امریکہ اور ایران کے درمیان نئی جنگ کی آگ ؟

امریکہ اور ایران کے درمیان نئی جنگ کی آگ ؟
تحریر : قادر خان یوسف زئی
امن کا دعویدار اب براہِ راست جنگ کے میدان میں اتر آیا ہے۔ وہ امریکہ جس کی جمہوریت، انسانی حقوق اور امن کی صدائیں دنیا بھر میں گونجتی ہیں، آج ایک بار پھر عالمی سطح پر طاقت کے بے رحمانہ مظاہرے میں مصروف ہے۔ یہ وہی امریکہ ہے جس نے افغانستان اور عراق کو تباہ حال چھوڑا، شام اور یمن میں پراکسی جنگوں کی آگ بھڑکائی، اور آج ایران کی جوہری تنصیبات پر براہِ راست حملہ کر کے مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئے ہولناک تنازعے کی بنیاد رکھ دی ہے۔ ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملہ دراصل محض عسکری کارروائی نہیں بلکہ ایک نئی عالمی جنگ کے دروازے پر زور دار دستک ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے دو ہفتے قبل ایران کو جو سفارتی مہلت دی تھی، اس پر عالمی برادری نے سکھ کا سانس لیا تھا۔ توقع تھی کہ امریکہ اپنی روایتی سفارتکاری کا راستہ اختیار کرے گا، مگر اچانک یوٹرن لیتے ہوئے جنگ کا اعلان کر دیا گیا۔ صدر ٹرمپ کے اس فیصلے نے عالمی سفارتکاری کی امیدوں پر پانی پھیر دیا اور امریکہ دوہری پالیسی کو دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے۔
یہ حملہ محض ایران کی جوہری صلاحیتوں کے خلاف نہیں بلکہ پورے خطے میں موجود توازن کے خلاف بھی ہے۔ ایران جو ایک طویل عرصے سے اقتصادی پابندیوں اور سفارتی دبا کا شکار ہے، اس پر اس طرح کی براہِ راست عسکری جارحیت خطے کو غیر مستحکم کرنے کے مترادف ہے۔ ایران نے اس حملے کے بعد واضح طور پر ردعمل دینے کا اعلان کر دیا ہے، اور اس ردعمل کی شدت سے عالمی طاقتیں بخوبی واقف ہیں۔ یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ امریکی صدر نے اس اقدام سے نہ صرف اپنی سفارتی مہلت کے وعدے کو توڑا بلکہ کانگریس کی منظوری کے بغیر جنگ شروع کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔ اس اقدام نے امریکی آئینی روایات پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے ایک ایسا فیصلہ کر ڈالا ہے جس کا خمیازہ عالمی امن کو دہائیوں تک بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ اب یہ سوال عالمی برادری اور امریکی عوام کے سامنے بھی موجود ہے کہ کیا صدر ٹرمپ کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ تنِ تنہا خطے کو جنگ کے منہ میں دھکیل دیں؟
ایران کی عسکری اور سیاسی قیادت اس حملے کے بعد نئی حکمت عملی ترتیب دے چکی ہے۔ ایران خطے میں اپنے اتحادیوں کے ذریعے جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں ایرانی پراکسی نیٹ ورک کی طاقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لبنان میں حزب اللہ، یمن میں حوثی باغی، عراق میں موجود عسکری گروہ اور شام میں ایران نواز ملیشیائیں خطے میں امریکی اور اسرائیلی مفادات کو شدید نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اس جنگ کے اثرات صرف ایران یا اسرائیل تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ لبنان، عراق، شام، یمن اور حتیٰ کہ پاکستان تک پھیل سکتے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مشرقِ وسطیٰ کا یہ بگڑتا ہوا منظر نامہ صرف بیرونی طاقتوں کی مداخلت کا نتیجہ نہیں بلکہ داخلی سطح پر امت مسلمہ کی ٹوٹ پھوٹ، نظریاتی تقسیم اور سیاسی توسیع پسندی کا عکس بھی ہے۔ ایران کا ’’ رِنگ آف فائر‘‘ منصوبہ، جس کے تحت عراق، شام، لبنان اور یمن میں اثر و رسوخ بڑھا کر ایک جغرافیائی و نظریاتی دائرہ بنایا گیا، بظاہر مغرب اور اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے نام پر پیش کیا جاتا ہے، لیکن درحقیقت اس منصوبے نے مسلم دنیا میں ایک اور خلیج پیدا کی ہے۔
یہ خلیج محض سیاسی نہیں، فرقہ وارانہ بنیادوں پر بھی اتنی گہری ہو چکی ہے کہ امت مسلمہ کا اجتماعی ضمیر اور وحدت کا تصور خالی خولی نعرہ بن کر رہ گیا ہے۔ ایران کے ان اقدامات نے عرب ریاستوں میں بے اعتمادی کو جنم دیا، جس کا فائدہ عالمی طاقتوں نے اٹھایا۔ آج جب ایران پر حملہ ہوتا ہے تو مسلم دنیا یکجا ہو کر ردعمل دینے سے قاصر ہے، کیونکہ انہیں ایران کی نیتوں پر بھی وہی شک ہے جو مغربی طاقتوں کی پالیسیوں پر ہے۔ امتِ مسلمہ کا درد بانٹنے والے اگر اپنے نظریاتی دائرے سے نکل کر وسیع تر وحدت کا تصور نہ اپنائیں تو پھر عالمی طاقتیں بار بار ہمیں اسی طرح تنہا، منتشر اور غیر موثر پائیں گی، جیسا کہ آج ہو رہا ہے۔
خطے کی دیگر طاقتیں بھی اب اس جنگ سے خود کو الگ نہیں رکھ سکتیں۔ روس یوکرین میں پہلے ہی مغربی دبا کا سامنا کر رہا ہے، لیکن ایران کے معاملے پر روس کے سفارتی و سیاسی مفادات واضح ہیں۔ دوسری جانب چین اس معاملے میں محتاط سفارتکاری کا راستہ اختیار کرے گا، مگر امریکہ کے اس جارحانہ اقدام کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ چین ایران کے ساتھ وسیع اقتصادی شراکت داری رکھتا ہے اور اسے امریکہ کی براہِ راست مداخلت پر گہری تشویش لاحق ہوگی۔ خطے میں پاکستان سمیت دیگر ممالک بھی اس صورتِ حال سے براہِ راست متاثر ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کو اس بحران میں اپنی خارجہ پالیسی انتہائی احتیاط سے ترتیب دینی ہوگی، کیونکہ امریکہ اور ایران کے درمیان اس نئی جنگ کی آگ پاکستان کی سرحدوں تک پہنچ سکتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جنگیں کبھی مسائل کا حل نہیں رہیں۔ افغانستان، عراق اور شام کے حالات سے دنیا نے ابھی تک سبق نہیں سیکھا۔ امریکہ کی عسکری کارروائیوں نے نہ صرف ان ممالک میں استحکام کے بجائے بدامنی کو فروغ دیا بلکہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے رجحانات کو بھی مضبوط کیا۔ آج ایران کے خلاف اس براہِ راست کارروائی کا نتیجہ بھی اس سے مختلف نہیں ہوگا۔ یہ جنگ مزید تنازعات، مزید انتشار اور خطے میں وسیع تر عدم استحکام کی صورت اختیار کرے گی۔
اس تمام تر صورتحال میں اقوامِ متحدہ اور عالمی برادری کی خاموشی ایک اور المناک حقیقت ہے۔ عالمی ادارے محض مذمتی بیانات جاری کرنے کے بجائے عملی کردار ادا کرنے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ اگر عالمی برادری نے فوری طور پر اپنا مثر کردار ادا نہ کیا تو اس کے نتائج سنگین اور ناقابلِ واپسی ہوں گے۔ مشرقِ وسطیٰ کی سرزمین پہلے ہی کئی دہائیوں سے آگ اور خون کی قیمت چکا رہی ہے۔ یہ خطہ اب مزید کسی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ عالمی طاقتوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ عسکری طاقت کا مظاہرہ کبھی بھی دیرپا امن کا ضامن نہیں بن سکتا۔ مذاکرات اور سفارتکاری کے دروازے ہمیشہ کھلے رہنے چاہئیں، لیکن آج امریکہ نے ایران پر حملہ کرکے انہی دروازوں کو بند کرنے کی کوشش کی ہے۔ عالمی سیاست کی بساط پر طاقت کے کھیل میں ہمیشہ انسانی زندگیوں کو سب سے پہلے قربان کیا جاتا ہے۔ امریکی صدر کا یہ فیصلہ انسانی جانوں کی قیمت پر طاقت کی نمائش کے سوا کچھ نہیں۔ مگر اب دنیا کے لیے سوچنے کا مقام ہے کہ کیا تاریخ سے سبق سیکھنے کا وقت ابھی نہیں آیا؟۔