Column

ادبِ رسولؐ ، محبت کی معراج

ادبِ رسولؐ ، محبت کی معراج
تحریر : شیر افضل ملک
جب کائنات کے ذرّے ذرّے میں محمدؐ کی خوشبو رچی ہو، جب صبح کے اُجالے اور شام کی ٹھنڈک اُن کے ذکر سے معطر ہو، جب دل کی دھڑکن اُن کے نامِ نامی سے ہم آہنگ ہوجائے تب جا کر محبتِ رسولؐ کا پہلا زینہ طے ہوتا ہے۔ عشقِ مصطفیٰؐ محض زبان کا دعویٰ نہیں، بلکہ دل کی گہرائیوں سے اٹھنے والی وہ تڑپ ہے جو انسان کو ادب، اطاعت، اور اتباعِ رسول ٔ میں ڈھال دیتی ہے۔ ادبِ رسولؐ محبت کا اوّلین تقاضا ہے ادبِ رسولؐ، محبتِ رسولؐ کی سب سے پہلی اور بنیادی شرط ہے۔ وہ ادب جو کائنات کے سب سے عظیم انسان کے لیے روا رکھا جائے، وہ ادب جو صرف الفاظ میں نہیں، بلکہ نگاہوں لہجوں، اور سانسوں میں بسا ہو۔ حضرت امام مالکؒ جب مدینہ کی گلیوں میں چلتے تو آواز پست رکھتے کیونکہ وہاں آقاؐ کا روضہ اقدس ہے جہاں خاموشی بھی محبت کا اظہار بن جاتی ہے۔ یہی ادب ہے جو انسان کو اُس قربت تک لے جاتا ہے جہاں عقل سجدہ کرتی ہے اور عشق قیام میں آتا ہے۔
محبتِ رسولؐ کوئی معمولی جذباتی کیفیت نہیں بلکہ ایک روحانی انقلاب ہے جو انسان کی ذات کو اندر سے بدل دیتا ہے۔ یہ محبت صرف جذباتی وابستگی نہیں بلکہ قلبی اطاعت عملی اتباع اور دائمی وفاداری کا نام ہے۔
حضرت عمر بن خطابؓ نے فرمایا، یا رسولؐ اللہ آپؐ مجھے اپنی جان کے سوا ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں!
رسولؐ اللہ نے فرمایا نہیں، جب تک میں تمہیں تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جائوں۔ تب حضرت عمرؓ نے کہا اب، بخدا! آپؐ مجھے میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں، تب رسولؐ اللہ نے فرمایا، اب اے عمرؓ یہی وہ لمحہ تھا جب محبت اپنی اصل صورت میں جلوہ گر ہوئی، ایک ایسی محبت جو خودی کو بھی قربان کر دے۔ جب محبت اپنی انتہا کو پہنچتی ہے تو وہ ادب میں ڈھل جاتی ہے، اور جب دل عشقِ مصطفیٰ ؐ کی روشنی سے منور ہوتا ہے تو وہ جھکنے لگتا ہے، سنورنے لگتا ہے، اور پھر سراپا ادب بن جاتا ہے۔ ادبِ رسولؐ وہ ارفع روحانی مقام ہے جہاں عقل خاموش، زبان محتاط، اور دل سراپا التجا ہو جاتا ہے۔ محبتِ مصطفیٰؐ اگر نور ہے تو اس کا کمال، اس کی معراج اسکی تکمیل ادبِ رسولؐ ہے۔ ادبِ نبویؐ ایک الہامی شعور ہے۔ رسولِ کریمؐ کے ادب کی ابتدا خود ذاتِ باری تعالیٰ سے ہوتی ہے۔ قرآنِ حکیم، جو ہر لفظ میں الٰہی حکمت اور انداز میں بے مثال جمال رکھتا ہے جب نبی کریمؐ کا ذکر کرتا ہے تو ایسے ادب عظمت احترام کے اسلوب میں کرتا ہے کہ انسانی عقل ورط حیرت میں ڈوب جاتی ہی۔ اللہ تعالیٰ نے نبیؐ کے نام کے ساتھ کہیں بھی براہِ راست یا محمدؐ نہیں فرمایا، بلکہ
’’یا ایھا النبی ، یا ایھا الرسول‘‘
جیسے القابات استعمال کیے یہ آدابِ نبویؐ کا پہلا الہامی سبق ہے۔ اصحاب کرامؓ کی زندگیاں ادبِ رسولؐ کا عملی مظہر تھیں حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ ہر ایک نے حضورؐ کے احترام میں اپنے آپ کو فنا کر دیا۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں: میں نے کبھی نبی کریمؐ کی طرف آنکھ بھر کر نہیں دیکھا۔ صحابہ کرامؓ تو نبی کریمؐ کے وضو کے پانی کو نیچے زمین پر نہیں گرنے دیتے تھے اور یہ ہی نہیں بلکہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں حکم نازل فرمایا: ( ترجمہ) ’’ خبردار میرے نبیؐ کی آواز سے اپنی آوازیں پست کرو یہ نہ ہو کہ میں تمہارے اعمال ضائع کردوں اور تمہیں پتہ بھی نہ چلے‘‘۔
حضرت ثابت بن قیسؓ جن کی آواز فطری طور پر بلند تھی، یہ آیت سنتے ہی رونے لگے اور کہا میری آواز بلند ہے، مجھے ڈر ہے کہ میرا ایمان ضائع نہ ہو گیا ہو، یہ ادب کی وہ معراج ہے جہاں صرف محبت ہی نہیں بلکہ اس کی خشیت بھی شامل ہوجاتی ہے۔ فقہاء اور صو فیاء کرام نے ادبِ رسولؐ کو ایمان کا جزوِ لازم قرار دیا ہے۔ امام مالکؒ ، جو مدینہ منورہ میں تدریس فرمایا کرتے تھے نعلین اتار کر مسجدِ نبویؐ میں داخل ہوتے اور کہتے یہ زمین ہے جہاں رسولؐ اللہ کا قدم مبارک پڑا ہے، میں اس پر جوتے پہن کر کیسے چل سکتا ہوں۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ فرماتے ہیں: جب میں حدیثِ رسول ٔپڑھتا ہوں تو میرا دل زبان، نظر ادب کے ساتھ جھک جاتے ہیں۔ یہ الفاظ کسی عام انسان کے نہیں ادبِ مصطفیٰؐ فقط مسجدِ نبوی، مکہ یا مدینہ تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک عالمگیر اور ابدی شعور ہے نعت، سلام، درود، سیرت، حدیث، اور حتیٰ کہ جب نبیؐ کا نام لیا جائے، تب بھی آواز دھیمی، دل نرم اور زبان مودب ہونی چاہیے، حضورؐ کا ذکر ہو اور دل لرز نہ جائے، زبان جھک نہ جائے آنکھ نم نہ ہو تو سمجھیں کہ محبت ابھی فقط دعویٰ ہے حقیقت نہیں۔ آج کا مسلمان اگرچہ نبیؐ کا زمانہ نہیں پا سکا، مگر وہ اس محبت، اس ادب، اس نسبت اور اس شعور کو ضرور پا سکتا ہے۔ ادبِ رسولؐ کا مطلب ہے کہ ہم اُن کی سنتوں کو اپنے طرزِ زندگی میں شامل کریں، ان کی سیرت کو معیارِ اخلاق بنائیں، ان کے فرمان کو اپنی زبان و عمل کا رہنما بنائیں اور اُن کے ذکر کو اپنی مجالس کا چراغ بنائیں، اگر ہم آج ادبِ و محبت مصطفیٰؐ، کو اپنی زندگی کا شعار بنالیں تو یقین جانیے ہمارے دلوں سے نفاق ختم ہو جائیگا اور معاشرے میں امن قائم ہو جائیگا، اور ہماری دعائوں کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا۔ ادبِ و محبت رسول ٔ قیامت کا چراغ ہے۔ یاد رکھئے وہ دن آنے والاہے جب ہرآنکھ اشکبار ہر نفس لرزاں، اور ہر وجود پریشاں ہوگا۔ اس دن وہی لوگ کامیاب ہونگے جن کے دل ادبِ مصطفیٰؐ اور محبت رسولؐ سے چراغ کی طرح روشن ہو نگے ۔ کریم آقاؐ کی شفاعت ان کو نصیب ہوگی جو زبان سے نہیں، دل سے اور عمل سے اُن کے عاشق اور مودب ہونگے۔ ادبِ رسولؐ ، دراصل عشق کی وہ منزل ہے جس پر پہنچ کر انسان فنافی الرسول ہوجا تا ہے۔ یہ ادب، عبادت سے بڑھ کر، سیاست سے برتر اور فلسفے سے بلند تر ہے۔ یہی وہ ادب ہے جو انسان کو سجدے سے پہلے جھکنا سکھاتا ہے، بولنے سے پہلے خاموشی سکھاتا ہے اور جینے سے پہلے عشقِ مصطفیٰ ؐمیں مر مٹنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔ محبتِ رسولؐ قبر کی روشنی ہے۔ قبر جہاں دنیا کی رنگینیاں ماند پڑ جاتی ہیں جہاں اقتدار دو لت، رشتے اور تعلقات سب پیچھے رہ جاتے ہیں، جہاں انسان تنہا، خاموش، بے بس اور محتاجِ رحمت ہوتا ہے۔ وہ مقام جہاں صرف ایک نور ساتھ جاتاہے ایک روشنی جو دل میں زندہ رکھی گئی ہو، اور وہ روشنی ہے: محبتِ رسولؐ۔ یہ وہ نور ہے جو نہ صرف زندگی کو معنی بخشتا ہے، بلکہ مرنے کے بعد ظلمتِ قبر میں چراغ بن کر جلتا ہے۔ یہ وہ عقیدت ہے جو قبر کی سخت دیواروں کو نرم، مٹی کو مخمل اور اندھیروں کو روشنی میں بدل دیتی ہے۔ قبر حقیقت کی پہلی دہلیز ہے۔ یہاں نہ منصب ساتھ آتا ہے، نہ علم اگر وہ بے عمل ہو، نہ رشتہ اگر وہ بے وفا ہو۔ لیکن اگر دل نے کبھی سچائی سے ’’ اللّٰھم صل علیٰ محمد و آل محمد‘‘ کہا ہو، اگر لبوں نے محبت سے ’’ یا رسول اللہ‘‘ پکارا ہو، اگر آنکھوں نے عشقِ مصطفیٰ ؐمیں نمی محسوس کی ہو، تو یہی محبت قبر کو روشنی سے بھر دیتی ہے۔ نبیؐ نے فرمایا : ’’ جو مجھ سے محبت کرتا ہے، وہ قبر میں میرے ساتھ ہوگا اور جنت میں بھی‘‘۔ یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ محبتِ رسولؐ ایک قلبی جذبہ ہی نہیں بلکہ روحانی رفاقت ہے، جو مرنے کے بعد بھی باقی رہتی ہے۔ محبتِ رسولؐ صرف ایک عقیدہ نہیں، ایک زندگی کا نظام ہے۔ یہ بات ہمیشہ ذہن میں رہنی چاہیے کہ محبتِ رسولؐ صرف الفاظ کی خوشنمائی نہیں یہ سیرتِ طیبہ کی اتباع ہے، یہ کردار کی طہارت ہے یہ اخلاق کا عکس ہے۔ جب کریم آقاؐ کی محبت انسان کے ظاہر و باطن میں رچ بس جاتی ہے، تب ہی وہ حقیقی روشنی بنتی ہے جو قبر میں اجالا کرتی ہے حضرت امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں میں نے جس دل میں محبتِ رسولؐ دیکھی اسے قبر میں تنہا نہیں پایا۔ قبر کی وحشت عشقِ مصطفیٰؐ کے آگے راحت و سکون کا سامان پیش کرتی ہے۔ قبر کو عموماً وحشت کا گھر کہا جاتاہے جہاں سانسیں بند، زبان خاموش، آنکھیں بند ، اعمال گواہ، اور مٹی گواہ ہوتی ہے، مگر ایک شخص جس نے دنیا میں سچے دل سے آقا کریمؐ کی محبت کی ہو، اس کے لیے قبر اجنبی نہیں ہوتی، بلکہ ایک حیاتِ نوکا آغاز بن جاتی ہے۔ حضرت بلال حبشیؓ کے آخری وقت میں جب اُن کی بیوی نے کہا ہائے بلالؓ! کیا قیامت ہے، تو انہوں نے فرمایا کیا خوب لمحہ ہے! کل میں اپنے حبیب، رسولؐ اللہ سے ملاقات کروں گا۔ یہ وہی محبت ہے جو قبر کو وصل کا دروازہ بنا دیتی ہے۔ فقہاء محدثین اور صوفیاء نے محبتِ رسولؐ کو نجات کی اصل کنجی قرار دیا ہے۔ امام شافعیؒ فرماتے ہیں اگر میری زندگی کے تمام اعمال ناقص ہوں، مگر دل میں محبتِ رسولؐ ہو ، تو مجھے یقین ہے کہ میری قبر اندھیری نہ ہوگی۔ حضرت مولانا رومؒ لکھتے ہیں عشقِ احمدؐ گرچہ پُر راز و نہاں، قبر راروشن کندچون آفتاب ( ترجمہ: احمدِ مختارؐ سے عشق اگرچہ راز میں پوشیدہ ہو، مگر وہ قبر کو سورج کی مانند روشن کر دیتا ہے) ۔
اب آقا کریمؐ محبت کا اظہار صرف اور اتباع سنت اور آپؐ پر کثرت کے ساتھ درود شریف پڑھ کر کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم پیارے حبیب ٔ کی قربت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو صبح و شام اپنی زبان کو درود شریف سے معطر کریں۔ درود شریف وہ روحانی نغمہ ہے جو عاشقانِ رسول کی زبانوں پر مچلتا ہے۔ یہ فقط الفاظ نہیں، بلکہ وہ نور ہے جو دل کو منور کرتا ہے، زندگی کو با برکت بناتا ہے اور انسان کے اعمال کو رسول اللہ ٔ کی قربت میں لے جاتاہے، نبی کریمؐ پر درود شریف پڑھنا ایک ایسا عمل ہے جو اللہ تعالیٰ خود بھی یہ عمل کرتا ہے اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبیؐ پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی اُن پر درود و سلام بھیجا کرو‘‘۔
یہ وہ مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ خود عاشق بن کر محبوب پر درود بھیجتا ہے، اور فرشتے اس درود میں شامل ہوکر اہلِ زمین کو بھی اس نور میں شریک ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ اتباعِ رسولؐ محبت صرف زبان سے نہیں، بلکہ اتباع سے ظاہر ہوتی ہے۔ رسولؐ اللہ کی سنت کو اپنی زندگی میں نافذ کرنا ہی محبت کی سچی دلیل ہے۔ سیرتِ رسولؐ کا مسلسل مطالعہ ہمیں ان کے اسوہ حسنہ سے روشناس کراتا ہے، جو ہر دور کے انسان کیلیے کامل رہنمائی کا سرچشمہ ہے۔ ہماری زندگی میں اخلاقِ نبویؐ کی جھلک نمایاں کردار ادا کر سکتی ہے ۔ ہمارے چہرے، بات چیت، معاملات، حتیٰ کہ دشمن سے بھی سلوک میں وہی نرمی، رحمت اور کرم ہونا چاہیے جو نبی رحمتؐ کی سنت ہے، جمعہ کے دن خصوصاً درود شریف کی کثرت وہ روحانی سوغات ہے جو محبت کو مزید گہرا کر دیتی ہے۔ ہر وقت درود کے نغمے زبان پر ہونے چاہئیں، مسجد نبویؐ ہو یا اُن کا ذکر، ہر مقام پر احترام، وقار، اور ادب کے ساتھ نام لینا عاشقِ رسولؐ کی پہچان ہے۔

شیر افضل ملک

جواب دیں

Back to top button