فتح کی گونج، سفارت کی بازگشت اور سیاست کی خموشی

فتح کی گونج، سفارت کی بازگشت اور سیاست کی خموشی
تحریر : عابد ایوب ایوان
شہر اقتدار سے
پاکستان نے ایک بار پھر عالمی منظرنامے پر اپنی عسکری صلاحیت، تدبر اور سفارتی مہارت کا ایسا مظاہرہ کیا ہے جس نے نہ صرف دشمن کو خاموش کر دیا بلکہ دنیا بھر کو یہ باور کروا دیا کہ پاکستان اب صرف دفاع نہیں کرتا، فیصلے بھی صادر کرتا ہے۔
پاک، بھارت حالیہ جھڑپ: ایک خفیہ مگر فیصلہ کن محاذ
حالیہ پاک، بھارت جھڑپ میں اگرچہ دونوں ملکوں نے جنگ کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا، مگر لائن آف کنٹرول اور فضائی سرحدوں پر ہونے والے محدود مگر شدید تصادم نے جنوبی ایشیا کو ایک بار پھر ایٹمی کشیدگی کی دہلیز پر لا کھڑا کیا۔ اس جھڑپ میں پاکستان نے نہ صرف دشمن کے عزائم ناکام بنائے، بلکہ جدید ٹیکنالوجی، بروقت ردعمل اور متحد عسکری قیادت کی بدولت میدان اپنے نام کیا۔
فیلڈ مارشل عاصم منیر: جنگی حکمتِ عملی سے سفارتی میدان تک
فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے نہ صرف عسکری سطح پر بہترین کمانڈ دی بلکہ ان کا بین الاقوامی سفارتی محاذ پر ابھرتا ہوا کردار بھی قابلِ تحسین ہے۔ حالیہ دورہ امریکہ اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے واشنگٹن میں خصوصی ملاقات اور ظہرانے نے دنیا کو واضح پیغام دیا: پاکستان تنہا نہیں، بلکہ قابلِ احترام طاقت ہے۔ اس ملاقات میں نہ صرف خطے کی سلامتی، انسدادِ دہشت گردی اور پاک-امریکہ تعلقات پر تبادلہ خیال ہوا بلکہ فیلڈ مارشل نے بین الاقوامی پالیسی سازوں کو پاکستان کا نیا بیانیہ دیا: امن ہماری ترجیح، مگر کمزوری ہرگز نہیں۔ ٹرمپ نے نہ صرف پاکستانی قیادت کی تعریف کی بلکہ یہ عندیہ بھی دیا کہ جنوبی ایشیا میں پاکستان کا کردار اب ’’ نیو نیوٹرل‘‘ ( نئی توازن قوت) کے طور پر ابھر رہا ہے۔
عالمی سفارت کاری میں پاکستان کی ’’ سرپرائز انٹری‘‘
چین، روس، سعودی عرب، ترکی، قطر، ایران اور امریکہ سے بیک وقت سفارتی مکالمے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی نئی جہتیں ظاہر کرتے ہیں۔ یہ وہی ملک ہے جسے کبھی عدم استحکام کی علامت سمجھا جاتا تھا، اور آج وہ عالمی طاقتوں کے درمیان امن کے ضامن کے طور پر ابھر رہا ہے۔ فیلڈ مارشل نے سفارت کو محاذ کے طور پر اپنایا، اور سفارت کاری کو جنگی حکمت عملی کی توسیع بنایا اور یہی ان کی کامیابی ہے۔
عمران خان کی رہائی: امکانات کی زنجیر یا دیوار؟
اس شاندار قومی منظرنامے کے درمیان ایک سوال سب کو مضطرب رکھے ہوئے ہے: کیا عمران خان کی رہائی ممکن ہے؟ سابق وزیراعظم، تحریک انصاف کے بانی چیئرمین، اس وقت نہ صرف قید و بند میں ہیں بلکہ بظاہر ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کے لیے قانونی اور سیاسی فضا مزید سخت ہو رہی ہے۔ اندرونی ذرائع کے مطابق ریاستی پالیسی سازی کے نئے خطوط اب مکمل طور پر ’’ اسٹیبلٹی‘‘ ( استحکام) کے گرد گھومتے ہیں، نہ کہ مقبولیت کے گرد۔
تحریک انصاف کے نئے دھڑوں کی تشکیل، سینئر قیادت کی گرفتاریاں، اور عدالتوں میں جاری مقدمات یہ سب ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہیں۔ سیاسی پنڈت اس بات پر متفق ہیں کہ عمران خان کی سیاست اب ایک مختلف فریم میں دیکھی جا رہی ہے، جہاں قانون، میڈیا اور عوامی بیانیہ تینوں کا رخ بدل رہا ہے۔
کیا آنے والے دن ’’ ریاست‘‘ کی فتح ہوں گے یا ریاستی چیلنج؟
پاکستان اس وقت عسکری و سفارتی سطح پر ایک نئی شناخت حاصل کر رہا ہے، لیکن داخلی سیاسی عدم استحکام، مہنگائی، عدالتی پیچیدگیاں اور میڈیا کی تقسیم، وہ چیلنجز ہیں جو ملک کی اندرونی بنیادوں کو متزلزل کر سکتے ہیں۔ ایسے وقت میں جب دشمن نے شکست کھائی، دنیا نے پاکستان کی بات سنی، ضروری ہے کہ ہم اندرونی وحدت، عدالتی شفافیت اور سیاسی بلوغت کو فروغ دیں۔
نتیجہ: یہ وقت فتح کے جشن کا نہیں، بلکہ ہوشیاری سے اگلے سفر کی تیاری کا ہے۔ پاکستان نے ایک نیا مقام حاصل کیا ہے، مگر یہ مقام برقرار رکھنے کے لیے قومی یکجہتی، سیاسی استحکام اور سماجی انصاف لازم ہے۔
فیلڈ مارشل کی عسکری فتح، سفارتی بصیرت اور عالمی اعتماد کے ساتھ اگر عوام کو بھی مطمئن کیا جائے تو پھر کوئی طاقت پاکستان کو عالمی صف اول کی قوم بننے سے نہیں روک سکتی۔