Column

13سیاح بہہ گئے، ہیلی کاپٹر نہ پہنچا

13سیاح بہہ گئے، ہیلی کاپٹر نہ پہنچا
تحریر : سی ایم رضوان

وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے گزشتہ روز دریائے سوات میں سیاحوں کے ڈوبنے کے سانحہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک ہی خاندان کے 13افراد پانی میں ڈوب گئے اور کے پی کے کی صوبائی حکومت سوتی رہ گئی۔ اس افسوسناک واقعے پر اپنے رد عمل میں صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا کے وسائل، مشینری اور ریسکیو ٹیمیں صرف وفاق اور پنجاب پر چڑھائی کے لئے رہ گئی ہیں۔ جبکہ پانی میں بہنے والے سیاح 2گھنٹے تک امداد کے منتظر رہے لیکن صوبائی حکومت سیاحوں کی مدد کو نہ پہنچی اور نہ ہی علی امین گنڈا پور کا ہیلی کاپٹر موقع پر پہنچ سکا۔ بتایا گیا ہے کہ گزشتہ روز خیبر پختونخوا میں موسلا دھار بارش کے باعث دریائے سوات بپھر گیا تھا جس کے نتیجے میں 7مقامات پر خواتین اور بچوں سمیت 75سے زائد افراد دریا میں بہ گئی۔ بعد ازاں، 8افراد کی لاشیں نکال لی گئیں اور 55سے زائد افراد کو ریسکیو کر لیا گیا جب کہ دیگر کی تلاش تاحال جاری ہے۔ اس سانحہ سوات کی تفصیلات کے مطابق سیالکوٹ اور مردان سے تعلق رکھنے والی 3فیملیز دریا کے کنارے بجری کے ایک ٹیلے پر ناشتہ کر رہی تھیں، جو غیر قانونی طور پر کھودا گیا تھا۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ اچانک دریا میں پانی کی سطح بلند ہوئی اور وہ ٹیلہ چاروں طرف سے پانی میں گھِر گیا، وہ لوگ کوشش اور خواہش کے باوجود دریا کے کنارے تک نہ پہنچ سکے کیونکہ درمیان میں گہرے گڑھے تھے اور پانی کا بہائو بہت تیز تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان سیاحوں کی دریا کی حدود میں جانے کی اجازت اور سہولت کس نے دی اور کون اس غیر قانونی جسارت کا ذمہ دار اور فائدہ خوار ہے۔ پھر یہ بھی سوال ہے کہ اگر حکومت نے دفعہ 144نافذ کر رکھی تھی تو اس پر عملدرآمد کس نے کروانا تھا۔ یہ سوال بڑا اہم ہے کہ کیا کے پی کے حکومت ان اموات کی ذمہ دار نہیں ہے اور اگر ہے تو اس کے سربراہ یعنی علی آمین گنڈا پور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے خلاف ابھی تک مقدّمہ درج کیوں نہیں ہوا۔ مگر افسوس صد افسوس کہ ابھی تک اس سانحہ کے ذمہ داروں کا تعین بھی نہیں ہو سکا۔ ایک آئین والے عدلیہ والے اور قانون رکھنے والے ملک میں اس طرح کی اموات پر سرکاری مشینری کا کماحقہ حرکت میں نہ آنا ثابت کرتا ہے کہ ہم ایک ملک میں نہیں بلکہ ایک ایسے جنگل میں رہ رہے ہیں جہاں انسانی جانوں کی کوئی قدرو قیمت نہیں ہے۔ جہاں چند سو روپے کے فائدے کی خاطر انسانوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا جاتا ہے اور پھر حکومتی ادارے ان انسانوں کی جانیں بچانے کے لئے بھی ٹس سے مس نہیں ہوتے۔
اب اس امر کی بھی تصدیق ہو چکی ہے کہ یہ بدنصیب سیاح دریائے سوات میں سیلابی ریلے میں پھنس کر ایک گھنٹہ 30 منٹ تک مدد کے لئے پکارتے رہے لیکن انہیں بچانے کے لئے کچھ نہ کیا جا سکا۔ اس طرح سے جانوں کے ضیاع کا پچھلے 3 برسوں میں یہ دوسرا بڑا واقعہ ہے۔ اس کے باوجود حکومت کے پاس ایسے حالات میں ریسکیو کے لئے اب تک کوئی واضح حکمت عملی موجود نہیں ہے۔
سوات کے حالیہ واقعے پر بات کے ساتھ ساتھ اگست 2022ء میں کوہستان میں پیش آنے والے اس افسوسناک واقعے کا مختصر تذکرہ بھی ضروری ہے۔ اس واقعے کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی جس میں 5افراد کو دریا کے بیچوں بیچ پھنسے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا جبکہ ان کے بے بس اہلخانہ انہیں بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ لوگ 5گھنٹے سے زیادہ دیر تک وہیں پھنسے رہے تھے لیکن حکومتی مشینری انہیں ریسکیو نہ کر سکی تھی۔ ہیلی کاپٹر کے ذریعے کارروائی کا اعلان تو کیا گیا تھا لیکن وہ صرف زبانی جمع خرچ نکلا اور اس پر عمل نہ کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں 4افراد دریا میں بہ کر جاں بحق ہو گئے تھے۔ اب تقریباً 3سال بعد آج ایک اور بڑا واقعہ پیش آ چکا ہے۔ یہ بات قابلِ افسوس ہے کہ کوہستان کے مقابلے میں سوات ایک زیادہ معروف سیاحتی مقام ہے اور یہ واقعہ مینگورہ شہر کے قریب پیش آیا لیکن اس کے باوجود قیمتی جانوں کو بچانے کے لئے کوئی موثر اقدام نہ کیا جا سکا۔ یہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایسے واقعات میں ریسکیو کے لئے حکومت تیار نہیں ہوتی۔
سوات میں ہونے والے اس تازہ واقعے کی ذمہ داری خاص طور پر ضلعی انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے جس نے نہ تو بروقت اقدامات کیے اور نہ ہی بروقت ریسکیو ٹیمیں موقع پر پہنچ سکیں۔ عینی شاہدین کے مطابق ریسکیو کا عمل اس وقت شروع کیا گیا جب تمام افراد ڈوب چکے تھے۔ اس وقت سب بے بس تھے اور کسی کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ سیاحوں کو کیسے بچایا جائے۔ سوات میں اس روز بارشیں ہو رہی تھیں اور دفعہ 144بھی نافذ تھی لیکن اس پر عمل درآمد نہ کرایا گیا اور نہ ہی حکومت یا مقامی انتظامیہ نے کسی قسم کی پیشگی تیاری کی تھی۔ عینی شاہدین نے کہا کہ ہم مسلسل فون کر رہے تھے کہ ریسکیو ٹیمیں آئیں اور لوگوں کو بچائیں لیکن جب وہ تاخیر سے پہنچے تو ان کے پاس ایسے حالات سے نمٹنے کے لئے مناسب وسائل نہیں تھے، ان کے پاس صرف ٹیوبز تھیں جو ناکافی ثابت ہوئیں۔ یاد رہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف ( پی ٹی آئی) کی حکومت 2013ء سے خیبر پختونخوا میں برسر اقتدار ہے اور اس عرصے کے دوران ریسکیو 1122کو وسعت بھی دی گئی اور نئی گاڑیاں بھی خریدی گئیں لیکن اکثر انہیں صرف سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ گزشتہ برس اسلام آباد مارچ کے دوران کئی ریسکیو اہلکار گرفتار بھی ہوئے اور وہ سرکاری گاڑیاں ابھی تک تھانوں میں کھڑی ہیں جبکہ ایسے ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لئے حکومت کے پاس کوئی موثر نظام موجود نہیں۔ کے پی کے حکومت نے ہیلی ایمبولینس کا اعلان تو کر رکھا ہے لیکن ہیلی کاپٹر کے ذریعے ریسکیو کے لئے کوئی واضح پالیسی نہیں بنائی گئی۔ یہ بڑے افسوس کا مقام ہے کہ اتنے سیاح ڈوب گئے اور حکومت خاموش تماشائی بنی رہی۔ صوبائی حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے واقعات کے لئے ہیلی کاپٹر کے استعمال سے متعلق باقاعدہ پالیسی بنائے تاکہ بروقت امدادی کارروائی ممکن ہو۔ ایک مبہم سی اطلاع یہ موصول ہوئی ہے کہ سوات واقعے میں غفلت برتنے والے 4افسر معطل کئے گئے ہیں اور ابتدائی رپورٹ جاری کی گئی ہے لیکن یہ ان قیمتی جانوں کے ضیاع کا ازالہ نہیں جو کے پی کے حکومت کے ہیلی کاپٹر کا انتظار کرتے کرتے موت کے منہ میں چلے گئے۔ بتایا گیا ہے کہ دریائے سوات میں ڈوبنے والی متاثرہ فیملی کا تعلق پنجاب کے شہر ڈسکہ سیالکوٹ سے ہے۔ بچ جانے والے سیاح عدنان کا کہنا تھا کہ متاثرہ فیملی صبح ناشتے کیلئے دریائے سوات کے کنارے موجود تھی کہ سیلاب آیا اور فیملی پھنس گئی۔ عدنان نے کہا کہ جاں بحق افراد میں 4خواتین اور 6بچے شامل ہیں، عدنان نے بتایا کہ ہماری فیملی کے علاوہ بھی دیگر تین افراد دریا برد ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ 2019ء میں علیمہ خان اور اس کی بیٹی چترال سیر کے لئے گئے تو سیلاب سے راستے بند ہو گئے اور علیمہ خان سمیت کئی سیاح چترال میں پھنس گئے۔ پھر کیا ہوتا ہے پشاور سے ہیلی کاپٹر جاتا ہے اور صرف علیمہ خان اور اس کی بیٹی کو لے کر واپس آ جاتا ہے باقی افراد وہیں پھنسے رہ جاتے ہیں۔ اب دریائے سوات میں ایک عام خاندان کے 15افراد جاں بحق ہو گئے۔ کئی گھنٹے تک حکومت کی طرف سے کوئی ریسکیو کا انتظام نہ کیا گیا یوں تمام افراد دریا میں بہ گئے۔ یہ ہے تحریک انصاف کی بارہ سالہ حکومتی کارکردگی کی ایک ناانصافی کی کالک سے سیاہ ہوئی تصویر۔
یہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ڈوبنے والے افراد میں زیادہ تعداد سیاحتی مقامات یا دریاں میں نہانے کے دوران ڈوبنے کی ہیں۔ ریسکیو 1122صوبہ کے پی کے میں کسی بھی قدرتی یا دیگر آفات کے دوران مدد فراہم کرنے والا ادارہ ہے جو صوبے کے 32 اضلاع میں خدمات انجام دے رہا ہے۔ حکومتی اداروں یا ریسکیو ٹیموں کے بروقت پہنچنے یا نہ پہنچنے کا گلہ یا تذکرہ تو الگ بات ہے سب سے پہلے تو یہ امر ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے کہ کسی بھی سیاحتی مقام جہاں پر نہانے، سیر وتفریح یا کشتی رانی کا بندوبست موجود ہو، وہاں کسی بھی سیاح کا سیاحتی مقام پر پانی کی سطح، رفتار اور بہائو کے بارے میں جاننا ضروری ہے تاکہ سیاح کو اندازہ ہو کہ کشتی رانی، سیر و تفریح یا نہانے کے لئے پانی کتنا موزوں ہے جبکہ یہ ذمہ داری کسی بھی سیاحتی مقام کی انتظامیہ کی بھی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ پانی کی سطح کشتی رانی یا نہانے کے لئے موزوں ہے یا نہیں اگر اطلاعات خطرہ کی گھنٹیاں بجائیں تو سیاحتی مقامات کی انتظامیہ اور سیاح دونوں خطرہ مول نہ لیں۔ سیاح موسم کے حوالے سے موبائل پر موجود ایپلیکیشن سمیت اس علاقے یا محکمہ موسمیات کی ویب سائٹ کو چیک کر کے پتہ لگا سکتے ہیں کہ جس مقام پر وہ جا رہے ہیں، وہاں پر بارش یا کسی طوفان کا خدشہ تو نہیں جس سے پانی کی سطح بلند ہو سکتی ہے اور وہاں پر نہانا یا کشتی رانی جان لیوا تو ثابت نہیں ہو سکتی۔ اسی حوالے سے صوبائی حکومت نے ریسکیو 1122کی جانب سے ایک ضابطہ اخلاق بھی بنایا ہوا ہے جس کے تحت خراب موسم کی وجہ سے کسی بھی سیاحتی مقام، جہاں کشتی رانی ہو، پر چھ گھنٹے قبل اس کی تشہیر ضروری ہے کہ فلاں جگہ میں خراب موسم یا بارش کی وجہ سے پانی کی سطح بلند ہونے کا خدشہ ہے۔ ایس او پیز کے مطابق کشتی میں لائف سیونگ جیکٹ سمیت ایمرجنسی کے دوران پانی میں تیرنے کے لئے استعمال ہونے والی ڈیوائس جس کو فلوٹنگ ڈیوائس بھی کہتے ہیں، ہونا بھی ضروری ہے اور یہ کشتی میں ایک نمایاں نظر آنے والی جگہ پر لٹکانا ضروری ہے تاکہ ایمرجنسی کے دوران آسانی سے استعمال کی جا سکے۔ لائف جیکٹ پہننا سیاح کے لئے نہایت ضروری ہے کیونکہ اسی جیکٹ سے ایمرجنسی کے دوران کسی انسان کی جان بچائی جا سکتی ہے اور جیکٹ پہننے سے وہ پانی میں ڈوبنے سے بچ سکتا ہے۔ اب اگر کوئی سیاح کسی دریا میں نہانا چاہتا ہے یا ویسے ہی سیر و تفریح کرنا چاہتا ہے تو ہر کسی کو ایک نمایاں جگہ پر نہانا یا جانا چاہیے جبکہ ان کے آس پاس دیگر لوگ بھی ہونے چاہئیں۔ اس کے پیچھے راز یہ ہے کہ خدانخواستہ اگر کوئی شخص نہانے یا سیر کرنے کے دوران ڈوب رہا ہے تو ان کے آس پاس افراد ان کو بچانے کے لئے جلدی پہنچ سکتے ہیں۔ وہ افراد جن کو تیرنا نہیں آتا، ان کو ایسے مقامات پر نہیں جانا چاہیے۔ خاص طور پر خواتین اور بچوں کو کیونکہ تیراک بندہ خود کو ڈوبنے سے بچا سکتا ہے۔ ایک ضروری احتیاط یہ بھی ہے کہ پانی کے ساتھ نہیں کھیلنا چاہیے یعنی اگر آپ دوستوں کے ساتھ کسی سیاحتی مقام پر گئے ہیں، تو وہاں پر نہاتے وقت پانی کے اندر سانس بند کرنے کا گیم اور اسی طرح دیگر چیزیں نہیں کرنی چاہیے بلکہ سب دوست ایک ہی جگہ پر بہت احتیاط سے نہائیں یا سیر و تفریح کریں۔

جواب دیں

Back to top button