عہد الٰہی

عہد الٰہی
تحر یر : صفدر علی حیدری
کلام مجید کا ایک ایک حرف ایک ایک لفظ ایک ایک جملہ معجزہ ہے۔ ہدایت کا سر چشمہ ہے۔ رشد کا منبع ہے۔ چراغ راہ ہے ۔ نشان منزل ہے ۔ روشنی کا مینارہ ہے۔ قطبی تارہ ہے۔ نور کو استعارہ ہے۔ سراسر ہمارا ہے۔ قرآن جس کا مخاطب انسان ہے اور جس کا موضوع توحید ہے۔ جو متقین کی ہدایات کے لیے ہے۔ گویا سب اس سے ہدایت نہیں پاتے نہ پا سکتے ہیں کہ ہدایت تو سرنڈر کا نام ہے، سر تسلیم خم کر دینے سے عبارت ہے ۔
سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے
گویا
تیری مرضی میرے مولا تو جس حال میں رکھے
یہ اتباع کا پیروی کا نام ہے۔ اپنی مرضی کو رب کی مرضی کے آگے جھکا دینے کا نام ہے۔ راضی بہ رضا ہونے کا نام ہے۔
There is no way but to obey
کہنے کا نام ہے بلکہ سمجھنے کا نام ہے
ہم دیکھتے ہیں کہ بنی اسرائیل کو اس بات کا بڑا زعم تھا کہ وہ خاص الخاص ہیں۔ انہیں جہان بھر کی مخلوقات پر برتری اور تفوق حاصل ہے۔ آسمان سے من و سلویٰ بھی تو انہی کے لیے اترتا تھا۔ اس بات کی تائید کتاب ہدایت میں بھی ملتی ہے۔ اب جب ایسی لاڈلی مخلوق ہو گی تو کچھ الٹا سیدھا، کچھ ٹیڑھا میڑھا تو ضرور کرنا ہے۔ یہی کتاب بتاتی ہے کہ ان ظالموں نے ہزاروں انبیاء کا قتل عام کیا۔ حالاں کہ اگر آپ کو کوئی مقام ملتا ہے تو اس کے کچھ تقاضے بھی تو ہوتے ہیں۔
کتاب ہدایت کے بقول رب نے ان سے عہد لیا تھا۔ اب ظاہر ہے اس عہد کی پاس داری ان کا فرض تھی۔
ارشاد قدرت ہوتا ہے:
’’ اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا ( اور کہا) کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ( اپنے) والدین، قریب ترین رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں پر احسان کرو اور لوگوں سے حسن گفتار سے پیش آئو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو پھر چند افراد کے سوا تم سب برگشتہ ہو گئے اور تم لوگ روگردانی کرنے والے ہو‘‘۔
اگلی آیت میں ارشاد ہوتا ہے:
’’ اور ( وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے تم سے عہد لیا کہ اپنوں کا خون نہ بہائو گے اور اپنے ہی لوگوں کو اپنی بستیوں سے نہ نکالو گے، پھر تم نے اس کا اقرار کر لیا جس کے تم خود گواہ ہو‘‘۔
سورہ بقرہ کی ان دو مسلسل آیات سے ہمیں زندگی کا لائحہ عمل حاصل ہوتا ہے۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ اپنی ہر مخلوق سے وہی کچھ چاہتا ہے جو اس نے بنی اسرائیل سے چاہا تھا۔
یعنی شرک نہ کرنا، قریبی لوگوں پر احسان کرنا، اور حسن سلوک کرنا ، نماز ادا کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، لوگوں کا خون نہ بہانا ور لوگوں کو ان کے گھروں سے نہ نکالنا۔
قرآن مجید میں بنی اسرائیل کے عبرت انگیز تاریخی واقعات بیان فرمانے کے بعد اس عہد و پیمان کا تذکرہ کیا گیا ہے جو ان کے انفرادی و اجتماعی امور کی تنظیم کی خاطر کیا گیا۔ مخفی نہ رہے کہ بنی اسرائیل کے واقعات اس اہتمام کے ساتھ اس لیے بیان ہوئے ہیں کہ یہ انسانی تاریخ کی سب سے پہلی دینی تحریک کا حصہ تھے۔ عہد و پیمان ان نکات پر مشتمل تھا :
خدائے واحد کی عبادت۔
والدین سے حسن سلوک اور نیکی۔
قریب ترین رشتہ داروں سے نیکی و احسان۔
یتیموں سے شفقت و نیکی۔
مسکینوں اور ناداروں سے حسن سلوک۔
لوگوں سے خوش کلامی۔
اقامہ نماز۔
ادائے زکوٰۃ۔
ناحق خونریزی سے اجتناب۔
اپنی قوم کے افراد کو جلا وطن نہ کرنا۔
البتہ یہ سارا عہد صرف بنی اسرائیل سے ہی مخصوص نہیں بلکہ اسلامی تعلیم و تربیت کے ہمہ گیر اصولوں کا حصہ بھی ہے۔ اس آیہ مبارکہ میں خدائے واحد کی عبادت کے بعد والدین پر احسان کرنے کا عہد لیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی عبادت کے بعد جس چیز کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے، وہ والدین پر احسان ہے۔ ناشکرے انسانوں کو اس تاکید کی زیادہ ضرورت تھی۔
احسان ایک جامع ترین لفظ ہے، جس میں والدین کے تمام فطری، اخلاقی اور اجتماعی حقوق شامل ہیں۔
والدین کے بعد قریب ترین رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں سے نیکی اور احسان کا مرحلہ آتا ہے
قرآنی آداب اور اسلامی اصول، تربیت میں حسن گفتار خصوصی اہمیت کا حامل ہے ، کیوں کہ گفتار سے ہی انسان کے مافی الضمیر کا اظہار ہوتا ہے ۔ یہ افہام و تفہیم کا اہم ترین ذریعہ ہے ۔ حسن گفتار میں جادو کا سا اثر ہے ۔ جب کہ بدکلامی سے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ خدائی دعوت و ارشادات میں گفتار کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ چناں چہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مختلف تعبیرات کے ذریعے حسن گفتار کی تاکید فرمائی گئی ہے:
’’ اور ان سے اچھے پیرائے میں گفتگو کرو ‘‘
’’ انھیں چاہیے کہ سنجیدہ باتیں کریں ‘‘
’’ ان سے نرمی کے ساتھ بات کریں ‘‘
اس تاکید کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو کہ حسن گفتار میں انسانی وقار اور احترام آدمیت محفوظ رہتا ہے جسے اسلام میں بہت اہمیت حاصل ہے۔
امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ لوگوں سے ایسی اچھی باتیں کرو جنہیں تم اپنے لیے پسند کرتے ہو۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ گالیاں دینے والے، مومنین کو طعن و تشنیع کرنے والے اور فحش گفتگو کرنے والے کو سخت ناپسند کرتا ہے، جب کہ باحیا، بردبار اور پاک دامن شخص کو پسند کرتا ہے‘‘۔
توریت کے صفحات میں اس عہد و میثاق کی بعض شقوں کا ہم آج بھی مشاہدہ کر سکتے ہیں۔
’’ میرے آگے تیرا کوئی دوسرا خدا نہ ہووے۔ تو اپنے لیے تراشی ہوئی مورت یا کسی چیز کی صورت جو اوپر آسمان پر یا نیچے زمین پر یا زمین کے نیچے ہے، مت بنا۔ تو ان کے آگے اپنے تیئس مت جھکا اور نہ ان کی عبادت کر ‘‘۔
توحید عقائد اسلامی کی اساس ہے ۔ یہ انبیاء اوصیاء اولیاء اور صلحاء کی وصیتیں کا اولین و مرکزی نکتہ ہے۔ حضرت لقمان کی وصیت کو ہی دیکھ لیجئے۔ گویا شرک جیسا ظلم عظیم کسی دور میں بھی مسنون نہیں رہا۔ نماز جیسی بدنی اور زکوٰۃ جیسی مالی عبادت ہر دور میں موجود و مطلوب رہی ہے۔ والدین کے ساتھ احسان کا برتائو بھی ایک بنیادی ضرورت کے طور پر اس عہد الٰہی کا بنیادی جزو رہا ہے۔ اقربا و مساکین کے ساتھ صلح رحمی بھی ایک مستحسن اقدام ہے۔ اخلاق حسنہ کو انسانی کردار کی معراج سمجھنا چاہیے۔ دیگر مخلوقات کے مقابلے میں یہ بنی نوع انسان کا بنیادی اور امتیازی وصف رہا ہے۔ دین متین میں قتل و غارت گری سے بچنا اور اپنے جیسے انسانوں کو وطن سے بے وطن کرنا کسی بھی طور پسندیدہ عمل نہیں سمجھا گیا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس عہد پر کاربند رہنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!