آئندہ مالی سال کا وفاقی بجٹ: عوام دوست یا عوام دشمن؟

آئندہ مالی سال کا وفاقی بجٹ: عوام دوست یا عوام دشمن؟
تحریر : ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
کسی بھی ملک کا مالی سالانہ بجٹ نہ صرف معیشت کی سمت متعین کرتا ہے بلکہ یہ حکومتی پالیسیوں، ریاستی ترجیحات، اور عوامی ریلیف کے بنیادی خطوط کا آئینہ دار بھی ہوتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں کئی دہائیوں سے بجٹ کا جھکا بیشتر غیر ترقیاتی اخراجات، قرضوں کی واپسی اور دفاعی ضروریات کی طرف رہا ہے، جبکہ تعلیم، صحت، زراعت اور متوسط طبقے کی فلاح کو نظرانداز کیا جاتا رہا۔
تاہم گزشتہ چند برسوں میں یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی ہے کہ تنخواہ دار طبقہ ٹیکس نیٹ میں سب سے زیادہ دبا برداشت کرنے والا طبقہ ہے، جبکہ بڑے تجارتی، صنعتی، زمیندار، اور غیر رسمی سیکٹرز کی ٹیکس ادائیگی مایوس کن حد تک کم رہی ہے۔
قومی اسمبلی سے 17 ہزار 573 ارب روپے کے بجٹ کی منظوری، بجا طور پر ملکی تاریخ کے بڑے بجٹوں میں شمار کی جا سکتی ہے۔ اس بجٹ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں تنخواہ دار طبقے کو کچھ حد تک ریلیف دیا گیا ہے۔ یہ اقدام ان تمام اعتراضات کا جزوی جواب ہے جو گزشتہ کئی برسوں سے ٹیکس پالیسی کے عدم توازن پر کیے جا رہے تھے۔
بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو دیے گئے ریلیف کو مثبت اقدام کہا جا سکتا ہے۔ اس طبقے پر مسلسل بڑھتے ٹیکسز نے متوسط اور نچلے متوسط طبقے کی زندگی اجیرن بنا دی تھی۔ اب اگر حکومت اس طبقے کو جزوی ریلیف دے رہی ہے، تو یہ بجا طور پر ایک فلاحی ریاست کی طرف پیش رفت ہے۔ تاہم یہ ریلیف وقتی نہ ہو بلکہ اسے مستقل پالیسی کا حصہ بنایا جائے تاکہ معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کہلانے والا یہ طبقہ بحال ہو سکے۔
بجٹ میں جن اہم نکات کا ذکر کیا گیا ہے، ان میں ایک قابلِ تحسین پہلو یہ بھی ہے کہ ان شعبہ جات کو بھی بتدریج ٹیکس نیٹ میں لایا جا رہا ہے جو طویل عرصے سے اس نظام سے باہر تھے۔ مثلاً بڑے زمیندار، غیر رسمی کاروباری ادارے، غیر دستاویزی تجارت، اور مختلف پیشہ ورانہ گروہ۔ مالیاتی لین دین کو ڈیجیٹل نظام سے منسلک کرنے کا عمل بھی شفافیت، احتساب اور مثر ریونیو کلیکشن کے لیے نہایت اہم قدم ہے۔
سولر پینل کی درآمد پر 18 فیصد سے کم کرکے 10 فیصد سیلز ٹیکس کا نفاذ، ایک متوازن پالیسی کا تاثر دیتا ہے۔ تاہم اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ اس سے سولر سسٹمز کی لاگت میں اضافہ ہوگا اور غریب یا متوسط طبقے کی رسائی محدود ہو سکتی ہے۔ حکومت اگر واقعی کلین انرجی کے فروغ کی خواہاں ہے، تو اسے سولر مصنوعات پر سبسڈی یا بلاسود قرضوں کا نظام متعارف کرانا چاہیے تاکہ ماحول دوست توانائی کا رجحان قائم رہے۔
پٹرولیم مصنوعات پر 2.5 فیصد کاربن لیوی عائد کرکے اسے کلائمٹ سپورٹ کا نام دینا ایک جدید طرزِ حکمرانی کی علامت ہو سکتی ہے بشرطیکہ اس رقم کا شفاف استعمال یقینی بنایا جائے۔ ماضی میں ماحولیاتی فنڈز کا غلط استعمال دیکھا گیا ہے، اس لیے اس نئے ٹیکس کی اخلاقی حیثیت اسی صورت برقرار رہے گی جب اسے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے بروئے کار لایا جائے گا۔
بجٹ میں قانونی اور ضابطہ جاتی اصلاحات کا اعلان بھی مثبت پیش رفت ہے۔ سیلز ٹیکس فراڈ پر 24 گھنٹوں میں مجسٹریٹ کے سامنے پیشی کی شرط انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہے۔ کارگو ٹریکنگ سسٹم اور ای-بلٹی نظام کی تنصیب اسمگلنگ، ٹیکس چوری اور جعلی دستاویزات کے سدباب میں ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ اس سے ریاست کی مالی خودمختاری میں اضافہ ہوگا اور معیشت کے غیر دستاویزی حصے کو باضابطہ بنانے کی راہ ہموار ہوگی۔ زیادہ تر لوگوں خاص طور حزب اختلاف کے ارکان نے اس بجٹ کو عوام دشمن بجٹ قرار دیا ہے لیکن حکومتی ارکان کی رائے میں یہ عوام دوست بجٹ ہے۔اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا۔
آئندہ مالی سال کا بجٹ کئی مثبت پہلوں کا حامل ہے جن میں ٹیکس نیٹ کی وسعت، ڈیجیٹل معیشت کی جانب پیش قدمی، تنخواہ دار طبقے کو ریلیف، اور ماحولیاتی حوالے سے قانون سازی شامل ہے۔ تاہم اس بجٹ کی کامیابی کا انحصار صرف اس کی منظوری پر نہیں، بلکہ ان تمام اعلانات اور اصلاحات کے موثر اور دیانت دارانہ نفاذ پر ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ ریلیف پالیسیوں کو صرف وقتی نہ بنائے بلکہ انہیں طویل المیعاد اصلاحات کا حصہ بنائے۔ تمام نئے ٹیکسز کے استعمال کی شفافیت یقینی بنائے تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو۔ ماحول دوست پالیسیوں کو محض ٹیکس جمع کرنے کا ذریعہ بنانے کی بجائے حقیقی تبدیلی کا ذریعہ بنائے۔ یہ بجٹ پاکستان کی معیشت کو استحکام کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے اگر نیت خالص، نظام شفاف اور نفاذ دیانت دارانہ ہو۔
یہ بجٹ ایک ایسے وقت میں منظور ہوا ہے جب پاکستان کو مالیاتی بحران، افراط زر اور معیشت کی سست روی جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اگر یہ بجٹ اپنے تمام تر دعوں کے ساتھ عملی سطح پر نافذ ہوتا ہے تو یہ نہ صرف ملکی معیشت میں بہتری لا سکتا ہے بلکہ ایک نئے معاشی و سماجی معاہدے کی بنیاد بھی رکھ سکتا ہے۔