Column

زعفران کا سنہرا خواب: بلوچستان سے گلگت تک زرعی انقلاب کی امید

زعفران کا سنہرا خواب: بلوچستان سے گلگت تک زرعی انقلاب کی امید
تحریر : یاسر دانیال صابری

زعفران کی کاشت کے بے شمار فوائد ہیں یہ فصل کم پانی میں پروان چڑھتی ہے، جس سے پانی کی بچت ہوتی ہے، اور اسے زیادہ محنت درکار نہیں ہوتی، اس لیے کسان کی محنت کم لگتی ہے؛ زعفران کا بیج نہیں ہوتا بلکہ بلب ہوتے ہیں جو کئی سالوں تک قابلِ استعمال رہتے ہیں، یوں ایک بار کی سرمایہ کاری کئی سالوں تک فائدہ دیتی ہے؛ اس کی مارکیٹ ویلیو نہایت زیادہ ہے، ایک گرام زعفران کی قیمت 950روپے تک اور ایک کلوگرام کی قیمت ساڑھے سات لاکھ روپے تک جا پہنچتی ہے، جس سے کسان کو نمایاں مالی فائدہ حاصل ہوتا ہے؛ اس کے علاوہ یہ فصل برآمدی صلاحیت بھی رکھتی ہے، جو قومی زرِ مبادلہ میں اضافہ کر سکتی ہے؛ اور سب سے بڑھ کر، یہ زراعت کو جدید، منافع بخش اور خود کفیل بنانے کی طرف ایک مضبوط قدم ہے۔
بلوچستان، جو کبھی صرف بنجر زمین، پسماندگی اور محرومیوں کا استعارہ سمجھا جاتا تھا، آج ایک ایسی فصل کے تجربے سے گزر رہا ہے جو نہ صرف اس خطے کی زراعت بلکہ اس کی معیشت کو بھی سنوار سکتا ہے۔ یہ فصل کوئی عام فصل نہیں بلکہ زعفران ہے، جو دنیا کا سب سے قیمتی اور نازک ترین مصالحہ تصور کیا جاتا ہے۔ اور خوش آئند بات یہ ہے کہ بلوچستان میں زعفران کی کاشت کا تجربہ نہایت کامیاب ثابت ہو رہا ہے، جس سے زرعی ترقی کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔
زعفران، جسے سونے کے برابر قیمتی قرار دیا جاتا ہے، اب بلوچستان کی زمین میں جڑیں پکڑ رہا ہے۔ وہی بلوچستان جہاں بیشتر علاقے پانی کی قلت کا شکار ہیں، جہاں زراعت صرف چند روایتی فصلوں تک محدود تھی، اب جدید فصلوں کی طرف ایک عملی قدم اٹھا چکا ہے۔ زعفران کی خوبی یہ ہے کہ یہ فصل کم پانی میں پروان چڑھتی ہے، اسے محض بارہ دن کے وقفے سے پانی دینا کافی ہوتا ہے، اور زیادہ محنت طلب بھی نہیں۔
زعفران کی کاشت کا طریقہ بالکل لہسن جیسا ہے۔ اگست یا ستمبر میں اس کے بلب زمین میں دفنائے جاتے ہیں، اور مارچ یا اپریل میں یہ فصل تیار ہو جاتی ہے۔ اس کا کوئی بیج نہیں ہوتا بلکہ بلب لگائے جاتے ہیں، جنہیں پانچ یا چھ حصوں میں تقسیم کرکے اگلی زمینوں میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔ اس سے اگلے سیزن میں کاشت کی وسعت بھی بڑھ جاتی ہے۔ یہ بلب کئی سالوں تک دوبارہ قابلِ استعمال رہتے ہیں، جو کسان کے لیے مستقل منافع کی راہ کھولتے ہیں۔
زعفران کی قیمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک گرام زعفران کی قیمت پاکستانی مارکیٹ میں 950روپے سے زائد ہے، جبکہ ایک کلوگرام زعفران کی قیمت ساڑھے سات لاکھ روپے تک جا پہنچتی ہے۔ یعنی اگر ایک کسان ایک کنال زمین پر بھی اس کی کامیاب کاشت کر لے، تو وہ لاکھوں روپے منافع حاصل کر سکتا ہے۔
یہ محض ایک فصل نہیں بلکہ بلوچستان کی قسمت بدلنے والا ایک منصوبہ ہے۔ اور اگر اس تجربے کو بنیاد بنا کر ہم پاکستان کے دیگر سرد اور بلند علاقے، خصوصاً گلگت بلتستان کی طرف دیکھیں، تو ممکن ہے کہ ہم ایک قومی زرعی انقلاب کی طرف بڑھ رہے ہوں۔
گلگت بلتستان قدرتی حسن، پانی کے چشموں، برف پوش پہاڑوں اور سرد آب و ہوا کی سرزمین ہے۔ یہ خطہ زعفران کی کاشت کے لیے بالکل موزوں ہے، کیونکہ یہاں گرمیوں میں درجہ حرارت 30ڈگری سینٹی گریڈ سے نیچے رہتا ہے، جو اس فصل کے لیے نہایت مثالی ماحول فراہم کرتا ہے۔ وہاں کی زمین زرخیز ہے، اور کئی دیہاتی علاقوں میں پہلے سے ہی لہسن، پیاز اور دیگر جڑ والی فصلیں کامیابی سے کاشت کی جاتی ہیں۔ اگر زعفران کے لیے بھی تربیت اور حکومتی سرپرستی فراہم کی جائے، تو گلگت بلتستان کی معیشت میں نئی روح پھونکی جا سکتی ہے۔
ہمیں اپنی روایتی سوچ سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔ جب دنیا موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے کم پانی اور زیادہ منافع والی فصلوں کی طرف جا رہی ہے، تو ہمیں بھی زعفران، زیتون، بادام، اخروٹ، شہد، اور دیگر اعلیٰ منافع بخش فصلوں کی طرف بڑھنا ہوگا۔ روایتی گندم اور مکئی کے چکر سے نکل کر ایسی فصلوں کو فروغ دینا ہوگا جو نہ صرف معیشت کو فائدہ دیں بلکہ برآمدی میدان میں پاکستان کو ایک پہچان عطا کریں۔
پاکستان میں زرعی انقلاب کی ضرورت ایک حقیقت ہے، خواب نہیں۔ زعفران اس خواب کی تعبیر بن سکتا ہے۔ اگر حکومت، زرعی ماہرین، اور کسان ایک ساتھ مل کر منصوبہ بندی کریں، تو ہم زعفران کو ایران، اسپین یا کشمیر کی طرح اپنی پہچان بنا سکتے ہیں۔ ہمیں بلوچستان کے زمینداروں کی ہمت اور وعن سے سیکھنا چاہیے، جنہوں نے محدود وسائل کے باوجود ایک مہنگی فصل کو کامیابی سے اگا کر ثابت کر دیا کہ اگر نیت اور نکتہ نظر درست ہو، تو بنجر زمین بھی سونا اگل سکتی ہے۔
کیا ہم نہیں چاہتے کہ گلگت بلتستان کے کسان بھی اپنے کھیتوں میں زعفران کے سرخ پھول اگا کر اپنا مقدر سنواریں؟ کیا ہمیں یہ زیب دیتا ہے کہ ہم قدرتی وسائل سے مالا مال ہو کر بھی صرف سبسڈی کے منتظر رہیں؟ زعفران کی کاشت نہ صرف زرعی ترقی کی علامت ہے بلکہ یہ خود انحصاری، وقار اور خوشحالی کی طرف ایک عملی قدم ہے۔
حکومت پاکستان، صوبائی زرعی محکمے، اور ماہرین کو چاہیے کہ وہ زعفران کی کاشت کے لیے تربیتی ورکشاپس، سبسڈی اسکیمز، اور بلب کی فراہمی جیسے اقدامات فوری طور پر متعارف کرائیں۔ ساتھ ہی، زرعی بینکوں کو چاہیے کہ وہ اس منصوبے کے لیے کسانوں کو آسان قرضوں کی سہولت فراہم کریں، تاکہ ہر وہ شخص جو اپنی زمین کو زرخیز بنانا چاہتا ہے، زعفران کی صورت میں ایک نیا آغاز کر سکے۔
آخر میں یہی کہنا چاہوں گا:
جب زمین کو عزت دو گے، تو وہ تمہیں سونا واپس کرے گی۔
زعفران محض ایک فصل نہیں، یہ خوشحال پاکستان کی کنجی ہے۔
آئیے ہم سب مل کر بلوچستان سے گلگت بلتستان تک زعفران کی خوشبو کو پھیلائیں، تاکہ ہمارا کسان مضبوط ہو، ہماری زمین آباد ہو، اور ہمارا پاکستان خوشحال ہو۔

جواب دیں

Back to top button