Column

بدترین معاشی بحران سے نکلنے کی جدوجہد

بدترین معاشی بحران سے نکلنے کی جدوجہد
تحریر : ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

مملکت خداداد پاکستان کو 2018ء سے 2023ء تک کا عرصہ نہ صرف سیاسی عدم استحکام بلکہ شدید معاشی بحران کی علامت کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اس دوران معاشی پالیسیوں میں غیر مستقل مزاجی، کرپشن، اندرونی و بیرونی قرضوں میں اضافہ، برآمدات میں کمی اور درآمدات میں بے تحاشہ اضافہ جیسے عوامل نے ملکی معیشت کو دیوالیہ پن کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ ان چیلنجز نے عام شہری کے لیے زندگی کو ناقابلِ برداشت بنا دیا اور ہر طبقہ فکر بالخصوص تنخواہ دار اور متوسط طبقہ متاثر ہوا، ۔
جب 2022ء میں شہباز شریف نے بطور وزیراعظم ذمہ داریاں سنبھالیں تو وہ ایک ایسے معاشی میدان میں اترے جو عملاً خالی خزانے، بدعنوانی کے طوفان اور عوامی بداعتمادی سے لبریز تھا۔ مالی سال 2024-25ء کا وفاقی بجٹ قومی معیشت کو بحران سے نکالنے کے لیے ایک سخت لیکن ناگزیر قدم قرار دیا جا سکتا ہے۔
حکومت نے بجٹ میں محاصل بڑھانے کے لیے تنخواہ دار طبقے پر انکم ٹیکس کی شرح میں 5فیصد اضافہ کیا۔ اس اضافے سے سالانہ چھ لاکھ تا بارہ لاکھ روپے کمانے والے وہ ملازمین بھی متاثر ہوئے جن کی قوتِ خرید پہلے ہی محدود تھی۔ اگرچہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ اقدام وقتی ہے اور اس کے ذریعے قومی آمدنی کو بہتر بنایا جا رہا ہے، لیکن تنخواہ دار طبقہ بجا طور پر سوال اٹھا رہا ہے کہ کیا ٹیکس نیٹ کو وسعت دئیے بغیر، ہمیشہ اسی طبقے کو قربانی کا بکرا بنایا جائے گا؟۔
عوامی دبائو اور حقیقت پسندانہ تنقید کے نتیجے میں حکومت نے نہ صرف انکم ٹیکس کی اضافی شرح کو 2.5فیصد تک محدود کرنے کا عندیہ دیا بلکہ مزید نظرثانی کرتے ہوئے اسے ایک فیصد تک لانے کا اعلان کیا۔ یہ تبدیلی نہ صرف ایک مثبت اشارہ ہے بلکہ حکومت کی معاشی پالیسیاں مرتب کرنے میں عوامی آواز کو سننے کی سنجیدگی بھی ظاہر کرتی ہے۔
درآمدی سولر پینل پر مجوزہ 18فیصد جنرل سیلز ٹیکس کو 10فیصد تک لایا جانا بھی ایک ایسا فیصلہ ہے جو توانائی کے بحران اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے دو بڑے مسائل سے نمٹنے کی کوشش کو ظاہر کرتا ہے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب نے یہ بھی واضح کیا کہ یہ ٹیکس صارف پر بوجھ ڈالنے کے لیے بلکہ مقامی صنعت کے فروغ کی غرض سے تھا۔
وفاقی حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10فیصد اور پنشن میں 7فیصد اضافہ کیا۔ اگرچہ یہ اضافہ مہنگائی کی موجودہ شرح کے مقابلے میں ناکافی محسوس ہوتا ہے، تاہم اسے ایک علامتی قدم سمجھا جا سکتا ہے۔ البتہ نجی شعبہ ایک بار پھر بجٹ میں نظرانداز ہوا ہے جو ایک اہم معاشی و سماجی عدم توازن کی نشاندہی کرتا ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں ٹیکس ادا نہ کرنے والے بااثر افراد، تاجر برادری، جائیداد مالکان اور دیگر شعبہ جات اب بھی حکومت کی گرفت سے آزاد ہیں۔ اگر حکومت تنخواہ دار طبقے کو ہی مسلسل دبائو میں رکھے گی، تو یہ اصلاحات نہ صرف غیر موثر ہوں گی بلکہ عوامی مخالفت کا سبب بھی بن سکتی ہیں۔ اس لیے ایک جامع اور مربوط حکمت عملی کے تحت ان لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
شہباز شریف حکومت کا بجٹ 2024-25ء اگرچہ کئی سخت فیصلوں پر مشتمل ہے لیکن ان فیصلوں کی پشت پر ایک واضح وژن موجود ہے یعنی معاشی خودمختاری، محصولات میں بہتری، مقامی صنعت کی بحالی اور توانائی کے بحران سے نجات۔ البتہ ان فیصلوں کی کامیابی اس بات پر منحصر ہے کہ آیا حکومت ان اقدامات کو صرف تنخواہ دار طبقے تک محدود رکھتی ہے یا پھر حقیقی اور منصفانہ ٹیکس اصلاحات کے ذریعے ہر شعبے سے وسائل حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
پاکستانی معیشت کو بدترین بحران سے نکالنے کی یہ کوشش اگر مکمل انصاف اور ہمہ گیر منصوبہ بندی سے کی جائے تو آنے والے سالوں میں ملک کو معاشی استحکام، خودانحصاری اور ترقی کی نئی راہوں پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر یہ بجٹ بھی گزشتہ بجٹوں کی طرح صرف ایک کاغذی کارروائی بن کر رہ جائے گا۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

Back to top button