Column

اپنی قیادت کو داد دیں

اپنی قیادت کو داد دیں
تحریر : تمل حسین ہاشمی

کئی مہینوں سے جاری جنگی صورتحال کو منہ دینا ہماری قیادت کی سمجھ داری، ہمت اور عقل مندی ہے، ویسے پرائی جنگ یا ڈائریکٹ محاذ کے جواب کا تجربہ کافی موجود ہے۔ کئی اندرونی اور بیرونی محاذوں پر کام کر چکے ہیں۔ سویت یونین سے لے کر امریکا بہادر تک کو بہتر حکمت عملی سے منہ دیا ہے۔ حالیہ تازہ پاک بھارت 4روزہ جنگ، اب ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بھی اپنے اختتام کے قریب دکھائی دیتی ہے۔ چند روز مزید جہاز اڑان بھریں گے اور پھر ہر سمت خاموشی چھا جائے گی، حالات معمول پر آنے لگیں گے۔ میں عسکری یا بین الاقوامی امور کا ماہر تجزیہ کار نہیں بلکہ میری چھٹی حس کی گواہی ہے۔ میں معاشی معاملات کو سمجھ لیتا ہوں ، اس پر رائے دینا بھی آسان لگتی ہے چنانچہ جنگوں پر تجزیہ تھوڑا مشکل کام ہے، ایران کی جنگ اسلامی ممالک کے لیے بہت اہم ہے، اس پر بات اس لیے ضروری ٹھہری ہے، کیوں ہم کلمہ گو ہیں۔ حالیہ امریکی حملہ اس بات کی تائید کر رہا ہے کہ دونوں ملکوں کی پسپائی کا وقت قریب ہے، لڑاکا طیارے اپنے اڈوں پر لوٹ جائیں گے، تلواریں نیام میں جائیں گی۔ سچ یہ ہے کہ ایران نے اسرائیل کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے، اسرائیل منتوں پر کھڑا ہے۔ ایران اسرائیل جنگ اب مزید طول نہیں پکڑے گی، اگر جنگ کو طول دیا گیا تو تیسری عالمی جنگ کے امکانات بڑھ سکتے ہیں، اس حوالے سے اقوام متحدہ بھی کہ چکا ہے۔ امن قائم رہے۔ ہمارے ہاں کے عوام تھوڑے جذباتی ہیں مگر ماضی یا حالیہ قیادت ملکی سلامتی پر بالغ نظر اور دانش مند ہے ۔ ہماری خوش نصیبی ہے کہ سلامتی محاذ پر تمام سماجی، سیاسی جماعتوں ایک پیج پر رہتی ہیں۔ گزشتہ سالوں میں سیاسی محاذ بہت گرم تھا لیکن اس صورتحال میں پاکستان تحریک انصاف اور دیگر جماعتیں موجودہ قیادت کے ساتھ کھڑی ہیں ۔ حکومتی اتحادی مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے ٹرمپ کی نوبل انعام کے لیے نامزدگی واپس لینے اور ایران کے حق میں آواز دینا بھی بنتا ہے۔ موجودہ بحران میں ہماری عسکری اور سیاسی قیادت نے جس حکمت و تدبر کا مظاہرہ کیا ہے، وہ قابلِ ستائش ہے۔ فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر کی قیادت اور عسکری کمانڈ کی متحرک حکمت عملی واقعی لائقِ تعریف ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہماری قیادت ایران مخالف محاذ کا سفارتی حل نکالنے میں کامیاب ہو جائے گی اور یہ حل نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر بھی تسلیم کیا جائے گا، یہاں تک کہ امریکا بھی خاموشی اختیار کر لے گا۔ بہت سے لوگ شاید اس رائے سے متفق نہ ہوں، مگر وقت ثابت کر دے گا کہ یہی موقف درست تھا۔ صدر ٹرمپ ماضی میں مشرقِ وسطیٰ کی بے مقصد اور لامتناہی جنگوں پر اپنی حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے اور وعدہ کرتے تھے کہ وہ امریکا کو غیر ملکی تنازعات سے دور رکھیں گے، مگر عملی صورتحال مختلف رہی ہے ۔ 13جون کو جب اسرائیل نے اچانک حملہ کیا تو اس وقت امریکا اور ایران کے درمیان جوہری مذاکرات جاری تھے۔ محض دو دن قبل صدر ٹرمپ نے بیان دیا تھا کہ ایران کو حملے سے قبل دو ہفتے دئیے جائیں گے تاکہ وہ مذاکرات کی میز پر آ جائے، لیکن یہ مدت بہت کم ثابت ہوئی۔ امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل ڈین کین نے اس کارروائی کو آپریشن میڈ نائٹ ہیمر کا نام دیا اور بتایا کہ اس کی منصوبہ بندی اور وقت سے صرف چند افراد باخبر تھے۔ یہ کارروائی مکمل راز داری میں انجام دی گئی۔ ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کے بعد ایرانی حکومت کی طرف سے کسی خاص ردعمل سامنے نہیں آیا۔ ایران کے اردگرد ممالک میں 19امریکی فوجی اڈے موجود ہیں، لیکن فی الوقت ایرانی ردعمل کا امکان کم نظر آتا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کی بنیاد پر یہ تجزیہ پیش کیا جا رہا ہے کہ ایران اسرائیل جنگ اپنے انجام کو پہنچنے والی ہے اور حملوں میں بتدریج کمی آتی جائے گی۔ موجودہ صورتحال کے پیش نظر ایک پیشگوئی کی جا سکتی ہے، تاہم یہ بات طے کرنا کہ آئندہ کیا ہوگا، فی الحال ممکن نہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق، امریکا کو صرف یہی حاصل ہوا کہ جدید اسلحہ، ٹیکنالوجی کی جانچ کو پہلی بار کر رہا ہے۔ امریکا نے ایران کی حساس تنصیبات کو نشانہ بنا کر اس مقصد کو حاصل کیا۔ باقی صورتحال مزید دنوں میں واضح ہو جائے گی ، ایران کی حمایت میں کئی اسلامی ممالک کھڑے ہیں اور روس بھی ایران کے حق میں ثابت قدم ہے۔ تمام صورتحال کتنے دنوں میں بہتر ہو گی اس حوالہ سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن جنگی صورتحال میں بہتری ہو گی۔

جواب دیں

Back to top button