سندھ طاس معاہدہ اوربھارت کا مذموم کردار

سندھ طاس معاہدہ اور
بھارت کا مذموم کردار
بھارت نے 22اپریل کو پہلگام حملے کا ڈرامہ رچایا۔ یہ بھارت کا ماضی کی طرح ایک اور فالس فلیگ آپریشنز تھا، جس میں 26سیاح موت کے گھاٹ اُتارے گئے۔ ابھی اس واقعے کو 5منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ بھارتی حکومت اور اُس کے میڈیا نے کسی تحقیق کی زحمت گوارا کیے بغیر اس کے الزامات پاکستان پر دھرنا شروع کر دئیے۔ اگلے روز مودی سرکار نے بڑی سوچ بچار کے بعد ناصرف سندھ طاس معاہدے کو معطل کر دیا بلکہ تمام پاکستانیوں کو 48گھنٹے کے اندر بھارت چھوڑ دینے کے احکامات بھی صادر کیے۔ سندھ طاس معاہدہ عالمی بینک کی ثالثی میں ستمبر 1960ء کو کراچی میں طے پایا تھا اور اس معاہدے کو کوئی بھی فریق تن تنہا معطل یا ختم نہیں کر سکتا۔ پہلگام ڈرامے کی آڑ میں بھارت پاکستان پر ایک اور جنگ مسلط کرنا چاہتا تھا۔ ابتدا میں ایک ڈیڑھ ہفتے تک بھارت اور اس کا میڈیا لفظی گولہ باریاں کرتا رہا، پھر 6؍7مئی کو رات کے اندھیرے میں پاکستان پر بھارت حملہ آور ہوا۔ اُس کی جانب سے پاکستان کی آبادی کو نشانہ بنایا گیا۔ 40بے گناہ شہریوں کو شہید کیا گیا، جن میں معصوم بچے اور خواتین بھی شامل تھیں۔ بھارت نے جنگی طیاروں سے حملہ کیا۔ پاکستان نے دفاع میں اُس کے 6طیارے مار گرائے، جن میں ناقابل شکست تصور کیے جانے والے رافیل طیارے بھی شامل تھے۔ بھارت نے اسرائیلی ساختہ ڈرونز سے بے شمار حملے کیے، جنہیں ہماری بہادر افواج نے انتہائی مہارت سے ناکام بنایا۔ پاکستان نے جب آپریشن بُنیان مرصوص کے ذریعے 10مءی کی علی الصبح بھارت پر حملہ کیا اور اُس کے کئی ایئر بیسز اور اہم تنصیبات تباہ کر ڈالیں تو بھارت چند گھنٹے میں ہی گھٹنوں پر آگیا اور جنگ بندی کے لیے امریکا کے منت ترلے کرنے لگا۔ اُس وقت بھارت پر پاکستان کا خوف طاری تھا۔ غرور اور تکبر اُس کا پاکستان کی بہادر افواج پاش پاش کر چکی تھیں۔ امریکی صدر کی ثالثی میں جنگ بندی ہوئی تو بھارت کے کچھ حواس بحال ہوئے۔ کچھ روز تک تو اُس کو سانپ سونگھا رہا۔ اُس کے حواس پر پاکستان کی ہیبت طاری تھی۔ جب تھوڑی طبیعت سنبھلی، دماغ ٹھکانے پر آئے تو بھارتی حکومت اور میڈیا اپنی پُرانی ڈگر پر واپس آگیا۔ بھارتی حکومت مسلسل سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا راگ الاپ رہی ہے جب کہ اُس کی جانب سے آبی جارحیت کے سلسلے جاری ہیں۔ بھارت سندھ طاس معاہدے سے یکطرفہ طور پر کسی طور نہیں نکل سکتا۔ عالمی بینک ایک موقر ادارہ ہے اور اُس کی ثالثی میں یہ معاہدہ ہوا تھا۔ اسی حوالے سے گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف نے اظہار خیال کیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ دشمن پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کررہا ہے، بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے سے نہیں نکل سکتا۔ وزیراعظم نے نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے دورے کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اپنے وسائل سے دیامر بھاشا اور دیگر منصوبے مکمل کرنے کے لیے پُرعزم ہیں، اپنے پانی کے ذخائر کی صلاحیت کو بڑھائیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کثیر المقاصد اہم قومی ادارہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2022 ء کے سیلاب نے بہت نقصان پہنچایا۔ ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں اور مکانات تباہ ہوئے، خطرات سے آگاہی کے نظام کے حوالے سے بھی این ڈی ایم اے کا اہم کردار ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ بروقت معلومات کی فراہمی کے لیے اقدامات قابل تعریف ہیں، 2022ء کے سیلاب کے بعد ادارے کو جدید خطوط پر استوار کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ خطرات سے آگاہی کے نظام کے حوالے سے بھی این ڈی ایم اے کا اہم کردار ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ سانحہ سوات میں بہت قیمتی جانیں ضائع ہوئی ہیں، سوات واقعے پر سیاست نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس کا سچائی کے ساتھ جائزہ لینا چاہئے، ادارے مشترکہ طور پر کام کریں تاکہ ایسا واقعہ دوبارہ پیش نہ آئے۔ این ڈی ایم اے اس معاملہ کی رپورٹ بنا کر پیش کرے۔ شہباز شریف نے مستقبل میں قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے اعلیٰ سطح کی تیاریوں پر زور دیتے ہوئے ہدایت کی کہ پی ٹی اے کے ساتھ مل کر ایس ایم ایس اور فون پیغامات کے ذریعے موسمیاتی وارننگ اور آفات کے خطرات باقاعدگی سے جاری کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ این ڈی ایم اے کی استعداد کار میں اضافہ کیلئے ہر ممکن تعاون کریں گے۔ وزیراعظم نے ایران کے سفارتخانے کا بھی دورہ کیا اور ایران کے ساتھ پاکستان کی ہمدردی اور یکجہتی کا اعادہ کرتے ہوئے ایران کے خلاف حالیہ اسرائیلی جارحیت کے دوران شہید اور زخمی ہونے والوں کے لئے ایران کے عوام اور حکومت کے ساتھ تعزیت کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق وزیر اعظم نے منگل کو اسلام آباد میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارتخانے کا دورہ کیا اور سفارتخانے کی جانب سے ایران کے خلاف حالیہ اسرائیلی جارحیت کے دوران شہید اور زخمی ہونے والے ایرانیوں کی یاد میں رکھی گئی تعزیتی کتاب میں اپنے تاثرات درج کئے۔ نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار، وزیر اعظم کے مشیر طارق فاطمی اور سیکرٹری خارجہ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ سفارتخانے آمد پر پاکستان میں ایرانی سفیر رضا امیری مقدم اور سفارتخانہ کے سینئر ارکان نے وزیر اعظم کا استقبال کیا۔ وزیر اعظم نے اس مشکل وقت میں ایران کے ساتھ پاکستان کی ہمدردی اور یکجہتی کا اعادہ کرتے ہوئی ایران کے عوام اور حکومت کے ساتھ تعزیت کا اظہار کیا۔ انہوں نے ایرانی قوم کی استقامت اور حوصلے کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے شہید ہونے والوں اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لئے دعا کی۔ ایران کو پاکستان کی مسلسل حمایت کا یقین دلاتے ہوئے وزیراعظم نے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای اور صدر ڈاکٹر مسعود پیز شکیان کے لئے اپنی نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف کا فرمانا بالکل بجا ہے۔ معرکہ حق میں دشمن کو ہر محاذ پر بُری طرح ہزیمت کا منہ دیکھنا پڑا ہے، اس کے باوجود اس کے اندر سے جنون اور خبط ختم نہیں ہوسکا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے فیصلے پر ڈٹے رہنا اس امر کا غماز ہے۔ بھارت نے اگر اس معاہدے کو بحال نہ کیا تو عالمی سطح پر اس کو آگے بھی بڑی جگ ہنسائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کے حق میں بہتر یہ ہے کہ وہ اس معاہدے کو بحال کرنے کے ساتھ جاری رکھے۔ جنگی خبط اپنے ذہن سے نکالے، معرکہ حق میں اپنی ناکامی کو فراموش نہ کرے۔ پاکستان کو عالمی سطح پر سندھ طاس معاہدے کی بحالی کے حوالے سے موثر کوششیں کرنی چاہئیں۔ آبی ذخائر کے حوالے سے وزیراعظم نے درست فرمایا۔ زیادہ سے زیادہ ڈیمز وقت کی اہم ضرورت ہیں۔
یوٹیلٹی اسٹورز بند کرنے کا فیصلہ
ماضی میں یوٹیلٹی اسٹورز کا قیام عوام کو سستی اور معیاری اشیاء کی دستیابی کے لیے عمل میں لایا گیا تھا۔ اُس وقت عوام کی بڑی تعداد ان سے مستفید بھی ہوتی تھی، لیکن پھر بے ضابطگیوں اور دیگر خرابیاں بھی اس میں در آئیں اور عوامی مفاد کا یہ منصوبہ غریبوں کے لیے کارگر نہ رہا۔ یہ سالہا سال سے قومی خزانے پر بوجھ ثابت ہوتے چلے آرہے ہیں۔ ماضی میں ان کا نظام چلانے کے لیے حکومت کی جانب سے سبسڈیز میں کمی کی گئی۔ یہاں تک کہ سبسڈائز لگ بھگ مکمل ختم ہی ہوگئیں۔ موجودہ حکومت جب سے برسراقتدار آئی ہے۔ اصلاحات پر عمل پیرا ہے۔ کفایت شعاری کو اپنایا جارہا ہے۔ قومی خزانے پر بوجھ کو کم سے کم کیا جارہا ہے۔ یوٹیلٹی اسٹورز سے کیونکہ غریب عوام صحیح معنوں میں مستفید نہیں ہوپارہے، اس لیے حکومت کی جانب سے ان کو مکمل طور پر بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وفاقی حکومت نے ملک بھر میں تمام یوٹیلیٹی اسٹورز 10جولائی سے مکمل طور پر بند کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔ وزیراعظم کی ہدایت پر یوٹیلیٹی اسٹورز کے پانچ ہزار سے زائد ملازمین کو سرپلس پول میں شامل کر دیا گیا ہے، جبکہ رضاکارانہ علیحدگی پیکج دینے کی منظوری بھی دے دی گئی ہے۔یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کے ایم ڈی کی زیرصدارت اجلاس میں اس حوالے سے اہم فیصلے کیے گئے۔ اعلامیے کے مطابق آج سے ملک بھر کے تمام فعال یوٹیلیٹی اسٹورز کا آپریشن بند کرنے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ اسٹورز پر موجود تمام سامان کو مرحلہ وار ویئر ہائوسز میں منتقل کیا جائے گا، جہاں متعلقہ حکام کی نگرانی میں سامان واپس یا نیلام کیا جائے گا۔ ملک بھر کے اسٹورز اور دفاتر میں موجود اشیاء کی شفاف طریقے سے نیلامی کی جائے گی۔اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ کرائے پر حاصل کردہ اسٹورز کو یکم اگست سے خالی کرنے کے نوٹس جاری کیے جائیں گے، جب کہ یوٹیلیٹی اسٹورز کے اثاثہ جات کی مالیت کا تخمینہ لگوانے کا عمل بھی شروع کیا جائے گا۔ حکومت کے ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جن سے خزانے پر بوجھ کم ہو، عوام پر بوجھ میں کمی آئے اور ملک و قوم ترقی و خوش حالی کی راہ پر تیزی سے گامزن ہوسکیں۔