Column

ہیلتھ کارڈ: امید سے محرومی تک کا سفر

ہیلتھ کارڈ: امید سے محرومی تک کا سفر
تحریر : امتیاز احمد شاد
یہ ملک روز نئے بحرانوں سے گزرتا ہے، مگر سب سے گہرا بحران وہ ہوتا ہے جو ایک عام انسان کے جسم، سانس اور دل کی دھڑکن سے جڑا ہو ، یعنی صحت کا بحران۔ پاکستان میں کروڑوں لوگ ایسے ہیں جنہیں نہ صبح کے ناشتہ کی یقین دہانی ہوتی ہے، نہ دوا کی سہولت میسر آتی ہے۔ یہاں ایک غریب باپ اپنی بیٹی کی دوا اور گھر کے آٹے کے بیچ فیصلہ کرنے پر مجبور ہوتا ہے، اور ایک ماں اسپتال کے دروازے پر یہ سنتی ہے کہ ’’ بیڈ خالی نہیں‘‘۔ ایسے حالات میں کسی قوم کا ترقی خوشحالی، غیرت، خودی اور اقوام عالم میں اہم کردار یا ایشین ٹائیگر ایسے الفاظ سے کیا لینا دینا۔ حالات جیسے بھی ہوں ریاست اپنے شہریوں کو بے بسی کی حالت میں نہیں چھوڑتی۔ ویسے تو قیام پاکستان سے لے کر آج تک عام آدمی کو کسی بھی سرکار نے کچھ نہیں دیا بلکہ ٹیکسوں کی مد میں ہمیشہ لیا ہی ہے۔ لیکن پاکستان میں اگر کوئی سرکاری اقدام واقعی عام آدمی کی زندگی بدلنے میں کامیاب ہوا تو وہ ’’ صحت سہولت پروگرام‘‘ یا عرف عام میں ’’ ہیلتھ کارڈ‘‘ تھا۔ یہ کارڈ صرف ایک شناختی دستاویز نہیں تھا، بلکہ ایک ایسے خواب کی تعبیر تھا جس میں عام پاکستانی، جو اکثر مہنگے علاج کے سامنے بے بس نظر آتا ہے، پہلی بار وقار کے ساتھ اسپتال میں داخل ہو سکتا تھا۔ مگر اب جب یہ سہولت پنجاب کے سرکاری اسپتالوں سے ختم کی جا رہی ہے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم پھر وہیں لوٹ رہے ہیں جہاں سے چلے تھے؟۔
ہیلتھ کارڈ کا آغاز 2015میں خیبرپختونخوا میں ایک پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر ہوا، جسے بعد میں ملک بھر میں توسیع دی گئی۔ اس منصوبے کا مقصد معاشرے کے پسماندہ طبقات کو مفت اور باوقار طبی سہولیات فراہم کرنا تھا، بالخصوص ان بیماریوں کے لیے جن کا علاج عام طور پر عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتا ہے، جیسے دل کے آپریشن، جگر کی پیوندکاری، ڈائیلیسز، کینسر کا علاج، اور زچگی جیسے پیچیدہ کیسز۔2021ء میں ، پنجاب حکومت نے اس پروگرام کو پورے صوبے میں نافذ کیا، جس کے تحت ہر خاندان کو سالانہ تقریباً 10لاکھ روپے تک کا علاج مفت مہیا کیا جانے لگا۔ شناختی کارڈ ہی خود بخود ہیلتھ کارڈ بن گیا، اور شہریوں کو کسی علیحدہ رجسٹریشن کی ضرورت نہ رہی۔ اس سہولت کا سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ اب ایک عام مزدور، دہاڑی دار، کسان، یا گھریلو خاتون بھی بغیر سفارش، بغیر رشوت، اور بغیر تذلیل کے بڑے نجی اور سرکاری اسپتالوں میں علاج کرا سکتا تھا۔ لاہور، ملتان، راولپنڈی اور فیصل آباد کے بڑے اسپتالوں میں روزانہ ہزاروں افراد اس سہولت سے استفادہ کرتے۔ کئی لوگ جنہوں نے زندگی بھر اسپتال کا دروازہ صرف باہر سے دیکھا تھا، اب دل کے مہنگے آپریشن کروا رہے تھے۔
ایک اور بڑا فائدہ یہ ہوا کہ نجی اسپتالوں میں داخلہ اور علاج کا معیار عام آدمی تک پہنچا۔ حکومت اسپتالوں کو فی مریض طے شدہ رقم ادا کرتی تھی، جس سے ایک طرف تو نجی شعبے کو فروغ ملا، اور دوسری طرف مسابقت نے سرکاری اسپتالوں کو بھی بہتر خدمات فراہم کرنے پر مجبور کیا۔ جون 2025ء میں پنجاب حکومت کی جانب سے یہ اعلان سامنے آیا کہ سرکاری اسپتالوں میں ہیلتھ کارڈ کے تحت علاج کی سہولت ختم کی جا رہی ہے۔ یہ فیصلہ اچانک تھا، اور اس پر عمل درآمد بھی فوری طور پر کر دیا گیا۔ اب یہ سہولت صرف مخصوص نجی اسپتالوں میں میسر ہو گی اور وہ بھی 50 فیصد رقم مریض کو خود ادا کرنا پڑے گی۔ یہ فیصلہ ان لاکھوں لوگوں کے لیے کسی صدمے سے کم نہیں، جو صحت کارڈ کو اپنا واحد سہارا سمجھتے تھے۔ خصوصاً وہ مریض جو پہلے ہی زیرِ علاج تھے، اب نہ صرف ذہنی دبا کا شکار ہو گئے ہیں بلکہ ان کے لیے علاج کا تسلسل برقرار رکھنا بھی ممکن نہیں رہا۔
ہیلتھ کارڈ کی بندش سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ دیہی اور کم آمدنی والے شہری ہیں۔ دیہی علاقوں میں نہ تو معیاری نجی اسپتال موجود ہیں، نہ ہی شہریوں کے پاس اتنی آمدنی کہ وہ پچاس فیصد ادائیگی کر سکیں۔ لاہور جیسے شہر میں بھی ہزاروں مریض جناح، جنرل، سروسز اور پی آئی سی میں کارڈ کے ذریعے زیرِ علاج تھے۔ اب ان کے سامنے صرف دو راستے ہیں: یا تو قرض لے کر علاج کروائیں، یا خاموشی سے بیماری کو برداشت کریں۔ اسی طرح وہ مریض جنہیں مہنگے علاج کی ضرورت ہے جیسے کینسر، تھیلیسیمیا، یا گردوں کی ناکامی ان کے لیے کارڈ بند ہونے کا مطلب زندگی اور موت کے درمیان ایک باریک لکیر ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں علاج پہلے ہی مفت ہوتا ہے، اس لیے ہیلتھ کارڈ کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ مگر اس دعوے کو حقیقت سے دور تصور کیا جا رہا ہے۔ اول تو تمام علاج سرکاری اسپتالوں میں دستیاب نہیں، دوسرا وہاں مریضوں کا رش، محدود مشینری، اور عملے کی کمی ایک علیحدہ مسئلہ ہے۔ ایسے میں نجی اسپتالوں کا سہارا ہی اصل حل تھا، جو اب مہنگا کر دیا گیا ہے۔ یہ بھی سوال کیا جا رہا ہے کہ اگر صحت کارڈ پر اتنا مالی بوجھ تھا، تو کیا اس کے متبادل پر غور کیا گیا؟ کیا شفافیت سے عوام کو اعتماد میں لیا گیا؟ یا یہ فیصلہ محض بیورو کریٹک مجبوری تھی؟ ہیلتھ کارڈ ایک ایسی اسکیم تھی جس نے طبقاتی فرق کو کم کیا۔ یہ وہ موقع تھا جب ایک دیہاڑی دار اور ایک افسر ایک ہی اسپتال میں ایک جیسی سہولت سے فائدہ اٹھا رہے تھے۔ مگر اب یہ فرق دوبارہ واضح ہو گیا ہے۔ جس کے پاس پیسہ ہے، وہ علاج کرائے گا؛ جو غریب ہے، وہ قطاروں میں کھڑا رہے گا، یا پھر گھر میں بیماری چھپائے گا۔ یہ وقت ہے جب حکومت کو جذبات یا سیاسی مصلحتوں کے بجائے صحت کے نکتہ نظر سے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔
ہیلتھ کارڈ صرف ایک پالیسی نہیں تھی، بلکہ لاکھوں دلوں کی امید تھی۔ اسے ختم کرنا شاید وقتی طور پر مالی بچت کا ذریعہ بنے، مگر طویل مدتی طور پر یہ انسانی ترقی کے راستے میں ایک رکاوٹ بنے گا۔ ایک فلاحی ریاست وہی ہوتی ہے جو اپنے کمزور ترین شہری کے ساتھ کھڑی ہو ۔

جواب دیں

Back to top button