غربت انسانیت کا زوال اور معاشرتی بگاڑ کی جڑ

غربت انسانیت کا زوال اور معاشرتی بگاڑ کی جڑ
تحریر : سید منور علی شاہ
غربت ایسی چیز ہے کہ لوگ مجبور ہو کر اپنے آپ کو بیچ دیتے ہیں۔ بعض افراد اپنا جگر امیر اور ضرورت مند مریضوں کو فروخت کر دیتے ہیں۔ غربت سے پریشان ہو کر جب لوگ روٹی کو ترستے ہیں تو وہاں جرائم میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ چاہے چوری ہو یا کوئی اور جرم، ان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق جرم میں شریک ہو جاتا ہے گھروں میں کام کرنے والی خواتین بعض اوقات گھر کا سامان چوری کر لیتی ہیں۔ آپ نے اکثر ایسی خبریں سنی ہوں گی کہ فلاں عورتوں کے گروہ نے گھر کے زیورات چوری کر کے فرار ہو گئے۔ یہی نہیں، بلکہ غربت سے تنگ آ کر کچھ لوگ خودکشی تک کر لیتے ہیں، جبکہ کچھ لوگ بھیک مانگنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ غربت سے ستائے ہوئے بعض افراد کی پوری فیملی گداگر بن جاتی ہے اور سڑکوں پر کھڑے ہو کر لوگوں سے سوال کرتی ہے چونکہ ان کے پاس نہ کوئی تعلیم ہوتی ہے، نہ ہنر، اور نہ ہی روزگار، تو وہ کریں تو کیا کریں؟ کچھ لوگ اپنے بچوں کو امیر گھرانوں میں اس لیے دے دیتے ہیں کہ وہ ان گھروں میں کام کاج کر کے کچھ پیسے کما سکیں، تاکہ ان کا گھر چل سکے۔ کچھ لوگ اپنے بچوں کو موٹر سائیکل مکینک کے پاس دس روپے روزانہ پر کام پر رکھوا دیتے ہیں، اور وہ ان سے کام لیتا ہے ۔ اسی طرح دیگر دکانوں پر بھی یہ بچے مزدوری کرتے ہیں تاکہ شام کو دس سے بیس روپے کما سکیں۔ غربت صرف مالی کمی کا نام نہیں بلکہ یہ انسانی وقار، خودداری اور امید کو بھی چھین لیتی ہے۔ جب ایک انسان بار بار دروازوں پر انکار سنتا ہے، جب روزی کی تلاش میں وہ تھک ہار کر لوٹتا ہے، تو اس کے اندر کی روشنی مدھم پڑنے لگتی ہے۔ یہی غربت بچوں سے ان کا بچپن، عورتوں سے ان کی عزتِ نفس اور مردوں سے ان کا وقار چھین لیتی ہے۔ وہ انسان جسی قدرت نے سوچنے، سمجھنے اور ترقی کرنے کی صلاحیت دی ہے، غربت اسے سڑکوں پر بھیک مانگنے یا معمولی مزدوری پر مجبور کر دیتی ہے آج بھی ملک کے کئی علاقوں میں ایسے بچے موجود ہیں جو اسکول کے بجائے ورکشاپس، ہوٹلوں، اور چائے کے ڈھابوں پر کام کر رہے ہیں۔ یہ بچے اپنے بچپن کی خوشیوں سے محروم ہو کر صرف اس لیے کام پر لگ جاتے ہیں کہ ان کے والدین کے پاس کمانے کا اور کوئی ذریعہ نہیں ہوتا۔ کچھ والدین مجبوراً اپنے بچوں کو گھروں میں کام کرنے بھیجتے ہیں، جہاں وہ کئی بار استحصال کا شکار بھی ہو جاتے ہیں، مگر غربت کے ہاتھوں مجبور والدین چپ سادھ لیتے ہیں۔ حکومت، معاشرہ اور ہر صاحبِ حیثیت فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ غربت کے خاتمے کے لیے اقدامات کرے۔ صرف خیرات دینا کافی نہیں بلکہ روزگار کے مواقع، سستی تعلیم، اور ہنر سکھانے والے ادارے مہیا کرنا ہوں گے۔ ہمیں ایسے نظام کی ضرورت ہے جو نہ صرف امیروں کو اور امیر بنائے، بلکہ غریب کو بھی جینے، آگے بڑھنے اور اپنے بچوں کا مستقبل بہتر بنانے کا حق دے۔ غربت ختم ہوگی تو جرم کم ہوں گے، عزتِ نفس بڑھے گی، اور ایک خوشحال معاشرہ تشکیل پائے گا، جب انسان اپنی بنیادی ضروریات سے محروم ہوتا ہے تو اس کی سوچ کا زاویہ بھی بدلنے لگتا ہے۔ غربت انسان کو صرف جسمانی نہیں، ذہنی اور جذباتی طور پر بھی کمزور کر دیتی ہے۔ وہ عزت، اقدار اور رشتوں کی قدر سے زیادہ دو وقت کی روٹی کے بارے میں سوچنے لگتا ہے۔ ایسی صورتحال میں جب وہ معاشرے کی بے حسی، ناانصافی اور طبقاتی فرق دیکھتا ہے تو اس کے دل میں نفرت اور مایوسی جنم لیتی ہے، جو معاشرے کے مجموعی امن اور ہم آہنگی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔