شکوہ کوئی دریا کی روانی سے نہیں ہے

شکوہ کوئی دریا کی روانی سے نہیں ہے
تحریر : عطا ء اللہ ذکی ابڑو
27جون کی المناک خبر تھی کہ ایک ہی خاندان کے 10افراد دریا میں بہہ گئے خبر پڑھ کر کربناک واقعے پر ہمارے آنسو بھی بہہ گئے مجھ سے سوشل میڈیا پر وائرل بدنصیب خاندان کو ایک ایک کرکے دریا برد ہونے کی مزید فوٹیج دیکھی نہ جاسکیں دل پسیج گیا، سیالکوٹ کا رہائشی یہ بدنصیب خاندان ستائیس جون کو بچوں کے ہمراہ چھٹیاں منانے کے لیے سیالکوٹ گھر سے سیر و تفریح کے لیے ناران نکلا تھا موت انہیں وادی سوات کے دریا تک لے آئی، خاندان کے افراد سوات کے ایک ہوٹل میں ٹھہرے اور وہاں مختصر آرام کے بعد فورا دریا کے کنارے سیر کو نکل آئے، طوفانی بارشوں کی وجہ سے دریائے سوات بپھرا ہوا تھا اور اس کی نظارگی کا شوق لیے مختلف مقامات پر سیلابی ریلوں میں اسی افراد پھنسے ہوئے تھے، ستاون افراد کو ریسکیو کرکے بچالیا گیا بارہ بدنصیب لوگوں کی لاشیں نکالی گئیں باقی افراد کی لاشوں کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن کا دائرہ مالا کنڈ تک پھیلایا جا چکا ہے، فضاگٹ کے مقام پر سیالکوٹ اور مردان کے دو
خاندانوں کے سات افراد جن میں بچے، خواتین اور بزرگ بھی شامل تھے دریا کی بے رحم موجوں کی نذر ہوئے بدنصیب خاندان کے تین افراد کو بچایا جا چکا ہے، امدادی سرگرمیوں کے لیے فوجی دستے بھی جائے وقوعہ پہنچے، ڈپٹی کمشنر سوات کا کہنا تھا کہ سیاح تصویر بنانے کی غرض سے خود دریا میں اترے تھے ایک سیاح نے بتایا کہ ہم ناشتہ کرکے چائے پی رہے تھے اور بچے دریا کے پاس سیلفی لینے چلے گئے اس وقت دریا میں اتنا پانی نہیں تھا اچانک دریا میں پانی آگیا اور سیلابی ریلا آیا تو بچے دریا کے بیچ موجود ایک ٹیلے پر پھنس ہوئے تھے ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے پیارے ایک ایک کرکے جاتے رہے اپنی تصویر لینے والے خود بے بسی کی تصویر بنے رہے مگر کوئی انہیں بچانے نہیں آیا ؟ کنارے پر کھڑے لوگ اپنے اپنے موبائل فون سے صرف منظر کشی تک ہی محدود رہے کسی میں ہمت نہ ہوئی کی انہیں ریسکیو کر سکے جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے مگر کیا المیہ ہے کہ لوگ اب اپنے پیاروں کا مرتا بھی لائیو دیکھتے ہیں؟ اور کوئی لائیو سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی مدد کو نہیں پہنچ پاتا ؟َ بے یار مددگار کھڑے ان لوگوں تک ہیلی کاپٹر کے ساتھ ایک مضبوط رسی نہ سہی اگر لائف جیکٹس ہی پہنچا دی جاتیں تو یہ زندگیاں بچائی جا سکتی تھیں؟ لائف جیکٹس پہن کر پھنسے ہوئے لوگ مضبوط رسی سے خود کو جکڑ لیتے ۔۔ کناروں پر لوگ ہی لوگ تھے جو انہیں ریسکیو کر لیتے مگر ایسا نہ ہوسکا ؟ ریسکیو کے لیے حکومتی ٹیموں کو آگاہ کیا تو اس وقت ڈیڑھ سے دو گھنٹے گزر چکے تھے لوگ اپنے پیاروں کو اپنی آنکھوں سے ڈوبتا دیکھ کر سسکیاں لیتے رہے یہ سب ان کے سامنے ہوا، ریسکیو ٹیمیں جب آئیں تو پورا خاندان دریا میں میں ڈوب چکا تھا ، ڈپٹی کمشنر سوات شہزاد محبوب نے بتایا کہ ڈوبنے والے دس افراد کا تعلق سیالکوٹ، چھ کا مردان اور ایک کا سوات سے تھا۔
ہمیں شکوہ کوئی دریا کی روانی سے نہیں ہے؟
ہمیں شکوہ ہے تو اس طرح کے تفریحی مقامات پر حفاظتی اقدامات نہ ہونے سے ہے ؟
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو،
میں ایک دریا پار اترا تو میں نے دیکھا سیلفی کی غرض سے دریا عبور کرکے ٹیلے پر جانے والے اس خاندان کو واپسی کے لیے ایک اور دریا کا سامنا کرنا پڑا، میری دست بدستہ قوم سے گزارش ہے کہ خدارا انہیں اپنا اور اپنے پیاروں کا خود خیال رکھنا ہوگا ، موسمیاتی تبدیلی اور درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ اور تیزی سے گلیشرز پگھلنے کے باعث دریاں میں اچانک ریلے کا آجانا اب معمول بنتا جارہا ہے، سیاحتی مراکز پرجگہ جگہ لوگ دریا میں ٹھنڈے پانی سے لطف اندوز ہورہے ہوتے ہیں لیکن ذرا سی غفلت اور لاپرواہی قیمتی جانوں کے چلے جانے کا سبب بن جاتی ہے، لوگ سرکار کی مدد کے انتظار نہ کریں آپ سے جتنا بن پڑے خود اپنوں کی مدد کے لیے فوری تدابیر کریں تماشائی بننے سے بہتر ہے کسی دوسرے کے کام آجانا کیونکہ میرے دیس میں کرکٹ کے میدان سکُھانے اور ناشتے لے کر جانے کے لئے ہیلی کاپٹر تو موجود ہیں لیکن درجنوں انسانی جانیں بچانے کے لئے ایمبولینس تک میسر نہیں ہوتی ہر سانحے کے بعد اور ایک واقعے کا گزرتا چلاجاتا ہے مگر ہمارے حکمران کسی ایک واقعے سے سبق نہیں سیکھتے ایک دوسرے کیخلاف بیان بازی کرتے نظر آتے ہیں پنجاب وزیراعلی کی ترجمان کہتی ہیں جس وقت یہ واقعہ رونما ہوا وزیراعلیٰ خیبر پی کے اڈیالہ جیل کی یاترا پر گئے ہوئے تھے اور گورنر خیبر پی کے کہتے ہیں لوگوں کو سیر و تفریح کے مقامات سے خوفزدہ نہ کیا جائے۔
گورنر صاحب ساتھ ہی اس کا علاج بھی بتا دیتے کہ اس المناک حادثے کے باعث بچا کچا یہ خاندان سیر و تفریح کے نام پر ساری زندگی خوفزدہ اور سہما سہما رہے گا۔ ان کا مدوا کیسے ہو گا۔