Column

ٹرمپ اور اسرائیل نفسیاتی ہو گئے

ٹرمپ اور اسرائیل نفسیاتی ہو گئے
تحریر: سی ایم رضوان
اسرائیل کے عوام ایران کے چند حملوں کے بعد ہی جنگ سے خوفزدہ ہو گئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جنگ بے شک ختم نہ ہو لیکن ان کے شیروں پر بمباری ختم ہو جائے۔ ایرانی میزائل حملوں سے بچنے کے لئے اسرائیل کی بیشتر آبادی اس وقت شیلٹرز میں پناہ لئے ہوئے ہے اور اب وہاں اسرائیلی شہریوں کی آپس میں لڑائی جھگڑوں کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ لوگوں سے کھچا کھچ بھرے ان شیلٹرز میں اسرائیلیوں میں لڑائیاں ہونے لگی ہیں۔ ایسے ہی ایک واقعے میں تلخ کلامی کے بعد ایک اسرائیلی نے شیلٹر کے اندر مرچوں کا سپرے کر دیا۔ اسرائیلی اخبار کے مطابق ایک لڑائی میزائل حملوں کے سائرن بجنے کے دوران ہوئی اس لڑائی کے دوران مرچوں کے سپرے کے باعث شیلٹرز میں پناہ لینے والے باہر نکلنے پر مجبور ہو گئے۔ تاہم پولیس نے جھگڑا کرنے کے الزام میں 3افراد کو حراست میں لے لیا۔ دوسرے لفظوں میں دنیا بھر کے عوام کے ساتھ ساتھ فلسطین کے عوام کے ساتھ ظالمانہ رویہ اور سلوک روا رکھنے والے اسرائیل کے عوام ایران کے تابڑ توڑ حملوں کے بعد اب اچھی طرح سے جان چکے ہیں کہ جنگی ماحول میں اندہ رہنا کا قدر مشکل ہوتا ہے۔ تل ابیب کے جنوب میں واقع بیت یام کا علاقہ عرصہ دراز سے اسرائیل میں دائیں بازو کی اتحادی حکومت کی حمایت کرتا رہا ہے۔ اتوار کی صبح اسی علاقے میں ایک ایرانی میزائل دس منزلہ رہائشی عمارت پر گرا جس کے نتیجے میں کم از کم آٹھ افراد ہلاک ہوئے اور درجنوں ملبے تلے دب گئے۔ اس نقصان کے باوجود مقامی رہائشی جمعے کے دن سے ایران کے خلاف شروع ہونے والی عسکری کارروائی، جس کے دوران عسکری سربراہان، جوہری تنصیبات سمیت فضائی دفاع، ایئرپورٹ اور دیگر مقامات کو نشانہ بنایا گیا، کی حمایت کر رہے ہیں۔ 33سالہ ویرونیکا اس جگہ سے 200میٹر کی دوری پر رہتی ہیں جہاں ایرانی میزائل گرا تھا۔ وہ ایران کے خلاف کارروائی پر کہتی ہیں کہ ایسا کرنا ضروری تھا لیکن ہمیں یہ توقع نہیں تھی کہ ہم بھی اس طرح سے متاثر ہوں گے۔ صحافیوں نے دیکھا کہ میزائل حملے کی وجہ سے ویرونیکا کے اپارٹمنٹ کی کھڑکیاں ٹوٹ گئی تھیں اور آس پاس کی تقریبا تمام عمارات کو ایسا ہی نقصان پہنچا تھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ ہم صدمے کی کیفیت میں تھے۔ جس وقت ان سے بات ہوئی وہ خوراک اور دیگر ضرورت کی اشیا ایک سوٹ کیس میں رکھ کر ایک کرسی پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ یاد رہے کہ بیت یام میں گرنے والا ایرانی بیلسٹک میزائل ان راکٹوں سے کہیں زیادہ طاقتور اور نقصان دہ تھا جو گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران حماس یا حزب اللہ کی جانب سے داغے جاتے رہے ہیں اور جن کی اکثریت کو اسرائیل کا جدید فضائی دفاعی نظام روکنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اس میزائل حملے کے بعد ملبے تلے دبے چند افراد کو گھنٹوں میں بچا لیا گیا تھا۔ تاہم اتوار کی شام تک کم از کم تین افراد کا کچھ پتہ نہیں چلا تھا۔ طبی ٹیم کے رکن اوری نے بتایا کہ میں نے ان کی آنکھوں میں خوف دیکھا۔ لوگ ملبے کی راکھ میں اٹے ہوئے باہر نکل رہے تھے۔ ادھر 68سالہ ایوی جنہوں نے اپنا پورا نام بتانے سے گریز کیا، اسی جگہ پیدا ہوئے اور یہیں پلے بڑھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں حملہ جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے ہمیں ایسا کرنا ہے ورنہ وہ ہم پر ایٹم بم گرا دیں گے۔ ان کا موقف تھا کہ وہ یعنی ایران والے کمزور ہیں اور ہم بہت طاقتور ہیں، ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ اسرائیل دنیا میں نمبر ون ہے۔ 18سالہ ایمل بھی ان سے اتفاق کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں یہ کام بہت پہلے کر لینا چاہیے تھا۔ اور زیادہ تر اسرائیلیوں کی یہی سوچ ہے۔
یاد رہے کہ اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے کی توجیح یہ پیش کی گئی تھی کہ وہ جوہری پروگرام کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ تقریبا ایک دہائی کے عرصے سے ہر حکومت نے ہی ایران کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے ممکنہ حصول پر خطرے کی گھنٹی بجائی ہے جبکہ ایران کا موقف یہ رہا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار نہیں بنا رہا۔ اگرچہ وزیر اعظم نیتن یاہو کو اسرائیل میں غزہ کی پٹی میں جنگ کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے تاہم اپوزیشن اور ان کی حریف جماعتوں نے ایران پر حملے کی حمایت کی ہے۔ چیٹم ہائوس میں مشرق وسطی پروگرام سے تعلق رکھنے والے پروفیسر یوسی مکلبرگ کہتے ہیں کہ اسرائیل میں ہمیشہ ایران کو عسکری جوہری صلاحیت حاصل کرنے سے روکنے کی حمایت رہی ہے لیکن ان کے مطابق یہ غزہ کی پٹی میں حماس سے یا لبنان میں حزب اللہ سے کہیں بڑا کام ہے، ایران سے محدود تنازع سے بھی بڑا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تنازع ایک کھلی جنگ میں بدل رہا ہے اور 20ماہ بعد اسرائیل میں جنگی تھکاوٹ شروع ہو جاتی ہے۔ اگر مزید ہلاکتیں ہوتی ہیں، لوگوں کو پناہ گاہوں میں زیادہ وقت گزارنا پڑتا ہے، اور اگر یہ بھی ایک نہ ختم ہونے والی جنگ بن جاتی ہے تو ان کی رائے میں یہ حمایت کم ہونا شروع ہو جائے گی۔ اتوار کے دن ہی بیت یام میں قومی سلامتی کے وزیر، بن گویر پہنچے جن پر حال ہی میں برطانوی حکومت نے فلسطینیوں کے خلاف تشدد پر اکسانے کے الزام میں پابندی عائد کی ہے۔ انہوں نے اس گلی میں دکانداروں سے ملاقات کی جن کی دکانیں ایرانی حملے سے متاثر ہوئی تھیں۔ ان میں سے ایک اپنی بیکری کے باہر بیٹھے تھے۔ جب ان سے سوال ہوا کہ کیا وہ ایران کے خلاف ایک نیا محاذ کھولنے کے حامی ہیں تو انہوں نے ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا کہ بالکل، یہ کیسا سوال ہے۔ اتوار کے دن ہی وزیر اعظم نیتن یاہو نے بھی اسی جگہ کا دورہ کیا تو ’’ بی بی، اسرائیل کے بادشاہ‘‘ کے نعرے لگے۔ چند گھنٹے بعد انہوں نے ایک تقریر میں ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک مشکل دن تھا، میں نے آپ کو بتایا تھا کہ مشکل دن ہوں گے لیکن ایران کے خلاف کارروائی کی بڑے پیمانے پر حمایت کے باوجود اگر یہ تنازع بڑھتا ہے اور عام شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ کہنا مشکل ہے کہ اسرائیل کی عوام کتنے مشکل دن برداشت کر پائے گی۔
ٹرمپ کے نفسیاتی ہونے اور ایران سے خوفزدہ ہونے کا ایک ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ روز جب امریکی میڈیا نے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کی فیک نیوز جاری کی تو اس پر صدر ٹرمپ نے امریکی میڈیا کو ہی تنقید کا نشانہ بنا ڈالا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر بیان جاری کرتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایران میں جن مقامات پر ہم نے حملہ کیا، وہ مکمل طور پر تباہ ہو گئے اور سب کو اس کا علم ہے۔ ٹرمپ نے کہا کہ صرف جعلی خبریں ہی کچھ اور دعویٰ کرتی ہیں تاکہ ہماری کارکردگی کو کمزور ظاہر کر سکیں۔ امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ اس جھوٹ کو پھیلانے میں خاص طور پر سی این این، اے بی سی اور این بی سی کے صحافی شامل ہیں۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ میڈیا میں موجود اخلاقی طور پر گرے ہوئے ان افراد کی وجہ سے یہ معاملہ کبھی ختم نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ ان کی ریٹنگ تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے۔ واضح رہے کہ عالمی تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ امریکا کے ایرانی ایٹمی تنصیبات پر حملوں کے باوجود بھی ایران کی ایٹم بم بنانے کی صلاحیت ختم نہیں ہوئی ہے۔ عالمی تجزیہ کاروں کے مطابق اگرچہ امریکی حملوں سے ایران کا یورینیئم افزودہ کرنے کا عمل متاثر ہوا ہے مگر اس کی جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نفسیاتی ہونے کی یہی دلیل ہے کہ وہ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کے حملوں نے جہاں جہاں ہدف کو نشانہ بنایا وہ تنصیبات تباہ ہو چکی ہیں۔

جواب دیں

Back to top button