ہمارے وعدے

ہمارے وعدے
تحریر : احمد نبیل نیل
جس معاشرے میں لوگ اپنی ہی بات پر قائم نہ رہ سکیں، وہاں ہم کسی بہتری کی کیا توقع رکھ سکتے ہیں؟ معاشرہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے تشکیل پاتا ہے۔ اگر ہم محض روزمرہ کی چند معمولی باتوں پر سنجیدگی سے غور کریں تو ایک باوقار اور مہذب معاشرے کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ مگر افسوس کہ ہم اکثر اپنی روزمرہ زندگی میں شدید غفلت سے کام لیتے ہیں۔ ہماری قوم کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ ہم سنجیدگی اختیار نہیں کرتے اور اپنی بات کا پاس نہیں رکھتے۔ ہم جان بوجھ کر غلط بیانی کرتے ہیں، چاہے وہ وقت کا وعدہ ہو یا کسی کام کی تکمیل کا اندازہ۔ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وقت پر نہیں پہنچ سکیں گے، پھر بھی وعدہ کر لیتے ہیں۔ ہمیں علم ہوتا ہے کہ کام مقررہ وقت میں مکمل نہیں ہوگا، مگر پھر بھی دوسرے شخص کو انتظار میں ڈال دیتے ہیں۔
ہم اکثر کسی بات کی نوعیت سمجھے بغیر بیان دے دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں ذاتی تعلقات متاثر ہوتے ہیں اور معاشرے میں فتنہ و فساد جنم لیتا ہے۔ جھوٹ کو ہم اپنا حق سمجھنے لگے ہیں۔ ہم یہ سوچنے کی زحمت نہیں کرتے کہ ہمارے جھوٹ کا دوسرے شخص پر کیا اثر ہوگا، وہ نفسیاتی طور پر کس اذیت سے گزرے گا۔ ہمیں صرف یہ کہنے کی عادت ہے ’’ کیا فرق پڑتا ہے؟ سب ہی تو کرتے ہیں‘‘۔ ’’ ہوتا ہے، چلتا ہے، دنیا ہے‘‘، والا رویہ ہمیں انسانوں سے ہجوم میں بدل رہا ہے۔ ہم بھیڑ چال کو خوشی خوشی اپناتے ہیں، بغیر سوچے سمجھے دوسروں کی نقل کرتے ہیں اور فخر سے کہتے ہیں’’ کوئی نہیں چلتا ہے‘‘۔ یاد رکھئے! جب چھوٹے چھوٹے جھوٹ، معمولی وعدہ خلافی اور وقتی مفاد کو ہم معمول سمجھ لیتے ہیں تو یہ عادتیں رفتہ رفتہ ایک ناسور بن جاتی ہیں اور اس کا سب سے پہلا شکار اعتماد ہوتا ہے۔ جب اعتماد ٹوٹتا ہے تو رشتے، تعلقات اور پورا معاشرتی ڈھانچہ بکھرنے لگتا ہے۔ ہمیں اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ ایک معمولی وعدہ خلافی کسی کے دل میں ہمارے لیے کتنی گہری مایوسی چھوڑ جاتی ہے۔
ایک عام سا جملہ ’’ بس پانچ منٹ میں پہنچ رہا ہوں‘‘، بظاہر بے ضرر لگتا ہے، مگر جب وہ پانچ منٹ آدھا گھنٹہ یا ایک گھنٹہ بن جاتے ہیں تو وہ اعتماد ختم ہو جاتا ہے جو برسوں میں قائم ہوا ہوتا ہے۔ ہم اکثر وعدے کرتے وقت یہ نہیں سوچتے کہ ہم اپنی بات سے کسی کی امید باندھ رہے ہیں۔ جب وہ امید ٹوٹتی ہے تو صرف ایک ملاقات یا کام نہیں، ایک انسان اندر سے ٹوٹ جاتا ہے۔ مگر ہمیں سوچنا ہوگا کہ دنیا ہم سے ہے۔
معاشرہ افراد سے بنتا ہے اور یہ ایک اجتماعی عمل ہے، انفرادی نہیں۔ اس لیے ہمیں بحیثیت قوم اجتماعی طور پر اپنے رویے بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ والدین اگر اپنے بچوں کے سامنے جھوٹ نہ بولیں اور وعدے کی پاسداری کریں، اساتذہ اگر وقت کی پابندی اور سچائی کی تلقین کریں اور ہم سب اپنی نجی زندگی میں سچ کو بنیاد بنائیں تو آہستہ آہستہ ایک مثبت تبدیلی آ سکتی ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں وقت کے ساتھ ہماری زندگیوں کو زہر آلود اور ہمارے معاشرے کو کھوکھلا بنا رہی ہیں۔ ہمیں شاید اس لیے یہ سب کچھ معمول کا لگتا ہے کیونکہ ہم نے اپنے بڑوں کو بھی یہی کرتے دیکھا ہے۔ مگر ماضی کی غلطیوں کو دہرانے کے بجائے، ہمیں اپنے حال کو سنوارنے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری آئندہ نسلیں ایک بہتر زندگی گزار سکیں۔