابقہ برصغیر میں اس وقت اگر کوئی طاقت بھارتی جارحیت یا شرارت کا جواب دے سکتی ہے تو وہ صرف پاکستان ہے، جس کا عملی مظاہرہ پاکستان نے دکھایا بھی ہے۔ دوسری طرف بھارتی نکتہ نظر سے یہ امر اہم ہے کہ اگر بھارت پاکستان کو زیر کر لے تو باقی خطے میں اس کی چودھراہٹ قائم ہو سکتی ہے لیکن خاکم بدہن ، نعوذ باللہ اگر بھارت اپنے اس مذموم مقصد میں کامیاب ہو بھی جاتا، تب بھی خطے کی چودھراہٹ کا تاج اپنے سر سجانے کی بھارتی خواہش پوری نہیں ہو سکتی کہ آج لمحہ موجود میں چین ایک اہم ترین کھلاڑی کے روپ میں منظر پر نمودار ہو چکا ہے اور چین کسی بھی صورت بھارت کے اس خواب کو پایہ تکمیل پہنچنے نہیں دے گا۔ یہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اولا تو پاکستان ہی بھارتی خوابوں کو چکنا چور کرنے کے لئے کافی ہے لیکن بصورت دیگر جو حیثیت آج چین عالمی منظر نامے پر حاصل کر چکا ہے، بھارت کے لئے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ اس خطے میں، امریکی آشیرباد و اسرائیلی خواہشات کے ساتھ، اپنی من مانی یا چودھراہٹ قائم کر سکے کہ ریاستوں کے اقدامات بہرطور ریاستی مفادات کے تابع ہوتے ہیں اور بھارتی خواہشات بہرکیف ریاست چین کے مفادات سے براہ راست تصادم ہیں۔ آج یہ حقائق سامنے نظر آرہے ہیں اور دنیا بھر میں یہ ذکر چل نکلا ہے کہ امریکہ کو افغانستان میں ’’ مصروف‘‘ رکھنے کی قیمت پاکستان نے کیا اور کیوں ادا کی ہے؟ آج دنیا اعتراف کر رہی ہے کہ امریکہ کے افغانستان میں مصروف ہونے کا فائدہ براہ راست چین نے اٹھایا ہے تو دوسری طرف اس امر کا بھی اظہار واشگاف الفاظ میں ہو رہاہے کہ امریکی مصروفیت کو دانستہ طور پر اتنی طوالت دی گئی کہ چین اپنے مقاصد حاصل کر سکے، واللہ اعلم بالصواب لیکن یہ حقائق اب پوری شد و مد کے ساتھ میڈیا کی زینت بن رہے ہیں۔ راقم بہرطور یہ سمجھتا ہے کہ اگر پاکستان نے واقعتا چین کے ساتھ دوستی نبھاتے ہوئے، امریکہ کو افغانستان میں ایک مخصوص مدت تک مصروف رکھا ہے تو کیا وجہ ہے کہ پاکستان آج بھی امریکی کیمپ کا ہی حصہ ہے؟ گو کہ حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں، چین نے پاکستان کی بھرپور مدد کی ہے اور میدان جنگ میں، پاکستانی موقف ہے کہ اپنے وسائل استعمال کئے ہیں لیکنPL15میزائل چینی ساختہ تھے اور اسی طرح سگنل جیمرز بھی چینی ٹیکنالوجی ہی تھی،تو پھر کیوں پاکستان اب تک امریکی کیمپ میں ہے؟اس کا صرف ایک ہی جواب ذہن میں آتا ہے کہ پاکستان اپنے معاشی مسائل کے باعث، امریکی خواہشات کے سامنے بے بس دکھائی دیتا ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستان اس چنگل سے نکلنے کے لئے قطعی سنجیدہ دکھائی نہیں دیتا اور جس طرح پاکستانی اشرافیہ، پاکستانی وسائل کو مال مفت دل بے رحم سمجھ کر لٹا رہی ہے، یہ کسی بھی صورت اس چنگل سے نکلنا نہیں چاہتی اور دوسری طرف اشرافیہ کی نئی نسل بھی بدقسمتی سے انہی ممالک میں سکونت کو ترجیح دیتی ہے۔
ویسے صرف پاکستان ہی نہیں، مسلم ممالک کی اکثریت ان مغربی ممالک و امریکہ میں سکونت کو ترجیح دیتی ہے کہ یہاں بہرطور زندگی جی جاتی ہے اور یہاں ترقی کے مواقع کثیر تعداد میں ہیں لہذا مسلمانوں کی اکثریت جو اپنی بل بوتے پر کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن اپنے ممالک میں مواقع نہ ملنے کے باعث، ان ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ دوسری طرف ان ممالک کا رویہ بھی عجیب ہے کہ مسلم ممالک کے اذہان کو اپنے ملک میں قبول تو کرتے ہیں لیکن ان کے ممالک میں مداخلت بھی کرتے ہیں او ر جہاں مفادات کا تقاضہ قتل و غارت گری ہو، اس سے گریز بھی نہیں کرتے، خواہ یہاں کے تارکین وطن اس پر احتجاج کریں، انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انہیں فرق پڑے بھی تو کیوں کہ اگر یہ تارکین وطن اپنے احتجاج میں اتنے پرعزم ہوتے یا اتنے انقلابی ہوتے تو دیار غیر میں کیوں جا بستے؟ اس کا جواب ہمیں غزہ میں جاری درندگی و قتل و غارت گری و نسل کشی میں ملتا ہے کہ درحقیقت غزہ کے مسلمان ہیں، جو آزادانہ اپنی جنگ لڑ رہے ہیں اور ان ممالک کے لئے درد سر اس لئے ہیں کہ وہ واقعتا انقلاب بپا کر سکتے ہیں کہ اگر بے بس ہوتے تو اتنی قتل و غارت گری کے بعد، ہتھیار پھینک کر ’’ غلامی‘‘ قبول کر لیتے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ غزہ کے مسلمان، ایران و یمن کے مسلمان، اپنے اسلاف کی یاد تازہ کر رہے ہیں اور کسی بھی صورت ہتھیار ڈالنے کے لئے تیار نہیں۔ نیتن یاہو اپنا پورا زور اور طاقت استعمال کرنے کے باوجود، غزہ کو ہتھیانے میں کامیاب نہیں ہوسکا جبکہ دنیا کی طرف سے جنگ بندی کے بیشتر اعلانات کو اسرائیل نے جوتے کی نوک پر رکھا ہے بلکہ جنگ بندی کے معاہدے توڑ کر بھی غزہ میں نسل کشی جاری رکھی ہے۔ شنید ہے کہ غزہ میں ایک بار پھر ساٹھ دن کی جنگ بندی کا معاہدہ ہورہا ہے، جس کی شرائط قارئین کی نذر پہلے کر چکا ہوں، ان شرائط پر ایک بار پھر اختلافات کی خبریں ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ جنگ بندی ہونا مشکل ہے، اس طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنی گزشتہ تحریر بعنوان پینترے میں لکھا تھا کہ ویسے ایران میں صرف غیر مسلموں پر ہی موقوف نہیں کہ ایران میں افغانی شہری بھی ایران کے خلاف روبہ عمل پائے گئے ہیں، اس پس منظر میں مشرق وسطیٰ کی مسلم ریاستیں کیا لائحہ عمل اپناتی ہیں، اس کا فیصلہ وقت آنے سامنے آ جائیگا تاہم امریکہ و اسرائیل کی جانب سے، غزہ میں عرب ریاستوں کو انتظام و انصرام سنبھالنے کے لئے اختیارات دینا جبکہ اسرائیل تاحال جنگ بندی کے لئے تیار نہیں، کہیں ان ریاستوں کو براہ راست اس جنگ میں دھکیلنے کے مترادف نہیں ہو گا؟ اسرائیل سے یہ بعید نہیں کہ وہ جنگ بندی کا احترام کرے یا ساٹھ دن کی جنگ بندی کے دوران جب یہ ریاستیں، غزہ میں اپنے پیر جما لیں، تب غزہ پر حملہ کر کے، ایک بار پھر جنگ چھیڑی جائے اور اس جنگ کو انتظام کرنے والی ریاستوں کی خودمختاری پر حملہ بناکر انہیں انگیخت کرکے، براہ راست جنگ میں شامل کیا جائے؟ بظاہر یہ دوڑ کی کوڑی لگتی ہے لیکن جس طرح کا رویہ اور چالیں اس وقت غیر مسلم ممالک اپنائے ہوئے ہیں، ان سے بعید نہیں کہ اب تک جو ریاستیں براہ راست اس جنگ میں نہیں کودیں، گریٹر اسرائیل کی تکمیل میں، پینترے بدل گئے ہوں؟؟؟
بعینہ ایسی ہی صورتحال ایک بار پھر بن چکی ہے کہ جن عرب ریاستوں کو غزہ کے انتظام و انصرام کی ذمہ داری سونپی جانی تھی، ان ریاستوں کی جانب سے یہ مؤقف سامنے آ گیا ہے کہ تب تک غزہ کا انتظام انصرام نہیں سنبھال سکتے جب تک کہ فلسطینی عوام، ان کے ساتھ کھڑی نہیں ہوتی۔ علاوہ ازیں ! ان ریاستوں نے ممکنہ طور پر اس خدشہ کو بھانپتے ہوئے کہ اس نئے پینترے سے، انہیں براہ راست جنگ میں ملوث کیا جا سکتا ہے، ساٹھ دن کی بجائے مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے تا کہ اگر انتظام انصرام ان ریاستوں کو تفویض ہوتا ہے تو کم از کم یہ ریاستیں طویل مدتی ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کریں بجائے عجلت میں غیر معیاری ترقیاتی کام کئے جائیں۔ میری دانست میں ان ریاستوں، ایک طرف مستقبل قریب میں براہ راست اس جنگ میں ملوث ہونے کے خدشات کو کم کیا ہے تو دوسری طرف ساٹھ دن کے لالی پاپ کی بجائے مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کرکے، اسرائیلی درندگی و ریاستی دہشت گردی و مسلم نسل کشی کو روکنے کی سعی کی ہے۔ وقت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے، ان ریاستوں کے ہوشمندانہ جواب نے چال الٹ دی ہے۔