بلوچستان جو کبھی غیر ملکی سیاحوں کا مرکز تھا

بلوچستان جو کبھی غیر ملکی سیاحوں کا مرکز تھا
تحریر : امتیاز عاصی
یوں تو پورا بلوچستان تاریخی اور سیاحتی اعتبار سے اپنی ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ کبھی انگریز اپنی افغان فاروڈ پالیسی کے تحت بلوچستان کے راستے افغانستان جایا کرتا تھا ان کے راستے میں کھوزک پہاڑی حائل تھی۔ انگریزوں نے اس مسئلے کا مستقل حل نکالنے کا فیصلہ کیا اور پہاڑی سے پانچ کلو میٹر لمبی سرنگ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا اس مقصد کے لئے ہندوستان سے مزدور بلائے گئے۔ جنگل بیابان میں مزدوروں کا دل بہلانے کے لئے ہندوستان سے شہلا نامی مشہور ڈانسر کو بلایا گیا۔ سرنگ سے پہلے شہلا باغ نامی ریلوے سٹیشن اسی ڈانسر کے نام سے منسوب ہے۔ ہمارے پانچ روپے کے پرانے نوٹ پر اسی سرنگ کی تصویر تھی۔ بلوچستان سیاحتی لحاظ سے بھی اپنی ایک حیثیت رکھتا ہے۔ زیارت ریذیڈنسی جو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے حوالے سے بہت مشہور ہے، یہاں صنوبر کے باغات دنیا بھر کے سیاحوں کا مرکز تھے اور بلوچستان کی صوبائی حکومت کے لئے زرمبادلہ کمانے کا ذریعہ تھا۔ غیرملکی سیاحوں کی پورا سال آمدورفت رہتی تھی۔ صنوبر کے پھولوں سے پورا علاقہ معطر رہتا تھا۔ یہاں کئی سو سال پرانے درخت ہیں ۔ اسی طرح خضدار کے قریب دریائے مولا ہے، مقامی زبان میں مولا کا مطلب پانی کا ٹپکتے رہنا ہے۔ بولان کا علاقہ گوکورت سیاحت کے لحاظ سے کم نہیں، یہاں پہاڑوں سے پانی آتا ہے، خاص طور پر جمعہ اور اتوار کو لوگ یہاں پکنک منانے آتے ہیں۔ مچھ میں چلیں جائیں تو پیر غائب جو گرمیوں میں سخت گرم اور سردی میں سرد ہوتا ہے، پہاڑوں سے چشموں کا پانی نکلتا ہے، جو نہایت میٹھا ہوتا ہے۔ کوئٹہ سے سبی تک یہیں سے ایک نیا راستہ نکالا گیا ہے۔ ژوب جو اب ڈویژن بن چکا ہے انگریز کرنل رابرٹ سنڈیمن نے یہاں ایک بلند و بالا قلعہ تعمیر کرایا تھا۔ انگریز سرکار نے اسے یہاں کے رہنے والوں کو کنٹرول کرنے کے لئے بھیجا تھا۔ فورٹ سنڈیمن میں اب کمشنر آفس ہے لیکن ایک عجائب گھر بھی ہے جہاں کرنل رابرٹ سنڈیمن کو گولی مارتے دکھایا گیا ہے۔ جی یہ کرنل رابرٹ سنڈیمن تھا جس نے پورے بلوچستان کو کنٹرول کیا تھا۔ اپنے موت سے پہلے اس نے یہ وصیت کی تھی اسے انگلستان میں دفن کرنے کی بجائے بلوچستان میں دفن کیا جائے۔ اس کی قبر لسبیلہ میں واقع ہے۔ لسبیلہ کے قریب ایک وادی ہے جہاں ہندووں مت کی ایک مقدس جگہ ہے جہاں دنیا بھر سے ہندو آتے ہیں۔ اس وادی کے قریب سمندر اور پہاڑ ہیں جب کہ یہاں کے رہنے والے کھیتی باڑی کرتے ہیں وائلڈ لائف بھی ہے یہاں بھی غیر ملکی سیاحوں کو ہجوم رہتا تھا۔ قلات کی بھی ایک تاریخ ہے یہاں ریاست قلات کے سردار میر احمد یار خان کی قبر ہے۔ اس دور کے مکانات اب بھی موجود ہیں۔ قلات کے سردار نے گوادر سلطنت عمان کے شہزادے کو دے دیا تھا قیام پاکستان کے بعد وزیراعظم ملک فیرور خان نون نے عمان سے دوبارہ گوادر خرید لیا تھا۔ گوادر جو اب بین الاقوامی شہرت اختیار کر چکا ہے۔ آج کل غیر ملکی بحری جہاز سامان لا کر لنگر اندا ز ہو رہے ہیں۔ ابھی تو گوادر کی صرف تین برتھیں فنکشنل ہیں جب باقی برتھیں فنکشنل ہوں گی تو ایک نیا انقلاب برپا ہو گا۔ ژوب ایئرپورٹ کے قریب ایک الٹا دریا افغانستان سے بلوچستان کی طرف آتا ہے حالانکہ دریائوں کے پانی کا رخ شمال سے جنوب کی طرف ہوتا ہے مگر دریائے افغانستان کا رخ جنوب سے شمال کی طرف ہے۔ دریا پر انگریز دور کے تعمیر کردہ پل کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے جیسے چند سال پہلے اسے تعمیر کیا گیا تھا۔ گودار کو کبھی کتابوں میں گم تھا اب بین الاقوامی شہرت اختیار کر چکا ہے۔ یہاں کی بین الاقوامی بندرگاہ پر دنیا کی نظریں ہیں ابھی تک اس کے تین برتھوں نے کام شروع کیا ہے۔ بلوچستان میں سرداری نظام کئی سو سال پرانا تھا، خضدار کے سردار عطاء اللہ مینگل اور ڈیرہ بگٹی کے نواب اکبر خان بگٹی کمال کے لوگ تھے۔ ان سرداروں کے ہاں ملک کا کوئی وزیراعظم ، صدر اور سربراہاں افواج ایسا نہیں ہوتا تھا جو ان سے ملاقات کے لئے ان کے پاس نہ آتا ہولیکن حالات کا جبر دیکھئے آج یہ دونوں سردار دنیا میں نہیں ہیں مگر ان کا نام زندہ ہے۔ کوئٹہ کی بھی ایک تاریخی حیثیت ہے یہاں انگریز گورنر جنرل کا نمائندہ بیٹھا کرتا تھا۔ گرم موسم میں گورنر کا نمائندہ سبی منتقل ہو جاتا تھا، سبی جو زیارت ریذیڈنسی کے قریب واقع ہے۔ زیارت کی اپنی تاریخ ہے جہاں بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے زندگی کے آخری ایام گزارے تھے۔ ڈیرہ غازی خان سے بلوچستان کی طرف آئیں تو رکھنی بلوچستان کا انٹری پوائنٹ ہے قریب ہی فورٹ منرو ایک صحت افزاء مقام ہے۔ فورٹ منرو لوگ اب بھی جاتے ہیں مگر غیر ملکی سیاحوں کی آمدورفت بند ہے ۔ بدقسمتی سے دہشت گردی نے غیر ملکی سیاحوں کی آمدورفت بند کر دی ہے ورنہ بلوچستان کی صوبائی حکومت اچھا خاصا زرمبادلہ کماتی تھی۔ ڈیرہ اسماعیل خان کی طرف سے ژوب کی طرف آئیں تو بائیں جانب کوہ سلیمان ہے جس پر چلغووں کے باغات ہیں۔ کوہ سلیمان کا ذکر تو قرآن پاک میں بھی ہے قرین قیاس یہ ہے حضرت سلیمان کا تخت دیو ادھر لائے تھے۔ کوہ سلیمان کا پہاڑی سلسلہ طویل ہے جو پنجاب سے شروع ہو کر بلوچستان تک چلا جاتا ہے۔ بلوچستان جیسے دور افتادہ اور پہاڑی علاقے کے نوجوان اب پاکستان کی سول سروس میں شامل ہو رہے ہیں جو خوش آئند ہے۔ مشرف دور میں جس طرح اس صوبے میں ترقیاتی کام ہوئے قیام پاکستان سے یہ کام شروع ہوجاتا تو یہاں کا نقشہ مختلف ہوتا۔ بلوچستان کے عوام محب وطن ہے گو بعض علاقوں کے نوجوان غیر ملکی ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں لہذا ہم پورے صوبے کے عوام کو غلط نہیں کہہ سکتے۔ بلوچستان کے رہ جانے والے تاریخی اور سیاحتی مقامات کا ذکر اگلے پروگرام میں کروں گا۔ حکومت کو چاہیے صوبے کے سیاحتی اور تاریخی مقامات پر خصوصی توجہ دے تاکہ غیر ملکی سیاح پھر سے یہاں آئیں اور ہمارے ملک کے لئے زرمبادلہ کی آمد کا ذریعہ بن سکیں۔ جہاں تک صوبے میں قدرتی معدنیات کی بات ہے جو ان گنت ہیں بات صرف حکومتی توجہ کی ہے اللہ کرے ہمارے حکمران بلوچستان پر خصوصی توجہ دیں تاکہ یہ صوبہ ایک بار پر امن او ر ترقی کر سکے۔