Column

ٹرمپ کو نوبل پرائز۔ پاکستان کی ہاں

ٹرمپ کو نوبل پرائز۔ پاکستان کی ہاں
تحریر ، ڈاکٹر جمشید نظر
دنیا ایک بار پھر نازک دوراہے پر کھڑی ہے۔ عالمی سیاست میں بدلتے ہوئے حالات، طاقت کے توازن میں ارتعاش، اور خطوں میں اٹھتی کشیدگی کی لہریں انسانیت کے اجتماعی شعور کو جھنجھوڑ رہی ہیں۔ ان حالات میں اگر کہیں کوئی ایسا واقعہ پیش آ جائے جس سے جنگ ٹل جائے، امن کا موقع پیدا ہو اور لاکھوں زندگیاں بچ جائیں تو اسے محض سفارتی کامیابی کہنا کم اور ایک انسانی فتح کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ پاکستان نے ایک ایسا قدم اٹھایا ہے جسے اسی زاویے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ حکومت پاکستان کا یہ فیصلہ کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو 2026ء کے نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کی سفارش کی صرف ایک علامتی اقدام نہیں بلکہ ایک گہری سفارتی حکمتِ عملی اور مثبت طرزِ فکر کا مظہر ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کی ایک طویل داستان ہے جو کبھی سرحدوں پر شعلوں کی صورت میں بھڑکتی ہے تو کبھی سفارتی میز پر سرد جنگ کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے احمقانہ اقدامات کی وجہ سے جب دونوں ممالک ایک اور ممکنہ جنگ کی دہلیز پر پہنچ گئے تھے تو دنیا نے سانس روکی ہوئی تھی۔ ان حالات میں پاکستان نے جس سنجیدگی، حکمت اور تدبر سے کام لیا، وہ ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست کے شایانِ شان تھا۔ پاکستان نے ایک طرف اپنی خودمختاری کا بھرپور دفاع کیا تو دوسری جانب سفارتی دروازے بھی کھلے رکھے۔ اس نازک موقع پر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جو مداخلت سامنے آئی اس نے حالات کو ٹھنڈا کرنے میں مثبت کردار ادا کیا۔ ٹرمپ کی پاکستان کی عسکری قیادت سے براہ راست رابطے اور عالمی سطح پر کشیدگی کو کم کرنے کے لیے اپنایا گیا لب و لہجہ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں ذاتی روابط، موقع کی نزاکت کو سمجھنے کی صلاحیت اور فوری سفارتی ردعمل کس قدر اہم ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ حکومت پاکستان نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کردار کو سراہتے ہوئے انہیں نوبل انعام کے لیے نامزد کرنے کی حمایت کی ہے۔ یہ نہ صرف پاکستان کی ایک کشادہ دلی اور حقیقت پسندی کی مثال ہے بلکہ ایک بڑے مقصد یعنی ’’ امن‘‘ کے حصول کے لیے ہر قابلِ قدر کوشش کو تسلیم کرنے کا اظہار بھی ہے۔
نوبل امن انعام دنیا کے اُن افراد کو دیا جاتا ہے جو اقوام کو قریب لائیں، جنگوں کو روکیں، انسانی جانوں کو بچائیں اور امن کی شمع کو روشن رکھیں۔ اگر ٹرمپ نے واقعی پاک بھارت تنائو کو کم کرنے میں کوئی کردار ادا کیا تو یہ ایک قابلِ غور بات ہے۔ ممکن ہے کہ کچھ حلقے اس فیصلے پر تنقید کریں یا اسے سیاسی قرار دیں لیکن اگر نیت میں اخلاص ہو اور مقصد عالمی امن ہو تو ہر ایسی کوشش کو سراہنا چاہیے جو جنگ کے بجائے مکالمے کا راستہ دکھائے۔ یہ فیصلہ پاکستان کی امن دوست پالیسی کا تسلسل بھی ہے۔ چاہے وہ کشمیر کا مسئلہ ہو، افغان امن عمل ہو یا مشرق وسطیٰ میں حالیہ بحران، پاکستان نے ہمیشہ مکالمے، افہام و تفہیم، اور سفارتی ذرائع سے مسائل حل کرنے کی وکالت کی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کے اپنے بیانات میں کبھی شدت بھی دکھائی دیتی ہے اور کبھی نرمی، لیکن وہ گفت و شنید کی اہمیت کو مکمل طور پر رد نہیں کرتے۔ صدر ٹرمپ نے خود بھی کہا ہے کہ اگر وہ پاک بھارت جنگ کو روکنے میں کامیاب ہوئے تو انہیں نوبل انعام دیا جانا چاہیے۔ انہوں نے شکوہ بھی کیا کہ نوبل انعام صرف لبرلز کو دیا جاتا ہے لیکن پاکستان کی جانب سے ان کی حمایت اس خیال کی نفی کرتی ہے کہ ان کے سیاسی نظریات کو بنیاد بنا کر ان کے اقدامات کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی شخصیت خواہ کسی بھی سیاسی سوچ سے وابستہ ہو لیکن دنیا میں امن کا بیج بوئے تو اسے تسلیم کرنا دنیا کے اجتماعی شعور کی علامت ہے۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان نے اس تجویز کے ذریعے عالمی برادری کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ تنازع نہیں بلکہ تعاون کا خواہاں ہے۔ پاکستان یہ باور کروا رہا ہے کہ اس نے ہمیشہ امن کو ترجیح دی ہے اور اگر کوئی عالمی رہنما اس راہ میں ساتھ دے تو اس کی کوششوں کو سراہا جانا چاہے وہ کسی بھی ملک یا پارٹی سے ہو۔ یہ فیصلہ صرف ایک نامزدگی نہیں بلکہ امن کے ایک بڑے فلسفے کی تائید ہے۔ ایک ایسا قدم جو دنیا کو یہ سکھاتا ہے کہ اگر ماضی کے اختلافات کو پیچھے چھوڑ کر ہم ایک بہتر مستقبل کی طرف دیکھیں تو شاید جنگوں کے بجائے دوستی، ترقی اور محبت کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔

جواب دیں

Back to top button