غیر یقینی حالات

غیر یقینی حالات!!!
تحریر :محمد مبشر انوار (ریاض)
امن عالم کی خواہش تو دنیا بھر کے رہنما کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو ان حکمرانوں کے اٹھائے گئے اکثر اقدامات کی بدولت عالمی امن مزید خطرات کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ وہ غیر منصفانہ و جانبدارانہ رویہ ہے کہ جس کی عدم موجودگی سے امن عالم ہر گزرتے دن کے ساتھ، بے امنی کی جانب انتہائی سرعت کے ساتھ بڑھ رہا ہے وگرنہ کرہ ارض پر امن کا قیام بخوبی ممکن ہے۔ ذاتی و ریاستی مفادات اپنی جگہ مگر ذاتی پسند و ناپسند کے باعث کسی ایک شخصیت یا ریاست کو بلاوجہ سہولت دینا یا اس کے ہر ناجائز اقدام کی حمایت کرنا، اسے ہر معاملے میں بری الذمہ سمجھنا اور قرار دینا، شہ دینے کے مترادف ہے اور اس شہ کے زیر اثر ہر قسم کی جارحیت و ریاستی دہشت گردی و نا پسندیدہ قوم کی نسل کشی، بڑی ڈھٹائی سے جاری ہے۔ علاوہ ازیں! مالی مفادات اس کے علاوہ ہیں کہ اگر نسل کشی میں کامیاب ہو جائیں، خطے پر قابض ہو جائیں، تو زیر زمین و سمندر معدنیات کا حصول بھی بآسانی ممکن ہو سکتا ہے جو یقینی طور پر وسائل میں اضافے کا باعث ہو گا، جس سے اپنے شہریوں کو خوشحال بنایا جا سکتا ہے۔ تاہم تاحال دہشت گرد ریاست اسرائیل اپنے اس منصوبے میں کامیاب نہیں ہو پائی اور بظاہر مستقبل قریب میں اس کی کامیابی کے امکانات بھی خاصے معدوم دکھائی دیتے ہیں بشرطیکہ اسرائیل کا پشت پناہ امریکہ مستقبل قریب میں اپنے تمام تر حقوق انسانی کے اصولوں کو پس پشت ڈال کر ڈھٹائی کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ کھڑا نہ ہو جائے۔ اس امر سے سرمو انحراف نہیں کیا جاسکتا کہ امریکہ کو اپنے اصولوں سے مکرنے میں چنداں زیادہ دیر نہیں لگتی اگر اسے یقین ہو کہ نتائج صد فیصد اس کی منصوبہ سازی و منشا کے مطابق ہوں گے، خواہ اس کے لئے اسے کتنا ہی انتظار کیوں نہ کرنا پڑے یا کتنے ہی وسائل کیوں نہ جھونکنے پڑیں یا کتنی ہی ناانصافی یا جانبداری سے کا م کیوں نہ لینا پڑے۔ اس حوالے سے ممکنہ طور پر کوئی بھی یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ چونکہ ہم معاملات کو ان کی نظر سے نہیں دیکھتے، اس لئے ہماری رائے بذات خود جانبدارانہ ہو سکتی ہے یا بغض کا شاخسانہ ہوسکتی ہے یا اپنی کمزوری کے باعث ہم دشمن کی توپوں میں کیڑے لگنے کی دعائیں کرتے ہیں، تو ایسی قطعا کوئی بات نہیں کہ ہم اپنے ’’ جرم ضعیفی ‘‘ کا اعتراف بھی کرتے ہیں اور اس کی سزا ’’ مرگ مفاجات‘‘ بھی بھگت رہے ہیں لیکن ایک عالمی طاقت کی نظر سے دیکھیں تو جو کردار قدرت نے اسے سونپ رکھا ہے، اس ک نبھانے کے لئے جس ظرف کی ضرورت ہے، وہ امریکی ریاست میں دن بدن مفقود ہوتا جارہا ہے، جس کے باعث اسے دنیا بھر سے تنقید کا سامنا رہتا ہے۔ بہرکیف بات ہو رہی تھی اسرائیلی موجودہ صورتحال و کیفیت کی، تو ہر ذی روح اس امر سے بخوبی واقف ہے کہ اس وقت اسرائیل کا آگ پر لوٹ رہا ہے اور اس کا بس نہیں چل رہا کہ کسی طرح نہ صرف غزہ بلکہ قرب و جوار کے سب مسلمانوں کو تہ تیغ کر کے، تنہا گلیوں میں مرزا بن کے پھرے۔ ایسا ممکن ہو جاتا اگر امریکہ ایران کے ساتھ جنگ میں مکمل ملوث ہو جاتا لیکن صدر ٹرمپ نے بس ایک کارروائی کی اور اس کے بعد خاموشی اختیار کرلی حتی کہ اسرائیل و ایران کے درمیان جنگ بندی کی خلاف ورزی کرنے کی کوشش پر اسرائیل کو سرعام نہ صرف تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ تاریخ میں پہلی بار اسرائیل کو کسی امریکی صدر سے گالی سننا پڑی۔
یہ صورتحال اتنی آسان نہیں کہ اسرائیل نے یہ آگ اس لئے نہیں دھکائی تھی کہ اس آگ میں اسرائیل ہی کو جھلسنا پڑے جبکہ اس کے حریف فتح کے نقارے بجاتے، اس کا منہ چڑائیں، اور اسرائیل بے بسی میں تلملاتا رہے۔ اسرائیلی مقاصد قدرے مختلف اور لمبے چوڑے ہیں، جن کے حصول کی خاطر اسرائیل کسی بھی صورت چین سے نہیں بیٹھے گا اور اب اس کی کوشش یہی ہو گی کہ امریکہ سے زیادہ سے زیادہ جدید اسلحہ حاصل کر سکے۔ جبکہ دوسری طرف ایسی ہی صورتحال بھارت کی دکھائی دیتی ہے کہ حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں جو درگت بھارت کی بنی ہے اور جس طرح بھارت نے عالمی سطح پر، سفارتی ذرائع سے پاکستان کوایک بار پھر دہشت گرد ریاست ثابت کرنے میں ناکامی حاصل کی ہے، اس نے بھارت کو مزید سیخ پا کر رکھا ہے۔ طرفہ تماشہ شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے دفاع کے اجتماع میں، منتظمین نے بھارت کی خواہش کے برعکس پہلگام سانحے کی مذمت پر ہی اکتفا کیا ہے اور کسی ایک رکن کی جانب سے بھی اس واقعہ میں پاکستان کے ملوث ہونے کو تسلیم نہیں کیا گیا، لہذا اعلامیے میں پاکستان کو اس معاملے میں بالکل صاف شفاف رکھا گیا ۔ بھارت کی حالت ایسی پھپھے کٹنی کی سی تھی،جو شادی میں ’’ سیاپا‘‘ نہ ہونے کے سبب سب سے روٹھ کر بیٹھ جاتی ہے اور بھارتی وزیر دفاع نے اپنی اس ناکامی کے جواب میں اعلامیے پر دستخط ہی نہیں کئے۔ بھارتی زعماء کو اس امر کا احساس ہونا چاہئے کہ بھارت نے ایک عرصہ تک، پاکستان دشمنی میں عالمی رائے عامہ کو گمراہ کن پراپیگنڈا سے حقائق سے دور رکھا ہے جبکہ اس وقت عالمی رائے عامہ صرف بھارتی واویلے پر اعتبار نہیں کرتی بلکہ اس کے پاس تصدیق کے لئے کئی اور ذرائع بھی موجود ہیں، جس کے باعث بھارت کا زہریلا و گمراہ کن پراپیگنڈا، پاکستان کو مزید نقصان پہنچانے سے قاصر ہے۔ ان حقائق کی موجودگی میں بھارت کو اپنی سابقہ پالیسیوں پر نظر ثانی کی ضرورت تھی اور اسے پاکستان کے ساتھ اپنے معاملات معمول پر لانے کے ضرورت تھی تا کہ خطے سے اس بدامنی و بد اعتمادی کی فضا کو ختم کرکے، عوام الناس کے لئے بہتر مستقبل کے منصوبے بنائے جاتے اور وسائل کو شہریوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جاتا ۔ بدقسمتی سے بھارتی حکمرانوں میں ابھی تک ایک طرف برتری کی سوچ ہنوز موجود ہے تو دوسری طرف ان کے دماغ میں اکھنڈ بھارت کا نقشہ بھی نقش ہے، جو انہیں کسی پل چین نہیں لینے دیتا لہذا اپنے اس خواب کی تکمیل میں بھارت، شرمندگی و سبکی مٹانے کے دنیا بھر سے جدید اسلحہ خرید رہا ہے تاکہ اپنی مذموم خواہش کا حصول ممکن بنا سکے۔ یوں اس وقت دنیا کے نقشے میں دو ریاستیں، بھارت و اسرائیل، ایسی ہیں کہ جن کی نیت میں فتور، دماغ میں خنس اور عقل پر برتری کا سودا سمایا ہوا ہے اور اس میں وہ کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہیں۔ ان دونوں ریاستوں کے متعلق میں اپنی پچھلی تحریر میں، حدیث نبویؐ کی روشنی میں مفصل لکھ چکا ہوں کہ ان ریاستوں کا انجام کیا ہو گا ،مکرر عرض ہے کہ اسرائیل کا انجام یقینی طور پر گریٹر اسرائیل کا حصول ہی ہوگا تاہم یہودی، مدینہ منورہ کی حدود میں داخل نہیں ہو سکیں گے جبکہ بھارت /ہند کے حکمرانوں کا انجام روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ان کو پابہ زنجیر جکڑ کر لایا جائے گا اور وہ لشکر جو یہ کارنامہ سرانجام دیگا، اپنا عقب محفوظ کرکے، عراق و شام کو فتح کرتا ہوا ،بیت المقدس میں امام مہدی علیہ السلام کے لشکر سے جا ملے گا۔ پھر یہودی اس لشکر کے آگے آگے بھاگیں گے اور کرہ ارض کا ایک ایک پتھر و درخت/شجر، جس کے پیچھے کوئی یہودی چھپا ہو گا، خود پکار پکار کر لشکر اسلام کو بتائے گا کہ میرے پیچھے یہودی چھپا ہوا ہے، اسے قتل کرو ماسوائے ایک درخت غرقد، جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے، جسے یہودیوں کا درخت کہا گیا ہے اور جس کی کاشت یہودی بڑے پیمانے پر کر رہے ہیں، یہودیوں کو پناہ دے گا۔
ایران اسرائیل کی بارہ دنوں کی جنگ میں، اسرائیل کو گو کہ شدید اور بھاری نقصان پہنچا ہے لیکن ان کی تیاریاں اور اپنے مقصد سے لگن کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا بالخصوص امریکی پالیسیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ وہ کسی بھی وقت اپنے فیصلوں پر نظرثانی کر سکتے ہیں یا بصورت دیگر اسرائیل انہیں بوجوہ ایسا کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ اسے انہونی نہیں کہہ سکتے کہ غیر مسلموں کا رویہ اور حسن سلوک بہرطور تاریخ میں ہمیشہ ایسا ہی نظر آیا ہے کہ جب وہ طاقت میں ہوتے ہیں، تو اصولوں کو ہمیشہ پس پشت ہی رکھتے ہیں لہذا اس وقت گو کہ حالات میں سکون دکھائی دیتا ہے لیکن یہ طویل مدتی ہرگز نہیں کہلا سکتا اور طرفین کی جانب سے تیاریاں ’’ غیر یقینی حالات‘‘ کی طرف اشارہ کرر ہی ہیں۔