ڈگمگاتا طیارہ

ڈگمگاتا طیارہ
تحریر : سیدہ عنبرین
ایک پرانا لطیفہ، شوہر کے ہر کام میں کیڑے نکالنے والی اور اسے اپنی اونچی ایڑی والی جوتی کی ایڑی کے نیچے رکھنی والی ہائوس وائف بے چینی سے شوہر کی گھر واپسی کی منتظر تھی، وہ چاہتی تھی شوہر جلد گھر واپس آ جائے تا کہ وہ اسے ایک حیران کن چیز سنا سکے، شوہر گھر لوٹا تو بیوی نے خوشی سے بے قابو ہوتے ہوئے اسے کہا۔ آج اس نے ایک حیرت انگیز منظر دیکھا، شوہر نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے پوچھا وہ کیا ؟، بیگم نے جواب دیا میں لان میں بیٹھی تھی، میں نے دیکھا ایک شخص مشرق کی جانب سے آسمان پر اڑتے اڑتے ادھر مغرب کی طرف گیا، پھر نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ شوہر نے مسکراتے ہوئے کہا تم نے اسے پہچانا نہیں، بیگم نے جواب دیا نہیں۔ شوہر فخریہ بولا وہ میں تھا، یہ سن کر بیگم نے برا سا منہ بنایا اور کہا اچھا وہ تم تھے، جبھی ٹیڑھے ٹیڑھے اڑ رہے تھے۔
اب ایک نیا لطیفہ نہیں حقیقت، بتایا گیا کہ پاکستان کی ترقی کا سفر شروع ہو چکا ہے، اب پاکستان اڑتا ہوا نظر آئے گا، یہ فلسفہ یقیناً کسی پتنگ باز نے پیش کیا تھا، مگر وہ بھول گیا کبھی کبھی بو کاٹا بھی ہو جاتا ہے۔ پتنگ کٹنے کے بعد بہت زیادہ ڈور اپنے ساتھ لے جاتی ہے، پتنگ باز پتنگ کٹنے کے بعد ڈور کو تیزی سے اپنی طرف کھینچتا ہے تا کہ بچی کچھی ڈور کو سنبھال سکے، لیکن پھر یہ ڈور الجھ جاتی ہے، کسی کام کی نہیں رہتی، استعمال شدہ اور الجھی ہوئی ڈور سے نئی پتنگ نہیں چڑھائی جا سکتی، پھر ایسے موسم میں جب ہر طرف ہوا بند ہو، پتنگ چڑھانے کی کوششوں میں پتنگ پھٹ جاتی ہے۔ گزشتہ تین برسوں کی اڑان پر نظر ڈالیں تو واضع ہوتا ہے کہ پہلے تو پاکستان ٹیڑھا اڑ رہا تھا مگر گزشتہ مالی سال کے اختتام پر اندازہ ہوا کہ پتنگ پھٹ چکی اور ڈور الجھ چکی ہے۔
کٹی اور پھٹی پتنگ کو چین نے تین ارب چار کروڑ ڈالر کا قرض اس کی درخواست پر رول اوور کر دیا ہے، اس کا سیدھا سا مطلب ہے کہ ہم اپنے قرض ادا کرنے کے قابل نہ تھے، ایسا نہ تھا کہ ہم قرض لوٹانا چاہتے اور چین چاہتا اپنے پاس ہی رکھو اور موج کرو، رول اوور کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اب قرض کی ادائیگی تو ٹل گئی لیکن اس پر سود معاف ہوگیا، سود تو بہر صورت ادا کرنا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ چین ہمیں ایک اور بھاری قرض دے رہا ہے، نوشتہ دیوار ہے ہم آئندہ برس بھی یہ قرض ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہونگے، ایک اور رول اوور مانگیں گے یا اس قرض کی ادائیگی کیلئے ایک اور قرض سر پر چڑھائیں گے۔
ختم ہونے والے مالی سال میں تجارتی خسارہ بڑھ کر 26.27ارب ڈالر ہو گیا ہے، یعنی جتنی رقم کا مال ایکسپورٹ کرتے ہیں اس کی نسبت امپورٹ بہت زیادہ ہے۔ گزشتہ برس کی نسبت تجارتی خسارے میں تقریباً نو فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جس کا واضح مطلب ہے کہ ہم نے ایکسپورٹ بڑھانے یا امپورٹ کم کرنے کی کوشش نہیں کی، اگر کی ہے تو ہم اس میں ناکام رہے ہیں، قطرہ قطرہ بہم می شود دریا، اس امپورٹ میں وہ مہنگی چینی بھی شامل ہے جسے پہلے ہم نے فاضل قرار دے کر ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دی، شوگر مافیا نے مال بنایا ایکسپورٹ ریبیٹ حاصل کی، مزید مال بنایا، پھر ملک میں چینی کی قلت پیدا ہو گئی تو پانچ لاکھ ٹن چینی امپورٹ کی، شوگر مافیا نے ایک مرتبہ پھر مال بنایا، عوام رل گئے، چینی بیاسی روپے کلو سے ایک سو بیاسی روپے کلو تک پہنچ گئی، اب کیفیت یہ ہے کہ منہ میٹھا کرنے کیلئے چینی کا چمچ منہ میں ڈالیں تو مرچیں لگتی ہیں۔ حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے صارفین کے بجلی بلوں سے ٹی وی فیس ختم کر دی گئی ہے، ساتھ ہی گیس کے پروٹیکٹڈ صارفین یعنی غریب آدمی کیلئے فکسڈ چارجز چار سو روپے ماہانہ سے بڑھا کر چھ سو روپے کر دیئے ہیں، نان پروٹیکٹڈ صارفین کیلئے ہزار روپی ماہانہ کا اضافہ کیا گیا ہے، پٹرول کی قیمت میں قریباً آٹھ روپے لٹر کا اضافہ کر کے بتایا جا رہا ہے کہ عوام خوشحال ہو جائینگے۔ وزیر پٹرولیم کی خوشی دیدنی ہے، انہوں نے ایک خطاب میں فرمایا ان کی خواہش تھی ان کے دور کو اچھے لفظوں میں یاد کیا جائے، آج پٹرول خریدنے کیلئے پٹرول پمپ پر کھڑا شخص برق رفتاری سے قیمت بتانے والے میٹر کو دیکھتا ہے تو اس کا دل ڈوبنے لگتا ہے، وہ ہر ایک لٹر خریدنے کے بعد وزیر پٹرولیم اور ان کی حکومت کیلئے جھولیاں اٹھا اٹھا کر جو کچھ کہتا ہے شاید وزیر پٹرولیم کی امی حضور کی دعا ہی ہو۔ بینک ٹرانزکشن ، اے ٹی ایم اور آن لائن خریداری پر ٹیکس سے بھی خوشحالی کا نیا دور آئے گا ۔
صحت کے شعبے میں ترقی کا جائزہ لیں تو نتیجے پر پہنچنے کیلئے صرف پاکپتن کے سرکاری ہسپتال کی کارکردگی ہی کافی ہے، چھ روز میں بیس نومولود بچے ہلاک ہوئے ہیں، وجہ آکسیجن سلنڈرز کا نہ ہونا اور ڈاکٹروں و نرسوں کی نا اہلی بتائی جاتی ہے، لیکن ہمیشہ کی طرح کسی ذمہ دار کو عبرت کا نشان نہیں بتایا جائیگا۔ لاہور کے ایک ماڈرن ترین ہسپتال میں چوہے نوزائیدہ بچوں کی بوٹیاں اتار کر لے گئے، کسی کو سزا نہ ملی، بعض تو ترقی کے مدراج طے کرتے کرتے اعلیٰ مقام تک پہنچ چکے ہیں۔ سوال یہ نہیں کون سا واقعہ کس کی حکومت میں ہوا، سوال ہے نظام کہاں ہے، زندہ بھی ہے، اسے مصنوعی تنفس کے ذریعے زندہ رکھا جا رہا ہے، اسے زندہ لاش کہتے ہیں۔ نظام کے کل پرزوں کا ایک اور کارنامہ دو برس قبل بتایاگیا کہ خسارے میں چلنے والے ادارے بند کیے جا رہے ہیں، یوٹیلیٹی سٹورز بند کر نے کا فیصلہ ہو گیا، برطرفیاں شروع ہو گئیں، فنڈز روک لئے گئے، اب اچانک فیصلہ کیا گیا کہ پرانے فیصلے پر عمل درآمد روک دیا جائے۔ عام آدمی کو ٹیکسوں میں ریلیف نہ دینے کیلئے آئی ایم ایف کی ہر شرط مان لی جاتی ہے، لیکن اسی ادارے نے کہا کہ تمام بیوروکریسی اپنے اثاثے ڈکلیئر کرے، یہ کام آج تک مکمل نہیں ہو سکا، اس فیصلے کو تین برس ہوچکے ہیں، اب اس حوالے سے ڈیڈ لائن پچیس جولائی مقرر کی گئی ہے۔ متعدد مرتبہ ڈیڈ لائن کیا اس لیے دی جاتی ہے کہ کرپٹ عناصر اپنے اثاثے ٹھکانے لگا لیں؟۔
محتاط ترین اندازے کے مطابق تین سو ارب پتی خاندان اپنی دولت ملک سے باہر لے جا چکے ہیں، یہ سلسلہ جاری ہے، اہل وطن کو تسلیاں دی جا رہی ہیں ملک محو پرواز ہے، طیارہ بے قابو ہوجائے، پائلٹ بے ہوش ہوں یا مدہوش ہوں تو طیارہ ڈگمگاتا ہے، کہنے والے اسے بھی پرواز کہہ کر خوش رہو رہے ہیں، پائلٹ بدلنا پڑے گا ورنہ کریش تو مقدر ہے۔