Column

حالیہ جنگوں سے مادیت پر اعتقاد

حالیہ جنگوں سے مادیت پر اعتقاد
تحریر : تجمل حسین ہاشمی

اللّہ پاک ہم سب کو اپنے احکامات پر عمل کی سمجھ عطا کرے، آمین۔ ہماری زندگیوں میں رحمت، کرم شامل حال رکھے، آمین۔ ہم کیسے شرک کرتے ہیں؟ کیسے دجالی نظام کا شکار ہو رہے ہیں، غیر اللّہ سے مدد، پتھروں سے مدد، قبروں سے مدد مانگنا، یہ شرک ہے۔ انسان کیوں ہر قدم پر شرک کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ہم نے شرک کے مفہوم کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ اللّہ کیا فرماتا ہے: انسان! میں تمہارا رب ہوں، مجھ سے مانگو۔ خود کی لاعلمی، کم عقلی کو علما کرام پر ڈال کر خود بری الذمہ ہونے کا پکا یقین کر بیٹھے ہیں۔ لیکن اللّہ پاک کا فرمان ہے ’’ روزِ قیامت یہ عذر قبول نہیں ہوگا کہ مجھے کسی نے بتایا نہیں‘‘۔ یہ آسمان زمین کا سما، دن رات کا نکلنا اور دیگر کروڑوں نشانیاں اللّہ کی واحدنیت کی شہادت ہیں۔ انسان ابھی بھی فقیروں سے مدد اور قبروں کو سجدی کرتے ہیں۔ قرآن کا نزول اور حضورؐ کی زندگی کے بعد انسان کی یہ حرکتیں شرک کے زمرے میں آتی ہیں۔ لیکن دورِ حاضر میں ایک ایسی سوچ نے زمانے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، جس میں انسانی عقل مادیت ( تیز رفتاری) کو کل سمجھ بیٹھی ہے۔ ٹیکنالوجی کو کامیابی سمجھ بیٹھے ہیں، حالیہ جنگوں میں اس سوچ میں اضافہ ہوا ہے۔ مادیت میں ملکوں کی نجات سمجھی جا رہی ہے، لیکن ایسا نہیں ہے، اللّہ کی ذات ہی کل ہے، باقی سب فنا ہے۔ شیطان انسان کے حال سے زیادہ اس کے مستقبل پر وار کرتا ہے، انسانی آسائشوں کے ذریعے اللّہ کی نافرمانی کراتا ہے۔ انسانی جسم کی ضرورت پوری کرو، روح کی پاکیزگی کچھ نہیں، خواہشات پوری کرو، بھلے حرام ہی کیوں نہ ہو، سود کھائو، کون دیکھ رہا ہے؟ ( نعوذ باللہ)۔ جب قبر میں جائیں گے، دیکھا جائے گا۔ ایسے کفریہ کلمات زدِ عام ہیں۔ شرک ہماری زندگیوں میں عام ہو رہا ہے، روح کی پاکیزگی کے لیے انسان کھچ نہیں کر رہا۔ لوگوں نے نیک عملوں پر آنکھیں بند کر لی ہیں، مسجدوں میں دل نہیں لگتے۔ تیز ترین ٹیکنالوجی اور مادیت انسان کو غیر اللّہ پر پک کر رہی ہے۔ انسان جب اللّہ تعالیٰ کو اپنے گھروں، دفتروں اور زندگیوں سے دور کرتا ہے تو وہ مادیت کے قریب چلا جاتا ہے۔ جہاں وہ غیر اللّہ سے امیدیں، کامیابی کو اپنی محنت سے تعبیر کرتا ہے۔ انسان اپنی کامیابی کو اپنی محنت، اپنی ذہانت سے تعبیر کرتا ہے۔ اپنی طاقت، تعلقات کو فاتح کو کامیابی قرار دیتا ہے، اپنی فون کال سے ہونے کا یقین سمجھ بیٹھا ہے، اپنی نظر میں خود کو کامیاب قرار دیتا ہے، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ دو دوستوں میں سے ایک مال دار اور دوسرا مالی کمزور تھا، دولت مند کے پاس گھنے باغات، نہریں اور دیگر سہولتیں تھیں، وہ اپنی محنت پر کامل یقین رکھتا تھا، کہتا تھا یہ باغ مجھے زندہ رکھے گا، میں کامیاب ہوں، آخرت میں جو ہو گا، دیکھا جائے گا، جب صبح ہوئی تو سب کچھ ختم ہو چکا تھا، پھل زمین پر گرے پڑے تھے۔ ایسے کفریہ کلمات شرک ہیں۔ فیصلہ ساز اللّہ کی ذات ہے۔ انسان اس کی تخلیق ہے۔ انسانی فیصلوں سے تباہی کی زندہ مثال: جب چینی حکومت کا خیال تھا کہ چڑیاں کسانوں کی فصلیں کھا جاتی ہیں، خاص طور پر اناج کے دانے، فصلوں کو نقصان دے رہی ہیں، مائوزے تنگ کے مطابق اگر چڑیوں کو ختم کر دیا جائے تو فصلیں بچیں گی اور قحط کم ہو گا۔ چڑیوں کو مارا گیا، جس کے نتیجے میں 1959ء سے 1961ء تک چین میں ’’ عظیم قحط‘‘ آیا، جس میں دو سے تین کروڑ لوگ ہلاک ہوئے۔ چین والوں کو کیا پتہ کہ ان چڑیوں کی پیدائش کا اللّہ نے مقصد رکھا ہوا ہے۔ ایسے لاکھوں واقعات خدا کی قدرت کا واضح ثبوت ہیں۔ بات انتہائی سادہ اور قابل فہم ہے: اپنے ہر فعل میں اللّہ کو شامل کریں، اسی سے مدد مانگیں، غیر اللّہ سے کچھ نہ ہونے کا یقین اپنے دل میں بٹھا لیں۔ اللّہ پاک ہی ساتوں آسمانوں اور زمینوں کا مالک ہے۔ اپنے فیصلوں، روز مرہ زندگی میں اللّہ کو شامل رکھیں۔ اپنی کامیابیوں پر اللّہ کے مشکور رہیں، اسی میں سکون ہے، اور دونوں جہانوں کی کامیابی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

Back to top button