Column

قومی یکجہتی کی اشد ضرورت

قومی یکجہتی کی اشد ضرورت
تحریر : محمد ریاض ایڈووکیٹ

کچھ عرصہ قبل تک وطن عزیز میں کسی بھی ناگہانی صورتحال میں تمام پاکستانی یک جان ہو جایا کرتے تھے چاہے بھارت کے ساتھ جنگ ہو یا زلزلے، سیلاب جیسی قدرتی آفات۔ بلا رنگ و نسل، زبان اور صوبائیت ہم پاکستانی سیاست اور مذہبی اختلافات بھول کر اک دوجے کی مدد کیا کرتے تھے۔ افسوس کچھ عرصہ سے ہم پاکستانی یہ روایات چھوڑتے چلے جارہے ہیں۔ آج معاملہ ریاستی ہو، مذہبی ہو، معاشی ہو معاشرتی ہو یا پھر بین الاقوامی ہم سب سے پہلے اپنا مسلک، اپنی سیاسی و مذہبی جماعت کے نقطہ نظر کو سامنے رکھتے ہیں پھر معاملے کو پرکھتے ہیں۔ آپ میرے اس دعوے سے اختلاف کر سکتے ہیں مگر زمینی حقائق کو جھٹلا نہیں سکتے۔ ابھی حال ہی میں پاکستان کے ازلی دشمن بھارت نے پاکستانی ریاست پر یلغار کی، پھر پاکستانی جواب نے نہ صرف بھارت کی بولتی بند کی بلکہ پوری دنیا میں اپنی طاقت، ہمت اور بہادری کو منوایا۔ مگر افسوس ہم پاکستانی اس معاملہ میں بھی بکھڑے ہوئے نظر آئے، کسی نے اس جنگ کو نورا کشتی قرار دیا تو کسی نے پاکستانی ریاست کی طاقت، حکمت عملی کا مذاق اُڑایا۔ ایک مخصوص سیاسی جماعت سے وابستہ اندرون ملک اور سمندر پار پاکستانی یوٹیوبرز ، سیاسی کارکنوں اور قائدین نے اس نازک موقع پر بھی اپنی بکواسیات جاری رکھیں، یہاں تک کہ بھارتی بولی بولتے دکھائی دیئے۔ جنگ جیسے کٹھن اور مشکل مرحلے میں ان بدبختوں کے بیانات بھارتی میڈیا کی زینت بنتے رہے۔
اب آتے ہیں ایران اسرائیل جنگ کے موضوع پر تو آپ دیکھیں گے یہی خاص گروہ اپنی فتنہ انگیزی پھیلاتا دکھائی دے رہا ہے۔ بھارتی چینلز پر پھیلائے گئے من گھڑت پروپیگنڈا کو اپنے ٹویٹس یا پھر وی لاگ کے ذریعہ پھیلانا ہو، یہی خاص طبقہ ریاست پاکستان کے ایران کے لئے ہر مثبت اقدام کو اپنے غلیظ پروپیگنڈا کے ذریعہ سبوتاژ کرنے کی ہر ممکن کوششوں میں مصروف عمل ہے۔ یاد رہے آج پاک، ایران تعلقات جس قدر مضبوط ہیں شاید اس سے پہلے کبھی ماضی میں نہ تھے۔ ایران اسرائیل جنگ میں جہاں ایرانی ریاست ہر فورم یہاں تک کہ ایرانی پارلیمنٹ میں پاکستانی حمایت پرتشکر تشکر کر رہی ہے، وہیں پر یہ بدبخت گروہ بھارتی بیانیئے کو پروان چڑھانے میں پیش پیش ہے۔ کبھی ایران کے خلاف پاکستانی سرزمین خصوصا فوجی اڈوں کے استعمال دوسرے لفظوں میں پاکستان کو اسرائیلی و امریکی سہولت کار قرار دینے کی خبروں کو پھیلارہے ہوتے ہیں تو کبھی بلوچستان میں دہشتگردوں کو معصوم قرار دینے کی بھونڈی کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔
ایران، اسرائیل جنگ میں کچھ مذہبی ٹچ دکھاتے ہوئے جذباتی افراد بھی نظر آرہے ہیں۔ جن کے نزدیک ایران کی مخالفت محض ان کے ساتھ مسلکی اختلاف ہے، ان جذباتی افراد کی عقل کو پچاس توپوں کی سلامی دینی چاہیے، جو ایران کی مخالفت کرتے ہوئے اسرائیل کی حمایت میں چلے جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر یہ جذباتی افراد ایران اور اسرائیل کے درمیان چارٹ بنا کر تقابلی جائزے پیش کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مسلم امہ کو اسرائیل سے زیادہ ایران نے نقصان پہنچایا ہے۔ یاد رہے یہود و نصاریٰ جب کسی اسلامی ریاست پر حملہ آور ہوتے ہیں تو وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اس اسلامی ریاست کے مسلمان اہلسنت حنفی، شافعی، حنبلی، مالکی ہیں یا پھر اہل تشیعہ۔ فرقہ پرستی کو ہوا دینے والے ایسے جذباتی افراد کے لئے بس یہی دعا ہے کہ اللہ کریم ان کو ہدایت نصیب فرمائے، آمین۔
نجانے پاکستانیوں کی باہمی محبت، بھائی چارہ اور وطن سے محبت کہاں چلی گئی؟ معاملہ کوئی بھی ہو، ہم نے اپنی جماعت ہی کو فوقیت دینی ہے۔ اگر آج ہماری جماعت طاقتور حلقوں کے ساتھ کھڑی ہے تو ہمیں وطن اور اس کی پالیسیاں بھی عزیز ہیں۔ دوسری صورت میں معاملات اُلٹ ہونگے۔ بہت پہلے عرض کیا تھا کہ وطن عزیز میں مذہبی فرقہ پرستی کی نسبت سیاسی فرقہ پرستی اور شخصیت پرستی بہت آگے نکل چکی ہے۔ ہمارے لئے ہماری جماعت، لیڈرشپ وطن عزیز سے اُوپر جاچکی ہے۔
یاد رہے ماضی میں وطن عزیز کے خلاف پروپیگنڈا کرنے میں کراچی سے وابستہ ایک سیاسی جماعت کے قائد پیش پیش ہوا کرتے تھے اور پاکستان کے معاشی دل یعنی کراچی کے پُرامن ماحول کو تہس نہس کر دیا کرتے تھے۔ الحمدللہ، پاکستانی ریاست کی حکمت عملی اور طاقت نے اس فتنے کا منہ بخوبی بند کیا ہوا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ حالات میں ایسی شرپسند عناصر جو پاکستانی ریاست کے برخلاف سرگرم عمل ہیں، انکی سرکوبی کے لئے پاکستانی قوانین کے تابع سخت ترین اقدامات لئے جائیں اور انکو قرار واقعی سزائیں دلوائی جائیں۔ اسی طرح پاکستان کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں چاہے وہ حکومتی بینچوں پر براجمان ہوں یا پھر حزب اختلاف بینچوں پر، ہر جماعت کی عقلمند اور محب وطن لیڈرشپ کو آگے آنا ہوگا، ان جماعتوں پر لازم ہوگا کہ ہر صورت ریاست پاکستان کو مقدم رکھیں، پارٹی منشور اور قواعد و ضوابط کو ازسر نو ترتیب دیں۔ کہ ایسے معاملات جنکی بدولت ریاست پاکستان کمزور ہو ان معاملات پر پروپیگنڈا کرنے والے پارٹی رہنماں اور کارکنوں کی حوصلہ شکنی کریں اور اپنی جماعتوں نے نکال باہر کریں۔
کاش ہماری سیاسی و مذہبی جماعتوں کی لیڈرشپ ہم وطنوں کو توڑنے اور فرقہ واریت کی بجائے جوڑنے کا درس دیں۔ کیونکہ اس وقت ریاست پاکستان کو قومی یکجہتی کی اشد ضرورت ہے۔

 

جلتی پر تیل
تحریر : صفدر علی حیدری
امریکہ کے ایران پر حملے سے دنیا میں ہلچل مچ گئی ہے۔ جو لوگ جنگ کے تھم جانے کی آس لگائے بیٹھے تھے ، ان کی امیدوں کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔ یہ امریکی حملہ کسی حد تک غیر متوقع تھا۔ شاہد ہی اس وقت اس کی توقع کر رہا ہو۔
ایران نے ردعمل کے طور پر ’ این پی ٹی‘ معاہدے سے نکلنے کی دھمکی دے دی ہے۔
اسرائیلی حملوں کے بعد تہران کی جانب سے ایک ایسا اعلان سامنے آیا ہے جس نے دنیا کو چونکا دیا ہے، اور اس کے اثرات صرف خطے ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی گہرے پڑ سکتے ہیں۔ ایران نے اعلان کیا ہے کہ وہ نیوکلیئر نان پرافیلیریشن ٹریٹی (NPT)سے دست بردار ہونے پر غور کر رہا ہے ۔
یہ دھمکی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اسرائیل نے ایران کی فوجی اور جوہری تنصیبات پر تاریخی نوعیت کے حملے کیے، جن میں کئی جوہری سائنسدان، سکالر اور اعلیٰ فوجی افسر مارے گئے۔
این پی ٹی ایک عالمی معاہدہ ہے جس کا مقصد دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلائو کو روکنا ، ایٹمی توانائی کے پرامن استعمال کو فروغ دینا، اور ایٹمی طاقت رکھنے والے ممالک کو اسلحے کی دوڑ سے باز رکھنا ہے۔
یہ معاہدہ 1968ء میں دستخط کے لیے کھلا اور 1970ء میں نافذ ہوا۔ امریکہ، برطانیہ اور سوویت یونین ( موجودہ روس) نے اس کی ابتدا کی۔
جو ممالک ایٹمی طاقت رکھتے ہیں، وہ غیر ایٹمی ممالک کو ایٹمی ہتھیار منتقل نہیں کریں گے۔
غیر ایٹمی ممالک ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔
تمام دستخط کنندگان کو پر امن ایٹمی توانائی کے حصول کا حق حاصل ہو گا بشرط یہ کہ وہ اقوام متحدہ کی ایٹمی نگرانی ایجنسی (IAEA)کی نگرانی کو قبول کریں گے۔
این پی ٹی کی ایک شق کے تحت کوئی بھی ملک ’ غیر معمولی حالات‘ کی صورت میں تین ماہ کے نوٹس کے ساتھ اس معاہدے سے الگ ہو سکتا ہے ۔
تہران کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ ایرانی پارلیمنٹ ایک بل پر کام کر رہی ہے جس کے تحت ایران NPTسے باضابطہ طور پر نکل سکتا ہے۔ اس حوالے سے ایرانی ترجمان اسماعیل بقائی نے کہا ’’ حالیہ حالات کے تناظر میں ہم ایک مناسب فیصلہ لیں گے۔ یہ ابھی ایک تجویز ہے اور آئندہ مراحل میں ہم پارلیمنٹ سے ہم آہنگی کریں گے‘‘۔
ایرانی صدر مسعود پزشکیاں نے بھی اس بات کو دہرایا کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانا نہیں چاہتا، اور اس کی ایٹمی سرگرمیاں پر امن مقاصد اور تحقیق تک محدود ہیں ۔ انہوں نے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے اُس فتوے کا حوالہ بھی دیا جس میں ہتھیارِ تباہیِ عامہ (WMDs)کو اسلامی طور پر حرام قرار دیا گیا ہے۔
اقوام عالم میں امریکی حملے پر خاص ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔ چینی مندوب نے اقوام متحدہ میں امریکی حملوں کی شدید مذمت کی ہے ۔
نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرز میں ایران اسرائیل تنازعے میں امریکی مداخلت پر بحث ہوئی۔
اجلاس میں روس، چین اور پاکستان نے سلامتی کونسل کے 15ارکان سے مطالبہ کیا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کے لیے ایک قرارداد منظور کریں۔
اسرائیل کے مستقل مندوب ڈینی ڈینی ڈینون نے کہا کہ پوری دنیا کو شکریہ کہنا چاہیے ٹرمپ کا ، جنہوں نے ایران پر حملہ کیا۔ انہوں نے ایران پر الزام لگایا کہ ایران نے مذاکرات کو تھیٹر میں تبدیل کر دیا تھا اور ٹرمپ نے وہ اقدام کیا جس کی ضرورت تھی۔
ایران کے مستقل مندوب امیر سعید ایراوانی نے امریکی کھلی جارحیت کی مذمت کی اور کہا کہ واشنگٹن نے من گھڑت اور بے بنیاد بہانے کے تحت حملہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کا یہ حملہ عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ ہے۔
قوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں پاکستانی مستقل مندوب، عاصم افتخار نے پاکستان کے اصولی موقف کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان یو این چارٹر کے مطابق عالمی امن اور سلامتی کے فروغ کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتا رہے گا۔
چین کے مستقل مندوب فو کانگ نے کہا کہ بیجنگ شدید مذمت کرتا ہے امریکی حملوں کی اور چین اس تنازعے میں امن کی کوششوں کو ترجیح دیتا ہے۔ چین نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ امریکہ کے حملے کی جانچ پڑتال کی جائے۔
روس کے مستقل مندوب نیبینزیا نے کہا کہ امریکہ نے پینڈورا باکس کھول دیا ہے اور واشنگٹن واضح طور پر سفارت کاری میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں مزید عدم استحکام پیدا ہو گا۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے امریکی حملوں کو ایک ایسی خطے میں ایک خطرناک موڑ قرار دیا جو پہلے ہی بے چین ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ عالمی برادری ایک اور تباہی کے چکر کو ختم کرے اور فوری طور پر امن کی کوششوں کو دوبارہ شروع کرے۔
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کا کہنا ہے کہ امریکا نے ایران کی پُرامن جوہری تنصیبات پر حملہ کر کے اقوامِ متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قانون اور این پی ٹی (NPT)کی سنگین خلاف ورزی کی ہے۔ عباس عراقچی نے سوشل میڈیا پر جاری کردہ اپنے بیان میں کہا کہ گزشتہ صبح کے واقعات نہایت افسوسناک اور قابلِ مذمت ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اقوامِ متحدہ کے ہر رکن کو اس انتہائی خطرناک، غیر قانونی اور مجرمانہ طرزِ عمل پر تشویش میں مبتلا ہونا چاہیے۔
اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے تحت ایران اپنی خودمختاری، مفادات اور عوام کے دفاع کے لیے تمام آپشن محفوظ رکھتا ہے۔ اس سے قبل اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے حملے سے متعلق کہا تھا کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملے اسرائیل سے مکمل رابطے کے ساتھ کیے گئے۔ واضح رہے کہ اتوار کی صبح امریکہ نے ایران کی فردو، نطنز اور اصفہان جوہری سائٹس کو نشانہ بنایا جس سے متعلق ٹرمپ نے سوشل میڈیا سائٹ ٹرتھ سوشل پر بیان جاری کیا۔
اس کے علاوہ ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ امریکی حملے سے قبل ہی جوہری تنصیات کو خالی کرا لیا گیا تھا۔
اگر ایران واقعی NPTسے نکلتا ہے تو
اقوام متحدہ کی نگرانی ختم ہو جائے گی۔
ایران کو IAEAکو اپنی تنصیبات کے معائنے کی اجازت دینے کی قانونی ذمہ داری نہیں رہے گی۔
ایٹمی ہتھیار بنانے کی سمت میں کوئی قدم خفیہ رکھا جا سکے گا، اور دنیا بے خبر رہے گی۔
اگرچہ ایران نے تاحال ایٹمی ہتھیار بنانے کا ارادہ ظاہر نہیں کیا، لیکن NPTسے نکلنے کا فیصلہ دنیا کو یہ اشارہ دے گا کہ ایران اس بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہا ہے۔
یہ فیصلہ NPTپر کیا اثر ڈال سکتا ہے؟
عالمی سطح پر NPTکو جوہری اسلحہ کنٹرول کا سب سے اہم ستون سمجھا جاتا ہے۔ 2025ء تک دنیا کے 191ممالک اس معاہدے کے رکن ہیں۔ مگر چار ممالک بھارت، پاکستان، اسرائیل اور شمالی کوریا اس معاہدے سے باہر ہیں۔
اگر ایران اس معاہدے سے نکلتا ہے اور ایٹمی ہتھیار بنانا شروع کرتا ہے، تو
خطے میں ایٹمی اسلحے کی دوڑ شروع ہو سکتی ہے۔
دیگر ممالک بھی این پی ٹی چھوڑنے یا ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے پر غور کر سکتے ہیں۔
دنیا میں اسلحے کے عدم پھیلائو کا تصور کمزور ہو جائے گا۔
ایران کا کہنا ہے کہ اسرائیل خود واحد مشرقِ وسطیٰ کا ایٹمی طاقت ہے، لیکن نہ تو اس نے کبھی ایٹمی ہتھیاروں کا اعتراف کیا، نہ ہی وہ NPTکا حصہ ہے۔ ایران کا یہ بھی الزام ہے کہ آئی اے ای اے کا حالیہ موقف سیاسی ہے اور اسی کے نتیجے میں اسرائیل کو ایران پر حملے کا حوصلہ ملا۔
اقوام متحدہ کی ایٹمی ایجنسی (IAEA)نے ایران پر شفافیت کی کمی کا الزام لگایا ہے اور کہا ہے کہ ایران نے بعض خفیہ مقامات پر یورینیم کے ذرات کی موجودگی کی وضاحت نہیں کی۔ ساتھ ہی ایران پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ ہائی انریچڈ یورینیم کی خطرناک مقدار جمع کر رہا ہے۔
ایران نے ان الزامات کو سیاسی قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ تمام معائنے اور پابندیاں ماضی میں طے شدہ معاہدوں کے تحت کی جا رہی ہیں۔
جوہری ماہر کیلسے ڈیوینپورٹ نے الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ وقت سفارت کاری کو ایک اور موقع دینے کا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کو دوبارہ ایران میں جانے دیا جائے۔ امریکہ، چین اور روس کو ایران کو این پی ٹی سے نکلنے سے روکنے کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ این پی ٹی کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے کیونکہ اس کے بغیر دنیا زیادہ غیر محفوظ ہو گی۔
ایران کا این پی ٹی چھوڑنے کا فیصلہ صرف ایک قانونی قدم نہیں، بلکہ ایک تزویراتی اعلان ہوگا۔ یہ فیصلہ عالمی ایٹمی نظام، خطے کی سیکیورٹی اور دنیا کے مستقبل کے لیے شدید اثرات رکھتا ہے ۔ ایسے وقت میں جب مشرقِ وسطیٰ دھماکوں کی زد میں ہے ، یہ معاہدے چاہے کتنے ہی پرانے یا ناکام لگیں دنیا کو ایٹمی تباہی سے بچانے کی آخری امید ہو سکتے ہیں ۔
اگر ایران نکلتا ہے ، تو پھر شاید بہت سے ممالک سوچیں گے: ’’ اگر وہ نکل سکتے ہیں، تو ہم کیوں نہیں؟‘‘۔
اسرائیل اور ایران جنگ کے دوسرے ہفتے میں امریکہ کی جانب سے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے نے تہران کے لیے ایک نیا مسئلہ پیدا کر دیا ہے۔ ان حملوں سے یہ سوال بھی شدت سے اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ کیا واقعی امریکہ اس مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ۔
ایران کی جانب سے ان حملوں کو اقوامِ متحدہ چارٹر کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایران امریکی حملے کا بھرپور جواب دے گا جس کے وقت اور نوعیت کا فیصلہ ایرانی افواج کریں گی۔
امریکہ کے اندر یہ توانا آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ پارلیمنٹ کی اجازت کے بغیر ایسے کسی حملے کا کوئی جواز نہیں ہے
ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ اگر تہران نے جوابی کارروائی کی تو مزید طاقت سے حملہ کیا جا سکتا ہے۔
اس وقت ایران کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے جو سب سے اہم سوالات ہیں وہ یہ کہ کیا انھیں امریکی مفادات کے خلاف انتقامی کارروائی کے ذریعے تنازع کو بڑھاوا دینا چاہیے یا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مذاکرات کی پیش کش مان لینی چاہیے ، جس کا عملی طور پر مطلب یہ ہے کہ ایران کے اندر تمام جوہری افزودگی ترک کر دی جائے؟
یہ اندرونی بحث ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب بہت سے سینئر ایرانی کمانڈر چوکنے رہ کر سوچ رہے ہوں گے کہ آیا وہ اسرائیل کے فضائی حملے کا اگلا نشانہ بننے والے ہیں یا کمرے میں موجود کوئی شخص پہلے ہی اسرائیل کی غیر ملکی خفیہ ایجنسی موساد کے ساتھ مل کر انھیں دھوکہ دے چکا ہے ۔
یاد رہے کہ عراق، بحرین، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، کویت، اردن سمیت شام میں بھی امریکی فوجی اڈے موجود ہیں اور یہ تمام ہی ایرانی بیلسٹک میزائلوں کی رینج میں ہیں۔ ایک اہم اڈہ قطر میں موجود العدید فضائی اڈہ ہے جبکہ بحرین میں بحری اڈے پر امریکی بحریہ کا پانچواں فلیٹ موجود ہے۔
2020ء میں ایران نے عراق میں الاسد فضائی اڈے کو اس وقت نشانہ بنایا تھا، جب ٹرمپ نے پاسداران انقلاب کے جنرل قاسم سلیمانی کو ہلاک کرنے کا حکم دیا تھا۔ تاہم تہران کی جانب سے حملے سے قبل امریکہ کو خبردار کر دیا گیا تھا اور اس حملے میں ہلاکتیں نہیں ہوئی تھیں جسے ایک علامتی ردعمل کے طور پر دیکھا گیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ اس بار بھی تہران کی جانب سے ایسی ہی حکمت عملی اپنائی جائے ۔ تاہم موجودہ تنائو کی صورتحال میں ایران کی جانب سے غیر عسکری امریکی اہداف، جیسا کہ خطے میں امریکی سفارت خانوں، کو بھی ہدف بنایا جا سکتا ہے۔
ایران میں سخت گیر عناصر ایک بار پھر آبنائے ہرمز کو بند کر دینے کی بات کر رہے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ ایسا کرنے سے عالمی منڈی میں گہرے اثرات مرتب ہوں گے اور امریکی معیشت متاثر ہو گی۔
آبنائے ہرمز کو بند کرنے کے لیے بحری مائنز، کروز میزائل، ساحلی دفاعی نظام سمیت پاسداران انقلاب کے پاس بڑی تعداد میں موجود تیز رفتار حملہ آور کشتیاں استعمال کی جا سکتی ہیں۔
تاہم آبنائے ہرمز کی بندش کا ایران کو نقصان بھی ہو سکتا ہے کیوں کہ ایسا کرنے سے تہران اپنے سب سے بڑے تجارتی شراکت دار چین سے تعلقات کو بھی چوٹ پہنچائے گا جو ایران سے تیل خریدنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
اسرائیل کے خلاف جنگ کے دوران ایرانی حکومت نے اسرائیل کے شہروں اور عسکری اڈوں پر میزائل حملے کیے ہیں اور اب تک ایسی کسی کارروائی سے گریز کیا تھا جس سے امریکی اڈے متاثر ہوں۔
تاہم اگر موجودہ جنگ طویل ہوتی ہے تو ایران کو اسرائیل کی جانب داغے جانے والے میزائلوں کی تعداد میں کمی لانا پڑ سکتی ہے۔ پہلے دن ایران نے ڈیڑھ سو میزائل داغے تھے جبکہ حالیہ دنوں میں یہ تعداد تیس ہو چکی ہے۔
دوسری جانب امریکہ کے خلاف کارروائی سے ایران کو دو محاذوں پر لڑنا ہو گا اور امریکہ کی جوابی کارروائی کا سامنا بھی کرنا ہو گا جو ایرانی حکومت کے مسائل کو بڑھا سکتا ہے۔
ایسے میں ایران کی حکومت یقیناً اپنی بقا کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی امریکہ کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کرے گی۔
خطے میں آگ بھڑک رہی ہے۔ یہ جنگ ثابت کر رہی ہے کہ شمالی کوریا چین اور پاکستان کا ایٹمی ہتھیار بنانے کا فیصلہ درست تھا ورنہ اب تک تمام ممالک پر حملہ ہوچکا ہوتا۔ ہمیں اپنے خطے کے ممالک کے ساتھ پرانی رنجشیں بھول کر ہنگامی بنیادوں ہر دفاعی تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے۔
ایران کے سپریم لیڈر کے الفاظ انتہائی اہم ہیں، انہوں نے کہا ہے کہ اگر میں مارا جائوں تو رونا نہیں ہے خوش ہونا ہے کہ ہم نے مزاحمت کی ہے۔ میں میری فوج اور میری عوام ہم لڑ کر مرے ہیں، ہم نے یہودیوں اور امریکیوں کا مقابلہ کیا ہے، ہم نے کسی سے مدد نہیں مانگی، ہم ڈٹ کر کھڑے ہیں، ہم لڑے ہیں، اسلام کے لیے اور میں روز قیامت اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر فخر کے ساتھ یہ بات کہوں گا کہ یا اللہ میں اسلام کے لیے لڑا تھا، میں لڑ کر مرا ہوں، میں ڈرا نہیں ہوں، میں فقہ نہیں ہوں اور حسینی لڑتے ہیں، حسینی ڈرتے نہیں ہیں۔
بے اختیار قرآنی آیت یاد آتی ہے
’’ اے ایمان والو! صبر سے کام لو استقامت کا مظاہرہ کرو، مورچہ بند رہو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم کامیابی حاصل کر سکو‘‘ ۔
امریکہ نے جلتی پر تیل ڈالنے میں جلتی کی ہے وہ اس کے اپنے مفادات کو جلائے گی۔ ان شاء اللہ
دعا ہے کہ ایران کو اس جارحیت کے خلاف ایک تاریخی کامیابی نصیب ہو۔
جنگ سے تباہ حال اسرائیل پھر سے تعمیر ہو جائے گا لیکن جو اس کا غرور ٹوٹا ہے، کو اس کی غنڈہ گردی کا خاتمہ ہوا ہے اصل کامیابی یہی ہے۔
باقی جن لوگوں نے اس کے لیے نوبل پرائز کی تجویز دی ہے ان کے لیے چودہ توپوں کی سلامی۔

جواب دیں

Back to top button