تازہ ترینخبریںسیاسیاتپاکستان

پنجاب کے ‘مریم بجٹ’ میں درجن بھر منصوبے شریف خاندان کے نام سے منسوب

 

لاہور: پنجاب حکومت نے مالی سال 2025-26 کے لیے 5300 ارب روپے مالیت کا بجٹ پیش کر دیا ہے، جس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اور پنشن میں 5 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔

اس بجٹ کی خاص بات یہ ہے کہ حکومت پنجاب نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے نام سے سات بڑے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا ہے، جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے نام سے بھی متعدد فلاحی اور طبی منصوبے شامل کیے گئے ہیں۔

نواز شریف کے نام سے بجٹ میں شامل منصوبے:
نواز شریف انسٹیٹیوٹ آف کینسر ٹریٹمنٹ اینڈ ریسرچ

پہلا سرکاری کینسر اسپتال

لاگت: 72 ارب روپے

نواز شریف انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی، سرگودھا

دل کے امراض کا جدید مرکز

لاگت: 8 ارب روپے سے زائد

نواز شریف سینٹر آف ایکسیلنس فار ارلی چائلڈہوڈ ایجوکیشن

ابتدائی تعلیم کا منصوبہ

پنجاب کی 10 ڈویژنز میں آغاز

لاگت: 3 ارب روپے

میاں نواز شریف انجینئرنگ یونیورسٹی، قصور

جدید ٹیکنیکل تعلیم کا ادارہ

لاگت: 2 ارب روپے

نواز شریف میڈیکل ڈسٹرکٹ

وسیع سطح کا طبی منصوبہ

لاگت: 109 ارب روپے

نواز شریف آئی ٹی سٹی، لاہور

آئی ٹی صنعت کو فروغ دینے والا منصوبہ

منصوبہ آئندہ مالی سال میں مکمل کیا جائے گا

مریم نواز کے نام سے بجٹ میں شامل منصوبے:
مریم نواز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی

لاگت: 9 ارب روپے

مریم ہیلتھ کلینکس

بنیادی صحت کی سہولیات

لاگت: 12 ارب روپے

مریم نواز راشن کارڈ پروگرام

مستحق خاندانوں کے لیے راشن

لاگت: 40 ارب روپے

مریم نواز دیہی اسپتال

دیہی علاقوں کے لیے طبی سہولت

لاگت: 3 ارب روپے

مریم نواز دستک موبائل ایپ

شہری شکایات و رابطہ کے لیے موبائل ایپ

بجٹ میں باقاعدہ اجرا شامل

عوامی تشہیر یا سیاسی حکمت عملی؟
ان تمام منصوبوں کی مالیت عوامی خزانے سے پوری کی جائے گی، یعنی یہ رقم شہریوں کے ٹیکس سے حاصل کی جا رہی ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عوامی پیسے سے چلنے والے منصوبوں کو کسی سیاسی شخصیت کے نام سے منسوب کرنا اخلاقی اور جمہوری اصولوں کے مطابق ہے؟

عموماً یہ روایت تب دیکھنے میں آتی ہے جب کوئی مخیر فرد یا عام شہری ذاتی رقم خرچ کر کے کسی تعلیمی یا طبی ادارے کو اپنے یا اپنے عزیزوں کے نام سے منسوب کرتا ہے۔ تاہم، جب تمام اخراجات عوامی وسائل سے پورے کیے جا رہے ہوں تو ان پر کسی ایک مخصوص سیاسی شخصیت کی تشہیر کو شفاف طرزِ حکمرانی کے اصولوں کے برعکس تصور کیا جا سکتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button