چابی والے کھلونے

چابی والے کھلونے
تحریر : سیدہ عنبرین
ہماری اعلیٰ ترین عدالت کی طرف سے اور آئینی عدالت کی طرف سے بعض فیصلے دنیا بھر میں موضوع گفتگو ہیں، مخصوص نشستیں ایک سیاسی جماعت سے چھین کر دیگر سیاسی جماعتوں میں حصہ بقدر جثہ کے فارمولے کے تحت تقسیم ہونگی، اس سے قبل بعض سرکاری فیصلے کیے گئے جن کے تحت بیوروکریٹس، ممبران قومی و صوبائی اسمبلی اور ارکان سینیٹ کی تنخواہوں میں حیرت انگیز اضافہ کیا گیا، یوں ملک کے مستحق اور نادار طبقے کی ضروریات کا خیال رکھنے پر دنیا بھر سے تحسین ملی، لیکن اس فیصلے کے بعد سے سیاسی جماعتوں کے احساس محرومی میں بے حد اضافہ ہو گیا۔ اس احساس محرومی کو ختم کرنے میں اب کوئی رکاوٹ نہ رہی تھی، سیاسی جماعتوں کی کوئی تنخواہ نہیں ہوتی وہ بغیر تنخواہ کے کام کرتی ہیں، بالکل اسی طرح جس طرح بعض سیاسی رہنما یا حکومتی عہدوں پر متمکن شخصیات بلا تنخواہ کام کرتی ہیں، سیاسی جماعتیں اب غریب غرباء کی فہرست میں آتی ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ ان کے اکائونٹ میں کروڑوں، اربوں روپے موجود ہوتے ہیں۔ پس احساس محرومی دور کرنے کیلئے انہیں ایک جماعت کی مخصوص نشستیں چھین کر تقسیم کرنے کا فیصلہ عدالت کی بجائے پہلے کہیں اور کیا گیا، اب یہ سب کچھ آئین کے تحت نہ سہی، قانون کے تحت اپنے انجام کو پہنچے گا۔ اس فیصلے سے سیاسی جماعتوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے، بعض سیاسی جماعتیں تذبذب کا شکار تھیں۔ انہیں اس شکل میں ’’ ون بونس‘‘ ملے گا یا نہیں لیکن ملک میں بسنے والے ہر شخص کو حتیٰ کہ قانون سے نابلد شخص کو بھی یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ سیاسی جماعتوں پر ضرور مہربان ہوگا، جب اللہ میاں کسی پر مہربان ہوتو پھر دنیا کی کوئی طاقت نا مہربان ہونے کا تصور نہیں کر سکتی، اس فیصلے کی دوررس نتائج برآمد ہونگے، حکومت دو تہائی اکثریت کے قریب پہنچ جائیگی، چھوٹی موٹی سیاسی جماعتوں کی فرمائش، نخرے اب وبال جان نہیں بنیں گے۔ انصاف و قانون کا بول بالا تو ہر ایسے فیصلے کے بعد ہوتا ہے اس مرتبہ کچھ زیادہ ہوگا۔ ستائیسویں آئینی ترمیم کیلئے زیادہ محنت نہیں کرتا پڑے گی، تمام سیاسی جماعتیں جو اقتدار میں شامل ہیں زیادہ تعاون کرینگی، حکومت کو غیبی امداد کیلئے زیادہ جتن نہیں کرنے پڑیں گے اور سب سے زیادہ فائدہ یہ ہو گا کہ عدالتی نظام مستحکم ہوگا۔ عدالتی نظام کے استحکام کا اثر ملکی استحکام پر پڑے گا، ملک پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگا اور تقریباً اتنا ہی مضبوط ہو جائیگا جتنا 1971ء میں ہوا تھا، اس قسم کے استحکام کے بعد اہم فیصلے کرنے میں آسانی ہو گی، بالخصوص جن فیصلوں کی فرمائشیں عرصہ دراز سے آرہی ہیں وہ پوری کی جاسکیں گی۔ ان فیصلوں کے بعد ہم امت مسلم کے سامنے سر اٹھا کر جی سکیں گے، بلکہ اسلامی امہ کو ترغیب دی جائے گی، مثال پیش کی جائیگی کہ ایسے فیصلے کریں جیسے دنیائے اسلام کی واحد ایٹمی طاقت پاکستان کر رہی ہے۔ ایسے ہی ایک فیصلے پر دنیا ہم سے بہت خوش ہے، یہ فیصلہ امریکہ کے ایران پر حملے سے ایک روز قبل امریکی صدر کو نوبل امن انعام کیلئے نامزد کرنے کا فیصلہ تھا۔ یہ نیک کام بھارت بھی کر سکتا تھا، لیکن شاید یہ عزت ہمارے مقدر میں لکھی گئی تھی، لہذا ہمیں حاصل ہو گئی۔ ہمیں بعض کاموں میں بہت مہارت حاصل ہو چکی ہے۔ اس میں مقدر لکھنے کا معاملہ بھی شامل ہے، بعض لکیریں ہمارے ہاتھ میں نہیں ہوتیں، ہم وہ لکیر خود اپنے ہاتھ میں بنا لیتے ہیں، جو عزت ہمیں نہ ملی رہی ہو اسے کھینچ کر اپنے دامن میں سمیٹ لیتے ہیں، ہم کوئی معمولی ملک نہیں ہیں، خیر سے ایٹمی ملک ہیں۔ لیکن عجیب بات ہے بھارت ہمارے ایٹم بم سے نہیں ڈرتا، باقی ساری دنیا اس سے ڈرتی ہے، بلکہ کانپتی ہے، ایٹم بم ہماری ذاتی ملکیت ہے پھر بھی بھارت ہم سے نہ ڈرا، اس نے ہم پر حملہ کر دیا، ایران کے پاس ایٹم بم نہیں ہے، وہ ادھار ایٹم بم لینے کیلئے روس کے پاس گیا تو روس نے اسے یہ ادھار دینے پر رضا مندی ظاہر کر دی اور اس کا اعلان بھی کر دیا۔ ادھار ایٹم بم ملنے کے اعلان کے فوراً بعد امریکہ، یورپ اور اسرائیل ڈر گئے اور دو روز میں جنگ بندی ہو گئی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس جنگ بندی کا کریڈٹ لیتا ہے، لیکن وہ یوکرین میں اور فلسطین میں جنگ بند نہیں کرا سکا حالانکہ روس کے پاس بھی ایٹم بم ہے اور اسرائیل بھی ایٹم بم رکھتا ہے، جبکہ اسرائیل کو ادھار کی ضرورت نہیں، پھر بھی اسے ادھار ایٹم بم دینے والے بہت ہیں، اسرائیل کا ریکارڈ اتنا اچھا نہیں، لیکن غزہ اور ایران پر ایٹم بم چلانے کیلئے اسے بھارت بھی یہ ادھار دینے کیلئے تیار ہو گا۔ مشاہدے میں یہی آیا ہے اب کوئی ملک ایٹم یم سے نہیں ڈرتا، بلکہ اس کی بجائے ڈر اسے ان سے ہوتا ہے جن کے بارے میں اسے یقین ہو کہ وہ ایٹم بم چلا سکتے ہیں اور اگر وہ فیصلہ کر لیں کہ ایٹم بم اب چلانا نا گریز ہے تو پھر وہ اپنا فیصلہ نہیں بدلیں گے۔
پاکستان کو مضبوط کرنے کیلئے ماضی میں کئی اہم فیصلے کئے گئے ہیں، ان میں پہلے بھٹو کو پھانسی دے کر ملک کو مضبوط کیا گیا، پھر چوالیس برس بعد خیال آیا کہ مضبوطی کو مزید پلاسٹر کرنے کی ضرورت ہے، اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کی ضرورت پیش آچکی تھی، لہذا ایک اور فیصلے میں کہا گیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو انصاف نہیں مل سکا ۔ بعض اوقات مینگنیں ڈال کر دودھ دینا ضروری ہوتا ہے، لہذا فیصلے میں بس اتنا ہی کہا گیا، ورنہ یہ بھی لکھا جا سکتا تھا کہ بھٹو کا عدالتی قتل ہوا، لیکن اس میں قباحت یہ تھی کہ پھر قاتلوں پر مقدمہ چلانا ضروری ہوتا۔ بیشتر قاتل حیات نہ تھے بلکہ واسیات ہو چکے تھے، ایک اور موقع پر پاکستان کو مضبوط کرنے کی ضرورت پیش آئی تو سابق صدر پاکستان سابق آرمی چیف کو بعد از وفات پھانسی دینے کا فیصلہ آیا، کہنے والوں نے یہاں تک کہا کہ جنرل پرویز کی لاش کو قبر سے نکال کر پھانسی دی جائے۔ یہ ممکن نہ تھا، پھر اس وقت کوئی ایسا سیاسی سائنسدان بھی موجود نہ تھا جو اس ناممکن کو ممکن بنا دیتا۔ ہتھیلی پر سرسوں جمانے والے تو بہت تھے لیکن وہ راندہ درگاہ ہو چکے تھے۔ بعد از مرگ پھانسی دینے کا فیصلہ اس لئے کیا گیا کہ ہمارے یہاں عظیم قومی خدمات انجام دیتے ہوئے جان قربان کرنے والوں بعد از مرگ اعزازات سے نوازا جاتا ہے، لہذا کسی نے سوچا کہ جزا دی سکتی ہے تو سزا کیوں نہیں دی جاسکتی۔
ملک چونکہ ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے، بیشتر معاملات میں ہم خود کفالت کی منزل حاصل کر چکے ہیں، اہم پیش رفت یہ ہے کہ اب ہمیں بچوں کیلئے چابی والے کھلونے درآمد نہیں کرنے پڑیں گے، ہم اس معاملے میں بھی خود کفیل ہو چکے ہیں، خود کفالت کی منزل بہت مشکلوں سے حاصل کی گئی ہے، اس کی قدر کریں۔