Column

جنگ بندی کے بعد

جنگ بندی کے بعد
تحریر : صفدر علی حیدری
تقریباً دو ہفتے کی شدید کشمکش کے بعد بالآخر جنگ بندی ہوئی تو دنیا نے چین کا سانس لیا۔ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتی۔ الٹا معاملات کو بگاڑنے اور نئے مسائل پیدا کرنے کی وجہ بنتی ہیں۔ مسائل ہمیشہ مذاکرات کی میز پر حل ہوتے ہیں۔ انہی سے پائیدار امن کی توقع ممکن ہے۔
اب دیکھتے ہیں اس جنگ سے فریقین کو کیا کچھ حاصل ہوا۔ ایران ، اسرائیل اور امریکہ تینوں کا نام الف سے شروع ہوتا ہے اور یہی تینوں اس قضیے کے اصل فریق تھے۔
اس میں کیا شک ہے ک ایران پر اسرائیلی حملے کی منصوبہ بندی میں امریکا پہلے روز سے شامل تھا اور اسے محض ضرورت پڑنے پر اس جنگ میں کودنا تھا۔
اسرائیل، امریکا اور ایران کے درمیان 12روزہ لڑائی کے بعد جنگ بندی ہوئی ہے تو سوال پیدا ہوا ہے کہ حقیقی معنوں میں اس کا فاتح کون ہے؟
ایران پر اسرائیل نے حملوں کا آغاز فوجی قیادت اور نیوکلیئر سائنسدانوں پر حملے سے کیا تھا تاہم ایران کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے میں بظاہر ناکامی ہوئی تو اسرائیل کی عملی مدد کے لیے بلآخر امریکا میدان میں آیا اور ایران کی تین ایٹمی تنصیبات پر بمباری کرکے اسرائیلی وزیراعظم سے منوایا کہ امریکا کے بغیر یہ کام ناممکن تھا۔
اس دوران ایران نے میزائلوں اور ڈرونز سے پے در پے حملے کرکے اسرائیل کے کئی علاقوں کا نقشہ غزہ جیسا بنا ڈالا۔ یہ وہ بارہ دن کی لڑائی تھی جس میں اسرائیلی شہریوں نے بیشتر وقت شیلٹرز میں گزارا جس کی وجہ سے اموات میں غیرمعمولی کمی تو دیکھنے میں آئی مگر افراتفری واضح تھی۔
لڑائی میں تباہی اپنی جگہ، جنگ کے دوران امریکا اور اسرائیل اہداف بھی بدلتے رہے جو جنگ ایران کے ایٹمی پروگرام کو ختم کرنے کیلیے شروع کی گئی تھی اس میں رجیم چینج بھی شامل ہوگیا اور دعویٰ کیا گیا کہ ایران کے عوام بھی قدامت پسند مذہبی حکومت کے خلاف ہیں، اس لیے زور دیا گیا کہ وہ اٹھ کھڑے ہوں۔
نتیجہ اس کے برعکس نکلا، ایران میں قوم پرستی کا جذبہ ابھرا اور لبرلز بھی قدامت پسندوں کے ساتھ جُڑ گئے جو مظاہرے ایرانی حکومت کیخلاف ہونے کا انتظار کیا جارہا تھا، وہ ایرانی حکومت کے حق میں ہوئے، امریکا اور اسرائیل کیخلاف آوازیں مضبوط ہوئیں۔
ایران میں حکومتی پالیسی کی حمایت بڑھی جب کہ اسرائیل کے بڑے میڈیا گروپس نے وزیراعظم نیتن یاہو کی پالیسی پر شدید تنقید کی اور کہا کہ دنیا میں کوئی بھی سمجھ دار عوام ہوتی تو سات اکتوبر کے چند روز بعد ہی اپنی حکومت بدل ڈالتی۔ ہارٹز کے مطابق وزیراعظم نیتن یاہو ایران کیخلاف جنگ چھیڑ کر اسرائیل کیلیے خود ایران سے زیادہ خطرناک ثابت ہوئے ہیں۔
خود امریکی صدر بھی اسرائیل سے ناخوش ہیں ۔ جنگی امور سے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے امریکا کو اس جنگ میں جھونکا مگر اصل ہدف یعنی ایرانی حکومت کی تبدیلی کا منصوبہ پورا کرنے میں ناکام رہا۔ اس طرح صدر ٹرمپ جو امن کا سفیر کہلاتے تھے، انہیں بھی نیتن یاہو نے ایران جنگ میں شریک کرکے ان کی سیاسی بصیرت پر سوالیہ نشان پیدا کر دئیے۔
اسرائیل کے سابق وزیر دفاع ایویگڈور نے اس پوری صورت حال کا نچوڑ ان الفاظ میں پیش کیا ہے کہ ایران کے غیر مشروط ہتھیار ڈالنے کے بجائے، دنیا تھکا دینے والے مذاکرات میں داخل ہونے پر مجبور ہو گئی ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای کی حکومت نے ہار نہیں مانی۔ انہوں نے خبردار کیا تھا کہ زخمی شیر کو چھیڑنے سے زیادہ خطرناک کوئی چیز نہیں اور یہ بھی کہ اگر کوئی معاہدہ نہ ہوا تو دو یا تین سالوں میں ایک اور جنگ ہو سکتی ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ کے سینئر عہدیدار حسن نوریان نے بات کرتے ہوئے کہا کہ دوران جنگ اللہ تعالیٰ کی نصرت شامل رہی اور ایرانی قوم نے آپریشن بشارت فتح کو حقیقی کامیابی میں بدل دیا۔
انہوں نے کہا کہ امریکا اور اسرائیل پر ایران کی فتح کے کئی ٹھوس ثبوت ہیں۔ اول یہ کہ دشمن ممالک ایرانی حکومت کا تختہ الٹنے میں ناکام رہے۔ امریکا اور اسرائیل اپنا اہم ہدف یعنی ایران کا ایٹمی پروگرام بند کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکے۔ یہی نہیں ایران کے پاس موجود چار سو کلوگرام افزودہ یورینئیم کو بھی نقصان نہیں پہنچایا جاسکا۔
ایرانی وزارت خارجہ میں سیاسی قونصلر نے کہا کہ ایران اب اپنی دفاعی صلاحیتیں پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط بنا رہا ہے اور مستقبل میں جنگ مسلط کی گئی تو اس سے کہیں زیادہ طاقت سے جواب دیا جائے گا۔
پاکستان میں طویل عرصے تک سفارت کاری انجام دینے والے حسن نوریان کا کہنا تھا کہ اگلی بار دشمن کو جاسوس نیٹ ورک بھی استعمال کرنے کا موقع نہیں ملے گا کیونکہ اس جنگ کے تجربات سے ایران نے بہت کچھ سیکھا ہے۔حسن نوریان نے اس جنگ میں مقبوضہ علاقوں کی تباہی کی تمام تر ذمہ داری اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہوپر عائد کی اور کہا کہ نتین یاہو کی بے لگام جارحیت پر ان کی جواب دہی ہونی چاہیے۔ یہ وقت ہے کہ نیتن یاہو کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
پاک بھارت جنگ کا موازنہ ایران اسرائیل جنگ سے کیا جائے تو بظاہر اسرائیل نے جنگ بندی کی کوشش کی اور امریکا اور قطر کی مدد سے اسے ممکن بنایا۔ ایران پہلے ہی یہ کہتا تھا کہ اس نے تین سو سال میں کبھی جنگ شروع ہی نہیں کی تاہم حق دفاع سے کبھی پیچھے بھی نہیں ہٹا۔
اس طرح بارہ روز میں امریکا اور اسرائیل نے اگر ایران سے جنگ بندی کی ہے تو ایران کے پاس یہ کہنے کا جواز ہے کہ وہ فاتح رہا ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ ایران کیخلاف آخری جنگ ہے یا کسی اور بڑی جنگ سے پہلے وقفہ؟۔
اس جنگ بندی کے دوران ایران اپنا دفاع، روس اور چین سے تعلقات کس قدر مضبوط بناتا ہے اور ان سے کس نوعیت کی ڈیل کرتا ہے، شاید یہ طے کرے کہ اگلی جنگ میں اصل فاتح کون ہوگا۔
اسرائیل یہ تسلیم کر چکا ہے کہ اس جنگ سے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ یہ اعتراف اسرائیل کو ناکام ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ امریکہ پہلے تو بڑکیں مارتا رہا پھر اس نے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کر دیا۔ پھر اچانک جنگ بندی کا اعلان بھی کر دیا۔
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کا عرب میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم نے جوہری ٹیکنالوجی حاصل کرنے کے لیے بہت محنت کی ہے، جوہری پروگرام کے لیے ہمارے سائنس دانوں نے بے پناہ قربانیاں دیں، یہاں تک کہ اپنی جانیں بھی قربان کر دی ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ اب یہ بات یقینی ہے کہ ایران میں کوئی بھی اس ٹیکنالوجی سے دست بردار نہیں ہو گا ۔ اُنہوں نے کہا کہ ایرانی قوم اپنی افواج کی قربانیوں پر فخر کرتی ہے، ہماری افواج ہر حملے کا جواب دینے کے لیے خون کے آخری قطرے تک تیار ہیں۔ ایرانی ایٹمی توانائی ایجنسی کا کہنا ہے کہ جوہری پروگرام بغیر کسی رکاوٹ کے دوبارہ شروع ہو گا ہم افزودگی دوبارہ شروع کرنے کیلئے تیار ہیں، ایران کا ایٹمی پروگرام نہیں رکے گا۔
سربراہ جوہری توانائی ایجنسی نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ایران اپنا جوہری پروگرام بحال کرے گا۔ ایرانی نیوکلئیر ادارہ کی طرف سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ جن تین تنصیبات پر امریکی طیاروں اور میزائلوں نے حملے کئے ان کو ’’ پہلے ہی خالی کر دیا گیا تھا ‘‘، اس کی کسی آزاد ذریعے سے تصدیق نہیں ہو سکی۔
آخر میں یہ عرض ہے کہ ایران کو اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی انٹیلیجنس ایجنسیاں واضح طور پر ناکام دکھائی دی ہیں۔ سو ایران کو داخلی پور پر خود کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

Back to top button