Column

جنگ بندی

جنگ بندی
تحریر : صفدر علی حیدری
ہمارے شہر کے ایک معروف دانشور ایس اے خان کی ایک پوسٹ دیکھی۔ پسند آئی، سو ان کی اجازت سے یہاں پیش کی جاتی ہے
’’ ناقابلِ تسخیر کا بت ٹوٹ چکا ہے‘‘۔
ایران نے صرف میزائل نہیں برسائے، اس نے ایک نظریہ ، ایک خوف ، اور ایک سیاسی غرور کو زمین بوس کر دیا۔
یہ وہ لمحہ تھا جب دنیا نے اسرائیل کے فولادی دفاع کو چھلنی ہوتے دیکھا، اور اُس امریکی بیانیے کا جنازہ نکلتے دیکھا جو ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں پروان چڑھا تھا۔
ٹرمپ کی مشرقِ وسطیٰ پالیسی کا نچوڑ محض ایک نکتہ تھا: ’’ اسرائیلی تحفظ‘‘۔
اسی مقصد کے تحت اُس نے القدس کو یکطرفہ طور پر اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا، ایران نیوکلئر ڈیل(JCPOA) سے امریکہ کو نکالا اور عرب دنیا کو اسرائیل کی گود میں بٹھا دیا۔
ابراہم معاہدے اسی پالیسی کا اوج تھے جس کے ذریعے اسرائیل کو عرب حمایت کی چادر میں لپیٹ کر خطے کا ’’ناقابلِ چیلنج باپ‘‘ بنایا گیا۔
مگر یہ سب کاغذی قلعے نکلے۔
ایران نے جس نظم اور سکوت سے براہِ راست حملہ کیا، اُس نے امریکی و صیہونی بیانیے کے پرخچے اڑا دئیے۔
وہی آئرن ڈوم جس کے بارے میں دعویٰ تھا کہ پرندہ بھی نہ گزرے، درجنوں میزائلوں اور ڈرونز کے سامنی چھلنی ہو گیا۔
اور وہی اسرائیل، جو خود کو خوف اور فوجی دھاک کے ذریعے ناقابلِ تسخیر سمجھتا تھا، آج کھلا ہدف بن چکا ہے۔
اب صرف سرحدوں پر حملہ نہیں ہوا بلکہ اسرائیلی دماغوں میں ایک سوال گونج رہا ہے:
کیا ہم واقعی محفوظ ہیں؟
کیا ہماری فوجی برتری اب بھی قائم ہے؟
کیا امریکہ ہمیں اب بھی ناقابلِ تسخیر رکھ سکتا ہے؟
ٹرمپ نے ایران کو تنہا کرنے کی جو حکمتِ عملی ترتیب دی تھی، آج وہی ایران زیادہ بے خوف، زیادہ مربوط، اور عسکری لحاظ سے زیادہ طاقتور ہو کر ابھرا ہے۔
نہ صرف وہ امریکی پابندیوں سے بچ نکلا ، بلکہ اب اسرائیل جیسے ملک کو کھلے میدان میں للکار رہا ہے۔۔۔ اور کامیابی سے۔
یہ وہ لمحہ ہے جو تاریخ میں نقش ہو چکا ہے
’’ ناقابلِ تسخیر کا بت ٹوٹ چکا ہے اور ٹرمپ کی اسرائیلی حکمتِ عملی اپنی قبر میں اتر چکی ہے ‘‘۔
زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب کہیں کسی گلی محلے یا روڈ پر دو لوگوں میں توتکار ہو جاتی یا بات بڑھ کر ہاتھا پائی تک پہنچتی تو لوگ گھیرا ڈال کر تماشہ نہیں دیکھتے تھے۔ کچھ لوگ دیکھتے بھی ہوں گے لیکن کئی لوگ ایسے بھی ہوتے تھے جو آگے بڑھ کر بیچ بچائو کراتے اور یہ معاملہ ختم ہو جاتا۔ آج کل مگر صورتحال یہ ہو گئی ہے کہ لوگ گھیرا ڈال کر تماشہ دیکھتے ہیں اور ویڈیوز بنانا شروع کر دیتے ہیں ۔
ایران اسرائیل جنگ میں بھی صورتحال یہ رہی کہ دنیا خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی تھی۔ علاقے کا چودھری خود ایک نامی گرامی غنڈہ ہے سو اس سے کسی خیر کی کوئی توقع نہیں۔ اس نے تو الٹا جلتی پر تیل ڈالا۔ ایران پر حملے کر کے اس نے جنگ کے شعلے اور بھڑکانے کی کوشش کی۔
ایران پر اسرائیل کے پہلے شدید ترین حملے کے بعد ایران نے جوانی کارروائی میں دیر نہیں کی۔ سب سے اہم بات یہ کہ اس نے حکمت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ اپنا فوکس اسرائیل پر ہی رکھا اور دنیا سے یہ بات منوائی کہ اس کے حملے دفاعی ہیں، اس کے پیچھے کسی ملک پر قبضے کی ہوس کار فرما نہیں ہے۔ گویا ایک لحاظ سے اسے اسرائیل پر ایک اخلاقی برتری حاصل ہو گئی۔ آٹھ، نو دن وہ مسلسل اسرائیل پر حملہ آور رہا۔ اس دوران اس نے امریکہ کے خلاف ایک بھی کارروائی نہیں۔ مختلف اسلامی ممالک میں اس کے فوجی اڈے ایران سے مخفی نہ تھے مگر ایران نے اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ باوجود اسے کہ وہ اچھی طرح سے جانتا تھا کہ اسرائیل نے امریکی ایما پر یہ سب حرکت کی ہے۔ ایران کے حملوں کی خاص بات اس کا تواتر اور شدت رہی۔ اسرائیل کا ایئر ڈیفنس سسٹم آن تابڑ توڑ حملوں کی تاب نہ لا سکا اور اس نے ہاتھ کھڑے کر دئیے۔ بعض اطلاعات کے مطابق فائر کیے ہوئے میزائل واپس اسرائیل پر گرنے لگے ۔
اسی دوران روسی صدر ولادیمیر پوتن نے کہا ’’ ایران پر کیا جانے والا اشتعال انگیز حملہ کسی بھی جواز یا عذر پر مبنی نہیں‘‘۔ جبکہ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے امریکی حملوں کی مذمت پر روسی صدر کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ روس ’’ تاریخ کے درست پہلو پر کھڑا ہے‘‘۔
اس سے قبل اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے اتوار کی رات ایران میں امریکی حملوں پر ایک اجلاس منعقد کیا، جس کے دوران روس، چین اور پاکستان نے ایک قرارداد پیش کی کہ مشرق وسطیٰ میں فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کی اپیل کی جائے۔
گزشتہ روز صدر ٹرمپ نے امیر قطر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی سے ٹیلی فون پر رابطہ کر کے کہا کہ امریکہ نے اسرائیل کو جنگ بندی پر آمادہ کر لیا ہے اور قطر ایران سے بات کو آگے بڑھائے۔ جبکہ دوسری جانب صدر ٹرمپ نے اسرائیل کے وزیراعظم بنیامن نتن یاہو سے ٹیلی فون پر رابطہ کر کے سیز فائر کے لیے کہا۔ بعد ازاں قطری وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی نے ایرانی قیادت سے ٹیلی فون پر رابطہ کر کے ایران کو جنگ بندی کی تجویز سے اتفاق کرنے پر آمادہ کیا۔
یوں کچھ ہی گھنٹے میں امریکہ، اسرائیل، ایران اور قطر کی قیادت کے درمیان ٹیلی فون پر رابطوں سے جنگ بندی پر اتفاق ہو گیا اور منگل کی صبح سے اس پر عمل درآمد کا بھی آغاز ہو گیا۔
اس جنگ میں ایران کو فاتح قرار دیا جا سکتا ہے۔
کیوں کہ
’’ کمزور نہ پڑو، غم نہ کرو، تم غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘۔

جواب دیں

Back to top button