Column

وفائوں کے شہر میں بے وفا

وفائوں کے شہر میں بے وفا
تحریر : روہیل اکبر
مجید امجد ،طارق عزیز،دلدار پرویز بھٹی ،مشتاق احمد ،منظور الٰہی ،ظہور الٰہی اور سلیم الٰہی جیسے خوبصورت لوگوں کے وفائوں کے شہر ساہیوال میں بے وفائی کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ قران مجید پر قسمیں اور وفائوں کے دعو ے کرنے والا رکن قومی اسمبلی چودھری عثمان پہلا شخص نکلا جسے پی ٹی آئی نے ٹکٹ دیا اور پھر لوگوں نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر مور کے نشان پر مہریں لگائیں حالانکہ اس کے مقابلہ میں ساہیوال سے ناقابل شکست چودھری اشرف لیڈر مسلم لیگ ن کا امیدوار تھا، مگر ساہیوال کے لوگوں نے عمران خان کی محبت میں چودھری عثمان کو ووٹ دئیے، وہ بھی اس لیے کہ اس نے ووٹروں کو قران مجید پر اپنی وفاداری تبدیل نہ کرنے کا حلف دیا تھا۔ چودھری عثمان کے بارے میں مزید لکھنے سے پہلے میں اپنے تاریخی شہر ساہیوال کا ذکر ضرور کرنا چاہوں گا، جس کی گلیوں میں میرا بچپن اور لڑکپن گزرا، جس کے قابل فخر سکول جے برانچ گجر احاطہ، بٹالہ مسلم ہائی سکول اور گورنمنٹ کالج ساہیوال سے ہوتا ہوا میں لاہور پہنچا۔ ساہیوال جسے ’’ وفائوں کا شہر‘‘ کہا جاتا ہے، جو اپنی تاریخی، ثقافتی اور زرعی اہمیت کی وجہ سے پاکستان کے نقشے پر ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ اس شہر کا نام سنتے ہی ذہن میں ایک ایسی جگہ کا تصور ابھرتا ہے جہاں لوگ محبت، خلوص اور وفاداری کی روایات کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں، یہاں کے باسیوں کی مہمان نوازی اور اپنے تعلقات میں مضبوطی ان کی پہچان ہے۔ ساہیوال جو پہلے منٹگمری کے نام سے جانا جاتا تھا، برطانوی راج کے دوران پنجاب کے اہم اضلاع میں سے ایک تھا اس خطے کے باسیوں نے اپنی سطح پر آزادی کی تحریک میں مزاحمت، سیاسی بیداری اور قوم پرستانہ جذبات کو پروان چڑھانے میں بھی حصہ ڈالا۔ جب برطانوی حکومت نے ساہیوال اور اس کے گردونواح میں زرعی اصلاحات کے نام پر کینال کالونیاں قائم کیں اور زمینوں کی الاٹمنٹ کا نظام متعارف کرایا تو اس نظام نے جہاں کچھ لوگوں کو فائدہ پہنچایا، وہیں مقامی آبادی میں بے چینی بھی پیدا کی، کسانوں پر لگان کا بوجھ، نئے قوانین اور نوآبادیاتی انتظامیہ کے سخت رویے نے مزاحمت کی چنگاری کو ہوا دی۔ خاص طور پر 1907ء کی نہری کالونیوں کی تحریک میں، جس کی قیادت لالہ لاجپت رائے اور سردار اجیت سنگھ کر رہے تھے، ساہیوال کے کسانوں نے بھی بھرپور حصہ لیا۔ یہ تحریک برطانوی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج بنی اور اسی تحریک نے لوگوں میں اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کا شعور پیدا کیا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں جب برصغیر میں سیاسی جماعتوں کا قیام عمل میں آ رہا تھا تو ساہیوال میں بھی سیاسی بیداری کی لہر پہنچی۔ انڈین نیشنل کانگریس اور بعد میں آل انڈیا مسلم لیگ کی شاخیں یہاں قائم ہوئیں، جنہوں نے مقامی سطح پر آزادی کے پیغام کو پھیلایا، جلسے جلوس منعقد کیے، اخبارات اور رسالوں کے ذریعے قوم پرستانہ نظریات کو فروغ دیا اور نوجوانوں کو تحریک کا حصہ بننے کی ترغیب دی۔ مقامی رہنمائوں نے گاندھی کی عدم تشدد کی تحریک اور قائداعظمؒ کی دو قومی نظریے کی حمایت میں سرگرم کردار ادا کیا۔ ساہیوال کے تعلیمی اداروں میں بھی طلباء میں آزادی کا جذبہ پروان چڑھا اور وہ مختلف تحریکوں میں شامل ہوئے۔ 1920ء کی دہائی میں شروع ہونے والی عدم تعاون تحریک اور بعد میں سول نافرمانی کی تحریک میں ساہیوال کے لوگوں نے بھی حصہ لیا۔ برطانوی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا گیا، سرکاری نوکریوں اور تعلیمی اداروں سے کنارہ کشی اختیار کی گئی اور جیل بھرو تحریک میں بھی لوگوں نے گرفتاریاں دیں۔ 1946ء کے انتخابات میں مسلم لیگ نے یہاں سے نمایاں کامیابی حاصل کی، جو اس بات کا ثبوت تھا کہ مقامی آبادی پاکستان کے قیام کے حق میں تھی، یہ خطہ مزاحمت، سیاسی بیداری اور قوم پرستانہ جذبات کی آبیاری کا مرکز تھا۔ یہاں کے باسیوں کی قربانیاں چاہے وہ جیلوں میں قید کی صورت میں ہوں یا مالی نقصانات کی شکل میں آزادی کی منزل حاصل کرنے میں معاون ثابت ہوئیں۔ ساہیوال اپنی تاریخی اور ثقافتی اہمیت کے ساتھ ساتھ سیاسی شعور کے حوالے سے بھی ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ یہاں کے باسیوں کی اپنے رہبروں اور جماعتوں سے وابستگی ہمیشہ سے مثالی رہی ہے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس ’’ وفائوں کے شہر‘‘ میں بھی اب بے وفائی کے سائے بڑھنا شروع ہوگئے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف (PTI)کے رکن قومی اسمبلی چودھری عثمان کی مبینہ ’’ بے وفائی‘‘ نے شہر کی فضا میں ایک نئی بحث چھیڑ دی
ہے۔ چودھری عثمان جسے اس کے چچا چودھری آصف کی سفارش پر PTIکا ٹکٹ ملا، چودھری آصف آج بھی عمران خان کے ساتھ وفائوں کی مثال بنا ہوا ہے، لیکن عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے والے چودھری عثمان نے پارٹی کی مشکل گھڑی میں اس سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔ عام طور پر سیاسی جماعتوں میں ایسے لمحات آتے ہیں جب وفاداری کا اصل امتحان ہوتا ہے۔ PTIجو اس وقت ایک مشکل دور سے گزر رہی ہے اور اپنے منتخب نمائندوں سے غیر متزلزل وفاداری کی توقع رکھتی ہے، ایسے میں چودھری عثمان کا یہ اقدام نہ صرف پارٹی کے کارکنوں کے لیے مایوسی کا باعث بنا ہے، بلکہ ساہیوال کے عوام میں بھی اس پر بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا یہ قدم ان کے انتخابی وعدوں اور عوام کے اعتماد سے ’’ بے وفائی‘‘ کے مترادف نہیں ہے ؟۔ لیکن کچھ حلقے اسے سیاست کا حصہ قرار دے رہے ہیں کہ وفاداریاں بدلنا کوئی غیر معمولی بات نہیں، لیکن ساہیوال کی روایتی اقدار کے تناظر میں وفاداری اور کمٹمنٹ کو بہت اہمیت دی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر بھی اس موضوع پر گرما گرم بحث جاری ہے اور لوگ اپنی رائے کا اظہار کھل کر کر رہے ہیں۔ چودھری عثمان کا یہ اقدام نہ صرف ان کے اپنے سیاسی کیریئر پر اثرانداز ہو گا بلکہ آنے والے انتخابات میں یہ واقعہ ووٹرز کے ذہنوں میں تازہ رہے گا اور بے وفائی کا یہ پہلو فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ واقعہ دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے بھی ایک سبق ہے کہ عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچانے والے اقدامات کے نتائج سنگین ہو سکتے ہیں۔ کیا یہ واقعہ ساہیوال کی ’’ وفائوں کے شہر‘‘ کی پہچان کو داغدار کرے گا یا پھر عوام اپنی رائے کا اظہار کر کے وفاداری کی اقدار کو مضبوط کریں گے؟۔ منحرف رکن قومی اسمبلی چودھری عثمان کے سیاسی سفر کو اگر دیکھا جائے تو شہر کی سیاست میں چودھری عثمان کا نام اس وقت نمایاں ہوا جب وہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر 2018 ء کے عام انتخابات میں حلقہ این اے 149ساہیوال سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ یہ وہ دور تھا جب پی ٹی آئی ملک بھر میں ایک نئی سیاسی قوت کے طور پر ابھر رہی تھی اور چودھری عثمان کی کامیابی اس سیاسی لہر کا حصہ تھی، ان کی جیت نے انہیں قومی سیاست میں ایک پہچان دی۔
لیکن ان کا اصل ٹیسٹ سیاسی بحران کے وقت سامنے آیا جب انہوں نے اپریل 2022ء میں تحریک عدم اعتماد کے دوران مبینہ طور پر پی ٹی آئی سے ’’ انحراف‘‘ کیا۔ اس وقت پی ٹی آئی کی حکومت کو اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کا سامنا تھا اور پارٹی کو اپنے ارکان کی مکمل حمایت درکار تھی۔ چودھری عثمان ان چند ارکان میں سے تھے جنہوں نے بظاہر پارٹی لائن سے ہٹ کر اپوزیشن کا ساتھ دیا، یا کم از کم پارٹی کی واضح حمایت سے گریز کیا۔ پی ٹی آئی نے انہیں پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کے خلاف ڈسپلنری کارروائی کا آغاز کیا گیا۔ اس ’’ انحراف‘‘ نے ان کے حلقے ساہیوال میں بھی شدید ردعمل کو جنم دیا، جہاں پی ٹی آئی کے حامیوں نے اسے ووٹرز کے اعتماد سے غداری قرار دیا۔ عوامی مقامات اور سوشل میڈیا پر ان کے خلاف مظاہرے اور بیانات سامنے آنے لگے۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 63۔Aکے تحت انحراف کرنے والے ارکان کی نااہلی کا قانون موجود ہے، جس کے تحت انہیں اپنی نشست سے ہاتھ دھونا پڑ سکتے ہیں۔ ساہیوال کے سیاسی مبصرین، سیاستدانوں اور سینئر صحافیوں میاں انوار الحق رامے، چودھری جاوید سرور اور چودھری رشید اکمل کا کہنا ہے کہ چودھری عثمان کے لیے آئندہ انتخابات میں دوبارہ منتخب ہونا ناممکن ہو سکتا ہے۔ چودھری عثمان کا سیاسی سفر پاکستان کی موجودہ سیاست کا ایک چھوٹا سا عکس ہے، جہاں وفاداریاں بدلنا، دبائو کا مقابلہ کرنا اور انتخابی مجبوریوں کے تحت فیصلے کرنا معمول بن چکا ہے اور ایسے اشخاص گھر کے رہتے ہیں نہ ہی گھاٹ کے۔

روہیل اکبر

جواب دیں

Back to top button