Column

وزیر اعظم کا بلوم برگ کی رپورٹ پر اطمینان کا اظہار

وزیر اعظم کا بلوم برگ کی رپورٹ پر اطمینان کا اظہار
تحریر : ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
پاکستان کی معیشت کا سفر ہمیشہ اتار چڑھائو کا شکار رہا ہے۔ 2018ء کے بعد سے ملکی معاشی صورتحال غیر یقینی، دبا اور عالمی مالیاتی اداروں پر انحصار کی تصویر بنی رہی۔ حکومتی ارکان کے بیان کے مطابق 2022ء کے وسط میں جب موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا، تو ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑا تھا۔ مہنگائی، کرنسی کی گراوٹ، تجارتی خسارہ، زر مبادلہ کے ذخائر کی کمی اور اسٹاک مارکیٹ کی مسلسل مندی ایسے عناصر تھے جنہوں نے معیشت کو دلدل میں دھکیل دیا تھا۔
یہ صورت حال محض مقامی پالیسیوں کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ کورونا وبا، یوکرین جنگ، عالمی سطح پر اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ اور پچھلی حکومتوں کی مالی بے اعتدالیوں نے بھی اس بحران کو جنم دیا۔ اسی تناظر میں موجودہ حکومت کو ورثے میں ایک بدحال معیشت ملی۔
موجودہ حکومت نے ابتدائی دنوں میں ہی معاشی استحکام کی راہ پر گامزن ہونے کا فیصلہ کیا۔ ان اقدامات میں درج ذیل پالیسی اصلاحات اور فیصلے شامل تھے جن میں سرفہرست ادارہ جاتی اصلاحات ہیں۔ ٹیکس نیٹ میں توسیع، نان فائلرز پر پابندیاں اور ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن شامل ہیں۔ آئی ایم ایف سے نئی شرائط پر قسطوں کی منظوری، دوست ممالک سے مالی تعاون کا حصول بھی اہم فیصلہ ہے۔ توانائی اور پٹرولیم مصنوعات پر دی جانے والی سبسڈی کو محدود کر کے مالیاتی خسارہ کم کرنے کی کوشش کی گئی۔ تجارتی خسارے پر قابو پانے کے لیے برآمدات کو فروغ دینے والی پالیسیاں متعارف کرائی گئیں۔
یہ اقدامات بظاہر وقتی ریلیف کے طور پر سامنے آئے، مگر چند اصلاحات کا دائرہ کار دیرپا اور پائیدار اثرات رکھنے والا دکھائی دیتا ہے۔
حال ہی میں معتبر عالمی جریدے بلوم برگ کی رپورٹ میں پاکستان کو ان چند ممالک میں شامل کیا گیا ہے جنہوں نے گزشتہ 12ماہ میں نمایاں معاشی بہتری دکھائی۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کا ڈیفالٹ رسک 59فیصد سے کم ہو کر 47 فیصد ہو گیا ہے۔ حکومتی پالیسیوں، آئی ایم ایف معاہدوں اور بروقت قرضوں کی ادائیگی کو سراہا گیا ہے۔ حکومت کی معاشی ٹیم کی کوششوں کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا گیا ہے۔
یہ رپورٹ نہ صرف حکومتی اقدامات پر مہرِ تصدیق ہے بلکہ عالمی منڈیوں میں پاکستان کے لیے ایک مثبت پیغام بھی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اس رپورٹ پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے مستقبل میں مزید بہتری کی امید ظاہر کی ہے۔
اگرچہ معاشی اشاریے بہتری کی نوید سنا رہے ہیں، مگر چند سوالات اب بھی توجہ طلب ہیں جن میں پہلا بنیادی سوال یہ ہے کہ عوامی ریلیف کہاں ہے؟ مہنگائی اب بھی دوہرے ہندسے میں ہے، بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں۔ دوسرا سوال ٹیکس اصلاحات کی پائیداری کے بارے میں ہے۔ کیا ٹیکس نیٹ کو پائیدار طور پر وسعت دی جا چکی ہے یا یہ محض عارضی دبائو کی پیداوار ہے؟
اگرچہ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا ہے، مگر عملی سطح پر صنعتوں میں نئی سرمایہ کاری کے شواہد اب بھی محدود ہیں۔ معیشت کی بہتری کا اصل پیمانہ عوامی روزگار کی فراہمی ہے جو تاحال واضح نہیں۔
موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں نے قلیل مدت میں مثبت نتائج دئیے ہیں جنہیں عالمی سطح پر تسلیم کیا جا رہا ہے۔ بلوم برگ کی رپورٹ اس کا ثبوت ہے۔ مگر اس کامیابی کو دیرپا بنانے کے لیے چند نکات انتہائی ضروری ہیں۔ ادارہ جاتی اصلاحات کا تسلسل قائم رکھا جائے۔ سبسڈی کے متبادل کے طور پر ٹارگٹڈ ریلیف سکیمیں متعارف کرائی جائیں۔ زرعی و صنعتی شعبے کو سب سے زیادہ اہمیت دی جائے تاکہ معیشت کی بنیاد مضبوط ہو۔ روزگار کی فراہمی اور غربت کے خاتمے کو اولین ترجیح دی جائے۔
پاکستان کی معیشت ایک نازک دوراہے سے نکل کر بہتری کی طرف گامزن ہے، مگر کامیابی کی ضمانت صرف وقتی اعداد و شمار نہیں بلکہ طویل المدتی پالیسیاں، شفافیت اور عوامی فلاح پر مرکوز منصوبہ بندی ہے۔ اگر یہ تسلسل جاری رہا تو پاکستان واقعی معاشی خودمختاری کی جانب گامزن ہو سکتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button