بھارت، بنگلہ دیش اور گنگا کا پانی

بھارت، بنگلہ دیش اور گنگا کا پانی
تحریر : روشن لعل
سندھ طاس معاہدے کی نریندر مودی کی طرف سے معطلی کے اعلان کے بعد پاکستان میں اس بھارتی جارحیت پر اتنا کچھ لکھا اور بولا گیا کہ اب یہاں اکثر لوگ ہندوستان کی تقسیم کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان شروع ہونے والے پانی کی تقسیم کے تنازعے کے پس منظر سے آگاہ ہو چکے ہیں۔ یاد رہے کہ قیام پاکستان کے بعد بھارت کے ساتھ پانی کی تقسیم کا تنازعہ صرف مغربی پاکستان کی طرف آنے والے دریائوں کے پانی پر ہی نہیں بلکہ بعد ازاں بنگلہ دیش بن جانے والے مشرقی پاکستان کی طرف جانے والے دریائی گنگا کے پانی پر بھی تھا۔ دریائے گنگا کے پانی کی تقسیم کے تنازعے کا آغاز اکتوبر 1951ء میں اس وقت ہوا جب بنگلہ دیش کے قیام کا مطالبہ ابھی کسی کے لبوں پر نہیں آیا تھا۔مغربی پاکستان کی طرف آنے والے سندھ طاس دریائوں کا پانی تو بھارت نے تقسیم ہند کیفوراً بعد روک لیا تھا مگر دریائے گنگا کا پانی بلارکاوٹ مشرقی پاکستان کی طرف حسب سابق بہتا رہا ۔ 1951ء میں جب پاکستان کو علم ہوا کہ بھارت دریائے گنگا پر فرخا ڈیم بنا کر وہاں ذخیرہ کیا گیا پانی مجوزہ فرخا فیڈر نہر کے ذریعے برساتی نالے کی طرح بہنے والے دریائے ہگلی میں ڈالنا چاہتا ہے تو پاکستان نے سرکاری سطح پر بھارت سے اس کی وضاحت طلب کی ۔ بھارت نے کوئی وضاحت دینے کی بجائے نال مٹول سے کام لیا۔ بھارت نے اس سلسلے میں پاکستان کو کوئی تسلی بخش جواب دینے کی بجائے در پردہ ڈیم کی تعمیر کا کام جاری رکھا۔بھارت کی ایسی حرکتوں سے آگاہ ہونے کے بعد پاکستان نے جب اس معاملے کو اقوام متحدہ میں لے جانے کا عندیہ دیا تو بھارت بات چیت پر آمادہ ہوگیا۔ بھارت نے فرخا ڈیم کے جس منصوبے پر1951ء میں کام شروع کیا، اس پر بات چیت کا باقاعدہ آغاز1960ء میں ہوا ۔ اس کے بعد 1962ء میں مذاکرات کے مزید تین ادوار ہوئے جس میں بھارت کا موقف یہ تھا کہ فرخا ڈیم بنا کر صرف وہ پانی استعمال کیا جائے گا جو سمندر میں جاتا ہے۔ پاکستانی ماہرین نے جب بھارت کا یہ جواز ماننے سے انکار کیا تو مذاکرات بے نتیجہ ختم ہو گئے۔ دریائے گنگا کے پانی کی تقسیم کا کوئی معاہدے طے کیے بغیر ہی بھارت نے فرخا ڈیم کی تعمیر کا آغاز کر دیا۔ اس کے بعد 1968ء اور پھر 1970ء میں اس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان فرخا ڈیم کی تعمیر اور گنگا کے پانی کی تقسیم پر مذاکرات کے کئی ادوار ہوئے جب بھارت بین الاقوامی سطح پر خود کو مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کے مفادات کا سب سے بڑامحافظ ثابت کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ دسمبر 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے نتیجہ میں جب مشرقی پاکستان ، بنگلہ دیش بن گیا تو پھر گنگا کے پانی کی تقسیم کے معاملے پر پاکستان کی بجائے مجیب حکومت نیا فریق بن گئی۔
بنگلہ دیش کے قیام کے بعد بھارتی اور بنگلہ دیشی حکومتوں نے باہمی تعاون کے کئی معاہدوں پر دستخط کیے مگر 1973 ء کے وسط تک گنگا کے پانی کی تقسیم کے تنازعہ پر خاموشی اختیار کیے رکھی۔ اس دوران فرخا ڈیم کی تعمیر کا کام تو جاری رہا مگر وہ قوم پرست بنگلہ دیشی نہ جانے کیوں گونگے بنے رہے جو گنگا کے پانی پر اپنے حق کے لیے کبھی بہت واویلا کیے کرتے تھے۔ اندرا اور مجیب حکومتوں نے باہمی دوستی ، تعاون اور امن کے لیےTreaty of Friendship Cooperation and Peace کے نام سے جو معروف معاہدہ کیااس کی ایک شق میں یہ تو درج تھا کہ فلڈ کنٹرول، آبی وسائل کی ترقی اور پن بجلی کی پیداوار کے لیے مشترکہ طور پر لائحہ عمل تیار کیا جائے گا مگر گنگا کے پانی کی تقسیم کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ گنگا کے پانی کی تقسیم کے تنازعہ پر بھارت اور بنگلہ دیش نے پہلی مرتبہ جولائی 1973ء میںجو بات چیت شروع کی اس کا اعلامیہ یہ تھا کہ فرخا ڈیم کے افتتاح سے قبل گنگا کے پانی کی تقسیم کا فارمولا طے کر لیا جائے گا۔ بھارتی حکام سے اس بات چیت کے دوران اگرچہ بنگلہ دیش کے ماہرین نے فرخا ڈیم کی تعمیر پر کھل کر اپنے تحفظات کا اظہار نہیں کیا مگر انہوں نے خاموش رہتے ہوئے بھی یہ باور کرا دیا کہ پانی کی تقسیم کے کسی بھی فارمولے کو وہ آنکھیں بند کر کے تسلیم نہیں کریںگے۔ اس قسم کے معروضی حالات میں مئی 1974 ء میں بنگلہ دیش کے مجیب الرحمٰن اور بھارت کی اندارگاندھی کے درمیان بات چیت ہوئی جس میں یہ طے پایا کہ دونوں ملکوں کے ماہرین ایک دوسرے کے ساتھ پانی کی تقسیم کے اپنے اپنے فارمولوں کا تبادلہ کریں گے۔ بعد ازاں یہ ہوا کہ بنگلہ دیشی ماہرین کے تحفظات کے باوجود مجیب حکومت نے گنگا کے پانی کی تقسیم کا وہ فارمولا عبوری طور پر تسلیم کر لیا جو بھارت نے تیار کیا تھا۔ یہ فارمولا طے پانے کے بعد جب اپریل 1975ء میں فرخا ڈیم کا افتتاح ہوا تو بنگلہ دیش کے آبی وسائل کے وزیر بھارتی اصرار کے باوجود اس کی افتتاحی تقریب میں شریک نہ ہوئے۔
بھارت کا شروع دن سے اصرار تھا کہ فرخاڈیم بننے سے بنگلہ دیش کو ملنے والے پانی میں کمی نہیں آئے گی مگر جب پہلی مرتبہ فرخا ڈیم سے دریائے گنگا کا پانی دریائے ہگلی میں چھوڑا گیا تو بنگلہ دیش میں گنگا کے بہائو میں ریکارڈ کمی دیکھنے میں آئی۔ بنگلہ دیش میں ربیع کے دوران گنگا کا جو بہائو 55000سے 65000کیوسک تک ہوا کرتا تھا وہ فرخا ڈیم بننے کے بعد 39000سے 45000کیوسک تک رہ گیا۔ شیخ مجیب الرحمٰن کی زندگی میں تو فرخا ڈیم کی تعمیر اور گنگا کے بہائو میں کمی کے باوجود بنگلہ دیشی حکومت نے خاموشی اختیار کیے رکھی مگر ان کے قتل کے بعد وہاں گنگا کے پانی پر اپنے حق کے لییآوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں۔ جب بنگلہ دیش میں اٹھنے والی آوازوں کو مسلسل نظر انداز کیا گیا تو بھارت کے عسکری کردار کی بدولت معرض وجود میں آنے والا یہ ملک گنگا کے پانی کی تقسیم کا معاملہ اقوام متحدہ تک لے گیا۔ اقوام متحدہ نے بنگلہ دیش کے تحفظات کو قابل جواز ماننے کے باوجود فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی بجائے یہ کہا کہ بھارت اور بنگلہ دیش کو باہمی مذاکرات جاری رکھتے ہوئے اس مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہیے۔
گنگا کے پانی کی تقسیم کا جو تنازع 1951ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان شروع ہوا تھا وہ بنگلہ دیش بننے کے بعد ابھی تک مستقل طور پر حل نہیں ہو سکا۔ مختصر مدت کے کچھ معاہدوں کے بعد اب بھی بنگلہ دیش کے لیے جس غیر تسلی بخش معاہدے کے تحت دونوں ملکوں میں گنگا کا پانی تقسیم ہو رہا ہے وہ معاہدہ 30 سال کی مدت کے لیے شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد کے دور حکومت میں دسمبر 1996ء میں طے ہوا تھا۔ اس معاہدے کے 2026ء میں ختم ہونے پر نئے معاہدے کے خدو خال کیا ہونگے اس بارے میں تو ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر جو کچھ یہاں بیان کیا گیا ہے کہ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہمسایہ ملک چاہے دوست ہو یا دشمن ان کے ساتھ پانی کی تقسیم کا معاہدہ کرتے وقت بھارت کا رویہ اور کردار کس قسم کا ہو سکتا ہے۔