پی ٹی آئی کی سیاسی تنہائی میں مزید گہرائی

پی ٹی آئی کی سیاسی تنہائی میں مزید گہرائی !!
تحریر : عقیل انجم اعوان
سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے نے ایک بار پھر قانون کی بالادستی کا پیغام دیا ہے اور ایک ایسی بحث کو بند کرنے کی کوشش کی ہے جو ملک میں بار بار غیر ضروری طور پر چھیڑی جا رہی ہے۔ یہ فیصلہ تیرہ رکنی بینچ نے دیا جس میں نو ججوں نے پچھلی قانونی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے اسے درست کیا۔ دو ججوں نے ابتدا ہی سے اس نظرثانی کے حق میں رائے نہیں دی لیکن یہ اختلاف ایک جمہوری عدالتی روایت کا حصہ ہے۔ قانونی نظام میں اختلاف کوئی سازش نہیں بلکہ ایک سوچنے سمجھنے اور غور و فکر کرنے والا عمل ہوتا ہے۔ اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ ریاستی ادارہ یعنی عدالت نے فیصلہ دے دیا ہے اور یہ فیصلہ پوری وضاحت کے ساتھ سامنے آ چکا ہے۔ اس کے باوجود پی ٹی آئی کی جانب سے فیصلے کو تسلیم کرنے کے بجائے اس پر مسلسل شکوک و شبہات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی روایت بن چکی ہے کہ وہ ہر اُس فیصلے کو جس میں اس کے موقف کو پذیرائی نہ ملے فوراً کسی نہ کسی سازش سے جوڑ دیتی ہے۔ یہ طرز عمل نہ صرف سیاسی بلوغت کی کمی ظاہر کرتا ہے بلکہ اداروں کے خلاف عوامی ذہن کو مشتعل کرنے کی ایک خطرناک کوشش بھی بن سکتا ہے۔ اس بار مخصوص نشستوں کے معاملے پر پی ٹی آئی نے ایک نیا طوفان کھڑا کیا ہے۔ جماعت کا موقف ہے کہ چونکہ اس نے بعد میں سنی اتحاد کونسل سے اتحاد کیا تھا اس لیے اسے مخصوص نشستوں میں حصہ دیا جائے۔ لیکن جب ہم قانون کو دیکھتے ہیں تو یہ دعویٰ خود بخود ختم ہو جاتا ہے۔ سنی اتحاد کونسل نے اپنے طور پر انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔ اس کے کسی بھی امیدوار نے جماعتی حیثیت سے الیکشن میں حصہ نہیں لیا بلکہ آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں اترے۔ قانون واضح طور پر کہتا ہے کہ مخصوص نشستیں صرف ان جماعتوں کو دی جا سکتی ہیں جو اپنے انتخابی نشان پر انتخابات میں حصہ لیتی ہیں اور کچھ نشستیں حاصل بھی کرتی ہیں۔ آئین کے آرٹیکل اکاون اور ایک سو چھ کے مطابق اور الیکشن ایکٹ کی روشنی میں یہ اصول نہایت واضح ہے۔ اس میں کسی مبہم تشریح کی گنجائش نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن نے بارہا پی ٹی آئی سے وضاحت مانگی کہ کیا سنی اتحاد کونسل نے باقاعدہ طور پر الیکشن لڑا۔ پی ٹی آئی اس سوال کا واضح جواب دینے سے گریز کرتی رہی۔ اس نے دانستہ طور پر بات کو الجھانے کی کوشش کی۔ شاید اس امید پر کہ کہیں سے کوئی قانونی فائدہ حاصل ہو جائے۔ لیکن قانون کسی ابہام پر چلنے والی شے نہیں ہوتا۔ قانون وضاحت مانگتا ہے۔ قانون دلیل اور دستاویز مانگتا ہے۔ یہاں پی ٹی آئی نے کوئی باضابطہ دستاویز جمع نہیں کروائی۔ اس نے الیکشن کمیشن سے مخصوص نشستوں کا کوئی باضابطہ مطالبہ نہیں کیا۔ اس کے تمام بیانات میڈیا پر تھے۔ یہ ایک شور شرابا تھا جسے قانونی دائرہ اختیار میں نہیں لایا گیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی نے عوامی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے ایک سیاسی کہانی گھڑی اور اسے سچ کے طور پر پیش کیا۔ سیاسی جماعت ہونے کے ناتے پی ٹی آئی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قانونی تقاضے پورے کرے۔ اپنی ساخت کو مستحکم کرے۔ لیکن بدقسمتی سے جماعت کی اندرونی صورتحال بھی ایسی نہیں جو کسی مضبوط سیاسی جماعت کی عکاسی کرے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق پی ٹی آئی نے اپنے اندرونی انتخابات میں بھی قانونی تقاضے پورے نہیں کیے۔ اس کی قیادت کا انتخاب جس طریقے سے کیا گیا وہ قواعد و ضوابط کے مطابق نہیں تھا۔ اس سے جماعت کی قانونی حیثیت خود مشکوک ہو جاتی ہے۔ جب ایک جماعت اپنے اندر جمہوری عمل کو رائج نہ کرے تو وہ ملک کی جمہوری سیاست میں کس بنیاد پر آئینی حقوق کا مطالبہ کر سکتی ہے۔یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ آئین کے مطابق آزاد امیدوار صرف انہی جماعتوں میں شامل ہو سکتے ہیں جنہوں نے الیکشن میں کامیابی حاصل کی ہو۔ سنی اتحاد کونسل چونکہ الیکشن میں کامیاب نہیں ہوئی اس لیے آزاد امیدواروں کا اس جماعت میں شامل ہونا بھی آئینی لحاظ سے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ یہ بات پی ٹی آئی کے موقف کو مزید کمزور کرتی ہے۔ اس تمام پس منظر میں یہ بات بار بار دہرائی جا سکتی ہے کہ قانون بالکل واضح ہے لیکن پی ٹی آئی کا رویہ قانون سے مطابقت نہیں رکھتا۔ پی ٹی آئی نے ایک عرصے سے خود کو عدالتی اور پارلیمانی عمل سے علیحدہ کر لیا ہے۔ وہ فیصلوں کو تسلیم کرنے کے بجائے ان کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کو ترجیح دیتی ہے۔ جلسے جلوس عوامی اظہار کا ایک ذریعہ ضرور ہو سکتے ہیں لیکن جب قانون کو نظر انداز کر کے صرف سڑکوں پر شور کیا جائے تو یہ طرز سیاست ملک کو آگے بڑھانے کے بجائے پیچھے دھکیلتا ہے۔ پی ٹی آئی کا ہر احتجاج اب اس بات کا ثبوت بن چکا ہے کہ وہ نظام کا حصہ بننے کے بجائے اس کے خلاف ایک مستقل مہم کا حصہ بن چکی ہے۔ یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ ملک کے دیگر ادارے اس وقت بہت سے چیلنجز کے باوجود اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حکومت نے موجودہ بجٹ میں مالی نظم و ضبط کا کچھ مظاہرہ کیا ہے۔ معیشت کو سہارا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عالمی سطح پر پاکستان کی افواج کا وقار بحال ہے اور وہ ملک کی سلامتی کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ وزیراعظم کی زیر نگرانی حکومت کی مشینری ایک بار پھر متحرک ہونے لگی ہے۔ یہ سب اقدامات ناکافی ضرور ہو سکتے ہیں لیکن یہ اس حقیقت کا ثبوت ہیں کہ ملک کو چلانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ایسے میں اگر کوئی بڑی سیاسی جماعت نظام کے ساتھ چلنے کے بجائے صرف مخالفت برائے مخالفت پر اتر آئے تو اس سے ملک کے سیاسی استحکام کو نقصان پہنچتا ہے۔ پی ٹی آئی اب بھی ایک بڑی اور اہم جماعت ہے۔ اس کی عوامی مقبولیت ایک حقیقت ہے۔ لیکن اگر یہ جماعت واقعی سیاسی میدان میں واپسی چاہتی ہے تو اسے نظام کے اندر آ کر اپنے کردار کو نبھانا ہوگا۔ چیخنا چلانا سیاست نہیں کہلاتا۔ سیاست نظم و ضبط اور قانونی فہم کا تقاضا کرتی ہے۔ پی ٹی آئی کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے صرف جلسے جلوس کافی نہیں ہوتے۔ عوامی ہمدردی بھی اسی وقت کارگر ہوتی ہے جب اس کے ساتھ سنجیدہ حکمت عملی اور واضح آئینی راستہ موجود ہو۔ قانون سے صرف اسی وقت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جب اسے دل سے تسلیم کیا جائے اور اس کے مطابق چلنے کا عزم کیا جائے۔ یہ ممکن نہیں کہ کوئی جماعت صرف ان قوانین کو مانے جو اس کے حق میں ہوں اور باقی کو رد کر دے۔ جب تک پی ٹی آئی کا طرز سیاست اس انداز میں جاری رہے گا اس وقت تک عدالتیں اپنے فیصلے دیتی رہیں گی۔ الیکشن کمیشن اپنی قانونی ذمہ داریاں نبھاتا رہے گا۔ حکومت اپنی رکاوٹوں کے باوجود ملکی نظام کو آگے بڑھاتی رہے گی۔ اور پی ٹی آئی اپنی سیاسی تنہائی میں مزید گہرائی میں جاتی جائے گی۔ وقت کا تقاضا ہے کہ پی ٹی آئی خود کو سنبھالے۔ اپنی جماعتی ساخت کو درست کرے۔ الیکشن کمیشن سے تعاون کرے۔ عدالتی فیصلوں کو تسلیم کرے۔ پاکستان اس وقت کئی اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔ معیشت کمزور ہے۔ ادارے دباؤ میں ہیں۔ عوام مہنگائی سے تنگ ہیں۔ ایسے میں سیاسی جماعتوں کو اپنا کردار ذمہ داری سے ادا کرنا چاہیے۔ سیاست صرف مخالفت کا نام نہیں۔ سیاست میں ذمہ داری کا عنصر بہت اہم ہوتا ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں صرف اقتدار کی رسہ کشی میں لگی رہیں گی تو ملک کی ترقی خواب ہی رہے گی۔ پی ٹی آئی کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ اپنے رویے پر نظر ثانی کرے۔ قانون سے اپنا تعلق دوبارہ جوڑے۔ سڑکوں کے بجائے پارلیمان کو ترجیح دے۔ عدالتوں کا احترام کرے۔ عوام کی نمائندگی صرف نعروں سے نہیں بلکہ قانون کے دائرے میں رہ کر کی جا سکتی ہے۔ اگر پی ٹی آئی ایسا نہیں کرتی تو وہ خود کو سیاست سے مزید الگ کرتی جائے گی۔ اس وقت ملک کو ایسی سیاست کی ضرورت ہے جو جوڑنے والی ہو توڑنے والی نہیں۔ جو قانون کی بالادستی کو تسلیم کرے نہ کہ صرف ذاتی فائدے کی بنیاد پر اسے رد کرے۔ جو اداروں کا احترام کرے اور ان سے تعاون کرے نہ کہ انہیں کمزور کرنے کی کوشش کرے۔ جو عدالتی فیصلوں کو قبول کرے نہ کہ ان پر سازش کا الزام لگا کر اپنے کارکنوں کو مشتعل کرے۔ سیاست کا اصل حسن یہی ہے کہ اختلاف کے باوجود اداروں کے ساتھ بیٹھا جائے۔ قانون کے مطابق فیصلے کیے جائیں۔ اگر کوئی مسئلہ ہو تو اس کا حل عدالت یا پارلیمان سے نکالا جائے۔ لیکن اگر سیاست صرف سڑکوں پر لڑنے کا نام بن جائے تو یہ ملک کو انتشار کی طرف لے جائے گا۔ پی ٹی آئی کو اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کیا چاہتی ہے۔ کیا وہ ایک ذمہ دار سیاسی جماعت بن کر ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے گی یا وہ شور اور احتجاج کے ذریعے صرف مظلومیت کا بیانیہ بیچتی رہے گی۔ وقت گزر رہا ہے۔ تاریخ صرف ان جماعتوں کو یاد رکھتی ہے جو نظام میں رہ کر قوم کی خدمت کرتی ہیں۔ جب تک پی ٹی آئی قانون کو مکمل طور پر تسلیم نہیں کرتی جب تک وہ عدالتی فیصلوں کا احترام نہیں کرتی جب تک وہ اپنی جماعتی ساخت کو قانون کے مطابق نہیں بناتی تب تک وہ صرف اپنے آپ کو سیاست کے دائرے سے دور کرتی چلی جائے گی۔ اور ملک اپنی مشکلات کے باوجود آگے بڑھتا رہے گا کیونکہ نظام شخصیات سے بڑا ہوتا ہے اور قانون ہر کسی پر برابر لاگو ہوتا ہے۔