Column

نئے ٹیکس

نئے ٹیکس
تحریر ، امتیاز عاصی
یہ مسلمہ حقیقت ہے کسی بھی ریاست کے امور چلانا محاصل کی وصولی کے بغیر ممکن نہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں سب سے زیادہ ٹیکس سرکاری ملازمین ادا کرتے ہیں جب کہ سب سے کم ٹیکس کاروباری طبقہ دیتا ہے۔ سیاسی حکومتیں کاروباری طبقہ سے ٹیکسوں کی وصولی کے دعوے تو کرتی ہیں مگر عملی طور پر ان سے ٹیکس وصول کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ موجودہ حکومت نے ٹیکس نادہندگان کو گرفتار کرنے کا اختیار ایف بی آر کو دینے کا اعلان کیا تو اگلے روز یہ فیصلہ واپس لینا پڑا۔ وفاقی وزیر خزانہ نے بھی تاجروں سے ٹیکس وصولی کے سلسلے میں ہاتھ کھڑے کر دیئے ہیں۔ عوام قومی بچت کے ادارے میں رقوم جمع کراتے ہیں تو ان سے ود ہولڈنگ ٹیکس وصول کیا جاتا ہے حالانکہ بچت کے قومی اداروں میں زیادہ تر رقوم ان لوگوں کی ہوتی ہیں جو سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوتے ہیں یا پھر عمر رسیدہ ہوتے ہیں جن کی گزر اوقات ان کی جمع شدہ پونجی پر ملنے والے پرافٹ پر ہوتی ہے۔ جب سے وفاقی وزیر خزانہ نے چارج سنبھالا ہے قومی بچت کی سکیموں پر ملنے والے پرافٹ کی شرع کم ہوتی جا رہی ہے۔ اب حکومت نے عوام سے ٹیکس وصول کرنے کا ایک نیا طریقہ متعارف کرایا ہے جو شہری قومی بنکوں سے پچاس ہزار روپے سے زیادہ رقم نکلوائیں گے انہیں ٹیکس دینا پڑے گا۔ ایسے صارفین جو ان بینکوں کے اے ٹی ایم سے رقم نکلوائیں گے جن بینکوں میں ان کا اکائونٹ ہے ایسی صورت میں ان سے کوئی ٹیکس وصول نہیں کیا جائے گا البتہ وہ صارفین جو اپنے بینک اکائونٹس والے بنکوں کے علاوہ کسی اور بنک کا اے ٹی ایم استعمال کریں گے انہیں ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔ گویا ہر ٹرانزیکشن پر صارفین کو ٹیکس ادا کرنا پڑے موجودہ بجٹ میں تین سو بارہ ارب کے نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں جو غریب عوام سے وصول کئے جائیں گے ۔ حکومت نے ٹیکس نادہندگان کی گرفتاری کا اختیار ایف بی آر کو دیا تھا جب تاجر برادری نے احتجاج کیا تو ٹیکس نادہندگان کی گرفتاری کے طریقہ کار کو اتنا لمبا کر دیا جس میں کسی کی گرفتاری ممکن نہیں ہو گی۔ حکومت تاجروں کو کسی نہ کسی طریقہ سے ٹیکسوں کی ادائیگی سے ہر ممکن بچانے کو کوشش کرتی ہے ۔ ہمارے وزیراعظم صاحب کا تعلق بھی کاروباری برادری سے ہے ان کے ہوتے ہوئے تاجروں سے ٹیکس وصولی ناممکن ہے۔ عجیب تماشا ہے پانچ کروڑ روپے سے زیادہ رقم پر ٹیکس نہ ادا کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہو گی۔ پانچ کروڑ روپے سے کم رقم والوں کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی۔ ایسے لوگ جو فائلر ہوں گے پچاس ہزار روپے سے زیادہ رقم نکلوائیں گے تو انہیں 0.6فیصد ٹیکس ادا کرنا پڑے گا اور وہ لوگ جو نان فائلر ہوںگے انہیں پچاس ہزار روپے سے زیادہ رقم نکلوانے پر 0.6 فیصد ٹیکس دینا پڑے گا۔ کاروباری طبقہ سے ٹیکسوں کی وصولی میں ناکامی کمزور حکومت کی نشانی ہے۔ مسلم لیگ نون کی حکومت جب بھی برسراقتدار لائی جاتی ہے عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار ہو جاتی ہے ۔ مجھے یاد ہے مسلم لیگ نون کے گزشتہ دور میں اوورسیز پاکستانیوں پر ود ہولڈنگ ٹیکس نافذ کر دیا گیا تھا جسے پی ٹی آئی کے دور میں سابق وزیراعظم عمران خان نے ختم کیا۔ جن طبقات سے ٹیکسوں کی وصولی ہونی چاہیے ان کی طرف حکومت رخ نہیں کرتی الٹا غریب عوام پر ٹیکسوں کا نفاذ کرتی رہی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب اور نواز شریف کی ہونہار بیٹی محترمہ مریم نواز نے دعویٰ کیا تھا پنجاب حکومت نئے ٹیکس نہیں لگائے گی لیکن چند روز قبل عوام سے گھروں کے باہر صفائی کا ٹیکس وصول کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس میں کم ازکم ٹیکس کی شرح پانچ سو روپے رکھی گئی ہے۔ قومی بینک صارفین سے ودہولڈنگ ٹیکس پہلے سے وصول کر رہے تھے کہ بنکوں سے رقم نکلوانے والوں پر پہلے سے زیادہ ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ اگر حکومت کاروباری طبقہ سے ٹیکسوں کی وصولی میں سنجیدہ ہو تو ٹیکس نادہندگان سے ٹیکسوں کی وصولی کے لئے قوانین میں ترامیم کرکے ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کو سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ دو سال پہلے وفاقی حکومت نے قومی بچت کے اداروں میں سروا اسلامک اکائونٹ نام سے ایک نیا اکائونٹ متعارف کرایا جس میں پرافٹ کی شرح بہت زیادہ رکھی گئی لیکن چند ماہ بعد بتدریج منافع کی شرح کم کر دی گئی، جس سے عوام نے قومی بچت کے اداروں سے اپنی جمع شدہ پونجی نکلوانا شروع کر دی۔ وزارت خزانہ نے عوام کے ساتھ ٹوپی ڈرامہ لگا رکھا ہے۔ جب حکومت کو پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے قومی بچت کے ادارے پرافٹ کی شرع بڑھا دیتے ہیں، چنانچہ جیسے ہی حکومت کو مقررہ ہدف پور ہ ہوتا ہے، پرافٹ کی شرع کم کر دی جاتی ہے۔ جب سے یہ حکومت اقتدار میں آئی ہے عوام کا جینا حرام ہو چکا ہے۔ حکومت کی مبینہ کرپشن کا یہ عالم ہے پہلے چینی برآمد کی گئی بعد ازاں وہی چینی مہنگے داموں درآمد کی جا رہی ہے۔ بین الاقوامی اے ٹی ایم کے استعمال پر دو سے آٹھ فیصد ٹیکس نافذ کر دیا گیا ہے۔ سوال ہے حالیہ بجٹ میں حکومت نے غریب عوام کو کیا ریلیف دیا ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں معمولی اضافے کے ساتھ ٹیکسوں کی بھرمار اور مہنگائی نے غریب عوام کی کمر توڑ دی ہے جب کہ حکومت اپنے اخراجات کم کرنے کو تیار نہیں۔ سیاستدان ملک و قوم سے مخلص ہوں تو اپنی کرپشن کی دولت ملک واپس لے آئیں تو بھی قرضوں سے نجات حاصل ہو سکتی ہے۔ سیاستدان آئی ایم ایف سے قرض لے کر خوشی کے شادیانے بجاتے ہیں حالانکہ یہ بات باعث شرم ہے ہمیں ہر سال آئی ایم ایف کا دست نگر ہونا پڑتا ہے ۔ جہاں تک دوست ملکوں کا تعلق ہے چین، سعودی عرب اور امارات کا بھی ہمارا ملک مقروض ہے۔ چین نے نرمی اختیار کرتے ہوئے قرضوں کو موخر کر دیا ہے ورنہ چین کو قرض کی رقم زرمبادلہ کی صورت میں واپس کرنی پڑتی تو ملک کی مشکلات میں اور اضافہ ہو جاتا۔ وفاقی وزیر خزانہ بڑے بڑے صنعت کاروں سے ٹیکسوں کی وصولی میں ناکامی کے بعد غریب عوام کو جو پہلے خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہتے تھے، ان کی مشکلات میں اور اضافہ ہو گیا ہے۔

جواب دیں

Back to top button