Column

مغربی میڈیا کی کاپی پیسٹ صحافت

مغربی میڈیا کی کاپی پیسٹ صحافت
تحریر : طارق خان ترین
صحافت کا بنیادی اخلاقی معیار سچائی، دیانت داری اور غیر جانبداری پر قائم ہے۔ ایک صحافی کا فرض ہے کہ وہ ذاتی مفادات، تعصبات یا دبائو سے بالاتر ہو کر حقائق کو بغیر تحریف کے عوام کے سامنے پیش کرے۔ ذمہ دار صحافت معاشرے میں شعور بیدار کرنے اور عوام کے اعتماد کو مضبوط کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ مگر آج کل مغربی میڈیا کے پاس لگتا ہے ہے پاکستان کے مخالفت میں ہر طرح کے اخلاقی معیارات سے عاری اور غیر تصدیق شدہ آرٹیکلز یا پھر رپورٹنگ کو کاپی پیسٹ کرکے اپنی عوام کو گمراہ کر رہے۔ رائٹرز کی ویب سائٹ پر ایران اسرائیل کے حوالے سے حقائق کو مسخ کر کے ایک یکطرفہ پاکستان مخالف مضمون کھا گیا ہے۔ جسے بہت سے دیگر عالمی میڈیا کے اداروں نے بے دھڑک کاپی کر کے اپنی اپنی ویب سائٹس پر پیسٹ کیا ہے۔ آئیں! اس مضمون کو حقائق کے ساتھ نتھی کرکے جائزہ لیتے ہیں۔
رائٹرز کا یہ دعویٰ کہ علیحدگی پسند ایران۔ اسرائیل جنگ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اور یہ بات آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات میں اٹھائی، محض ایک متنازعہ تجزیہ ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ پاکستان اس جنگ سے پہلے، اس کے دوران اور دہشتگردی کے ایک بھی وجود کے خاتمے تک دہشتگردی کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھے گا۔
ایران کے ساتھ 900کلومیٹر طویل سرحد کے دونوں جانب موجود دہشتگرد تنظیموں کو بھارت اور اسرائیل مالی اور تکنیکی معاونت فراہم کرتے رہے ہیں، جس کے ناقابل تردید شواہد پاکستان بارہا اقوامِ متحدہ میں پیش کر چکا ہے۔ کلبھوشن یادیو اور دیگر علیحدگی پسندوں کے انکشافات نے بھی بھارت کے دہشت گرد عزائم کو بے نقاب کیا ہے۔ بھارت اور اسرائیل کی ہمیشہ یہی خواہش رہی ہے کہ پاکستان کی مغربی سرحد کو غیر مستحکم رکھا جائے۔ اگر ایران کی حکومت کو تبدیل کیا گیا تو یہ خطے میں دیگر جمہوری حکومتوں کے خاتمے کی ایک خطرناک ابتداء ہوگی۔
ایرانی عوام اس وقت اپنی حکومت کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ موجودہ حالات میں یہ کہنا کہ شرپسند عناصر افراتفری پھیلانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں، درحقیقت اسرائیل کی ایران میں حکومت کی تبدیلی کی خواہش کو تسلی دینے کی ایک کوشش ہے، لیکن حقیقت اس سے کوسوں دور ہے۔ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی قوت ہے، جس نے 7اور 10مئی کی رات بھارت کے براہِ راست اور اسرائیل کے بالواسطہ جنگی جنون کو خاک میں ملایا اور دنیا پاکستان کی دفاعی صلاحیت کی معترف ہوئی۔ کیا پاکستان کسی شکست خوردہ دشمن سے فکرمند ہوگا؟ پاکستان ایک پرامن ملک ہے اور ہمیشہ امن کو جنگ پر ترجیح دیتا ہے، البتہ ہر مظلوم قوم کے لیے فکرمند ضرور ہے جو مغربی یلغار کا شکار ہے۔
رائٹرز کا کہنا ہے کہ ’’ بدھ کو وائٹ ہائوس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ساتھ ظہرانے کے بعد ٹرمپ نے کہا کہ وہ کسی چیز سے خوش نہیں ہیں‘‘، اور اسے پاکستان کے ایران، اسرائیل تنازع پر موقف سے جوڑ دیا گیا۔ درحقیقت ٹرمپ کی یہ بات بے گناہ شہریوں کی ہلاکتوں پر تھی نہ کہ پاکستان کے کسی موقف پر۔ اگر رائٹرز کا دعویٰ درست ہوتا تو ٹرمپ پاکستان کے آرمی چیف کو مدعو ہی کیوں کرتے؟ امریکی صدر کے بیان کو اپنے ایجنڈے کے تحت توڑ مروڑ کر پیش کرنا رائٹرز کی جانبدار اور متعصب سوچ کا غماز ہے۔
رائٹرز کی ایک اور بے بنیاد رپورٹ میں کہا گیا کہ جیش العدل نامی تنظیم پاکستان کی زمین سے کام کرتی ہے، جبکہ اسی تنظیم نے بارہا خود اس بات کی تردید کی ہے کہ ان کا پاکستان میں کوئی ڈھانچہ موجود ہے۔ جیش العدل کے 13جون کے بیان کو بھی رائٹرز نے توڑ مروڑ کر پیش کیا، جس میں تنظیم نے خصوصی طور پر بلوچستان اور اس کے مسلح افراد سے مزاحمت کے صفوں میں شامل ہونے کی اپیل کی ہے، جبکہ اس بیان میں کہیں بھی پاکستان یا بلوچستان کا ذکر موجود نہیں۔ یہ صحافتی بے احتیاطی اور بدنیتی کی بدترین مثال ہے۔
رائٹرز کا یہ دعویٰ کہ پاکستان کو ایران میں موجود بھارتی دہشتگرد گروہوں فتنہ الہندوستان سے خدشات لاحق ہیں، کوئی بھی ملک جس کے اندر ہمسایہ ملک کی جانب سے پراکسیز کے ذریعے دہشتگردی پھیلائی جاتی ہو تو وہ ملک اپنی دفاع میں چوکنا رہتا ہے۔ پاکستان کے دفاعی اداروں میں خدشات نہیں بلکہ ہمہ وقت حساس رہنے کا اعتماد ہوتا ہے۔
اسی طرح رائٹرز نے ڈاکٹر ملیحہ لودھی کا حوالہ دیا کہ ’’ غیر حکومتی علاقوں کے بننے کا خطرہ ہے‘‘، مگر یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے یہ بات کب اور کس تناظر میں کہی۔ جب بھارت اپنی پراکسیز کے ذریعے پاکستان میں بغاوت پھیلانے کی ناکام کوششیں کر رہا ہو، تو پاکستان ان سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔
پاکستان کے ایران سے متصل سرحدی علاقوں میں امن پسند بلوچ اکثریت بستی ہے، جو وطن کی خاطر کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتی۔ چند سو شرپسندوں کے بیانیے کو اکثریتی آبادی کی ترجیحات پر مسلط کرنا رائٹرز کی منافقانہ رپورٹنگ کا عکاس ہے۔ یہاں نا تو آزادی کی کوئی تحریک ہے اور نا ہی کسی امتیازی سلوک کی شکایات ہیں۔ بلکہ بلوچستان کی ترقی کیلئے حکومت عوام اور دفاعی ادارے ہمہ وقت برسرِپیکار رہتے ہیں۔
پاکستان، بھارت جنگ کے دوران ایران نے اپنی خارجہ پالیسی کے تحت پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھے، اگرچہ بھارت سے بعض معاہدے بھی کیے، لیکن جنگ بندی کے بعد پاکستان کے وزیراعظم نے ایران کا دورہ کیا اور دونوں ممالک نے بھارتی سازشوں کے خاتمے اور بھائی چارے کو فروغ دینے کا عزم کیا۔ پاکستان نے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے اسرائیلی جارحیت کیخلاف متفقہ قرار دادیں منظور کرائیں۔
رائٹرز نے اس جنگ کو چین کے لیے بھی اضطراب کا باعث قرار دیا اور دی گارڈین کی رپورٹ کا حوالہ دیے بغیر اس کا مواد اٹھایا، یہ بیان رائٹرز نے دی گارڈین کی ایک رپورٹ جو 26جنوری 2025ء میں شائع ہوئی، سے لیا ہے، حالانکہ رائٹرز نے یہاں بھی اس کا حوالہ نہیں دیا۔ دی گارڈین کے اس رپورٹ پر 27جنوری کو چینی سفارتخانے نے کہا کہ ’’ ہم نے گارڈین کے حالیہ مضمون کو نوٹ کیا ہے، جس میں مبینہ طور پر ایک چینی سفارتکار کے تبصرے کو نقل کیا گیا ہے، جو بالکل غلط ہے۔ اس میں استعمال کیے گئے الفاظ اور انداز بیان پر یقین کرنا مشکل ہے، جو چین کے موقف کی بنیادی سمجھ سے عاری ہے‘‘۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ ’’ یہ رپورٹ پیشہ ورانہ اخلاقیات کی خلاف ورزی کرتی ہے اور باہمی احترام کے بنیادی اصولوں کو پامال کرتی ہے‘‘۔ تو جنوری کے مہینے میں غلط بیانی کو کس طرح سے ایران اسرائیل جنگ کے ساتھ جوڑ کر کس طرح سے مغربی میڈیا پاکستان کے خلاف ذہنی ادراک کو تبدیل کرنے کی کوششوں میں مگن ہے۔ جنوری میں چھپی جھوٹی رپورٹ کو ایران، اسرائیل جنگ کے ساتھ جوڑ کر پاکستان کے خلاف عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
رائٹرز کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایران نے پاکستان پر مخالف بلوچ گروہوں کی حمایت کا الزام لگایا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ الزامات برسوں پرانے ہیں اور آج ایران کی پارلیمان میں ’’ شکریہ پاکستان‘‘ کے نعرے اس حقیقت کو واضح کر چکے ہیں کہ ایران نے اپنے ’’ دوست نما دشمن‘‘ بھارت کو پہچان لیا ہے، جس کے ایجنٹ اسرائیل کے لیے کام کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔ ان ایجنٹوں سے مزید کیا حقائق سامنے آئیں گے، اس کا فیصلہ ایران ہی کرے گا۔ پاکستان کے آرمی چیف نے بلوچستان کو ’’ ماتھے کا جھومر‘‘ قرار دیتے ہوئے واضح کر دیا کہ دشمن کی دس نسلیں بھی بلوچستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔
مغربی میڈیا کی پاکستان کے خلاف جاری من گھڑت اور جانبدار رپورٹنگ دراصل ایک پرانی روش کا تسلسل ہے جس میں حقائق کو مسخ کر کے پاکستان کے مثبت کردار کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ رائٹرز، ڈی ڈبلیو، اکنامک ٹائمز، ہندوستان ٹائمز وغیرہ جیسے ادارے جو غیر جانبداری کے دعویدار ہیں، نے بارہا ایسے تجزیے اور خبریں کاپی پیسٹ کرکے شائع کیں جو زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ چاہے ایران، اسرائیل تنازع ہو یا خطے میں پاکستان کی امن پسندی، مغربی میڈیا کا جھوٹا بیانیہ اسی سوچ کا عکاس ہے جو پاکستان کو غیر مستحکم دکھانے کے ایجنڈے پر گامزن ہے۔ حقائق یہ ہیں کہ پاکستان اپنی مغربی سرحد پر بھارت اور اسرائیل کی پراکسی دہشت گردی کا نہ صرف موثر جواب دے رہا ہے بلکہ خطے کے امن و استحکام کے لیے ہر اول دستے کا کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ امر بھی عیاں ہو چکا ہے کہ مغربی میڈیا کے یہ جھوٹے بیانیے نہ صرف پیشہ ورانہ اخلاقیات کی خلاف ورزی کرتے ہیں بلکہ ان کا مقصد عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنا ہے۔ پاکستان کے عوام، افواج اور ریاستی ادارے اس پراپیگنڈے سے بخوبی آگاہ ہیں اور اپنی قومی سلامتی اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے ہمہ وقت پرعزم ہیں۔ مغربی میڈیا کا جھوٹ اور فریب زیادہ دیر تک دنیا کی آنکھوں پر پردہ نہیں ڈال سکتا کیونکہ سچ اپنی روشنی خود پھیلاتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button