Column

ٹک ٹوکر ثناء یوسف کا قتل ایک سانحہ، ایک سماجی نوحہ

ٹک ٹوکر ثناء یوسف کا قتل ایک سانحہ، ایک سماجی نوحہ
تحریر: ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

پاکستان جیسے معاشروں میں خواتین کی خودمختاری، آزادیِ اظہار اور انکار کے حق کو صدیوں سے پدرشاہی نظام نے دبا رکھا ہے۔ جہاں عورت کے انکار کو توہین، اور اس کی شہرت کو غیرت کے منافی سمجھا جاتا ہے، وہاں انفرادی شناخت رکھنے والی خواتین اکثر نشانہ بنتی ہیں۔ ماضی میں قندیل بلوچ، نور مقدم، سائرہ بانو اور حال ہی میں چترال کی ثناء یوسف جیسے سانحات اسی معذور اور تنگ نظر ذہنیت کی تسلسل ہیں۔
29 مئی2008ء کو اسلام آباد میں پیدا ہونے والی ثناء یوسف نے ٹک ٹاک اور انسٹاگرام جیسے پلیٹ فارمز پر لاکھوں دل جیتے۔ وہ محض 17برس کی کم عمر میں ایک معروف انفلوئنسر اور ایم بی بی ایس کی طالبہ تھیں۔ ان کی آواز، انداز اور پختہ سوچ نوجوانوں خصوصاً لڑکیوں کے لیے متاثر کن تھی۔ وہ ایک ایسا چہرہ بن چکی تھیں جو پاکستان میں نئی نسل کی نمائندگی کرتا تھا ، وہ نسل جو سماجی حدود و قیود سے آگے بڑھنا چاہتی ہے۔
ٹک ٹوکر ثنا کا قتل ایک غیرت نہیں بلکہ ناقابل معافی جرم بھی ہے۔2جون 2025ء کو ان کی زندگی کا چراغ اسلام آباد میں گل کر دیا گیا۔ 22سالہ عمر حیات نے، جو ان سے یک طرفہ جذبات رکھتا تھا، انکار کو برداشت نہ کرتے ہوئے ان کے گھر میں گھس کر انھیں گولیاں مار دیں۔ رپورٹ کے مطابق ثناء یوسف کو سینے اور پیٹ میں گولیاں لگیں اور وہ تقریباً ایک گھنٹے تک درد میں مبتلا رہیں۔ آخرکار وہ جان کی بازی ہار گئیں۔
یہ صرف قتل نہیں تھا یہ انکار کے حق کا قتل تھا، یہ ایک پدرشاہی مزاج کی سوچ کی فتح تھی جس کے سامنے عورت کی خودمختاری ایک جرم ہے۔
عمر حیات کو فی الفور گرفتار کیا گیا، اسلحہ اور مقتولہ کا فون اس سے برآمد ہوا۔ اس نے اعترافِ جرم کیا اور جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل کر دیا گیا۔ عدالت نے شناختی پریڈ اور رپورٹ جمع کرانے کے احکامات جاری کیے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ عدالتی کارروائی کافی ہے؟ کیا یہ اس ذہنیت کا خاتمہ کر پائے گی جو روزانہ پاکستان میں درجنوں خواتین کو خاموشی سے نگل رہی ہے؟
اسلام آباد میں عورت مارچ کی جانب سے 5جون کو نیشنل پریس کلب کے باہر مظاہرہ کیا گیا۔ ’’ نہ کہنا میرا حق ہے‘‘، ’’ عزت کے نام پر قتل، سب سے بڑی بے غیرتی‘‘ جیسے نعرے بلند ہوئے۔ معاشرے کی باشعور اکثریت نے اس واقعے کو محض ایک شخص کا جرم نہیں، بلکہ پورے نظام کا استحصالی چہرہ قرار دیا۔
معروف فنکاروں جیسے ماہرہ خان، صبا قمر اور آئمہ بیگ نے بھی آواز اٹھائی، جبکہ سوشل میڈیا پر عوامی غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔
ثناء یوسف کا قتل محض فردِ واحد کی سنگدلی نہیں بلکہ معاشرتی خاموشی، تماش بینی اور بدترین تربیت کا شاخسانہ ہے۔ اس واقعے نے پاکستانی میڈیا اور ڈرامہ انڈسٹری پر بھی سوال اٹھائے ، جہاں خواتین کو مسلسل کمزور، مظلوم اور مردوں کی ملکیت کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔
سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر شہرت پانے والی خواتین کے لیے کوئی تحفظ موجود ہے؟ کیا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موجود خطرات کے خلاف کوئی ضابطہ کار ہے؟
ثناء یوسف کی موت نے ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم محض قاتل کو سزا دینے پر اکتفا نہ کریں بلکہ اس ذہنیت کا قلع قمع کریں جو عورت کے انکار کو اپنی مردانگی کی تذلیل سمجھتی ہے۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ اسکولوں اور کالجوں میں جنس، احترام اور حد بندی پر مبنی تعلیمی نصاب رائج کیا جائے۔ سوشل میڈیا پر ہراسانی کے خلاف قانونی تحفظات کو موثر بنایا جائے۔ عدالتی نظام کو بر وقت اور سخت فیصلے کرنے پر مجبور کیا جائے۔ عوامی سطح پر خواتین کے حقوق اور خودمختاری کو تسلیم کرنے کی مہمات چلائی جائیں۔
ثناء ایک فرد ہی نہیں بلکہ ایک علامت بھی تھی، چترال کی علامت اور امن کی علامت تھی۔ ثناء یوسف ایک نوجوان، باصلاحیت، تعلیم یافتہ اور پرعزم لڑکی تھیں۔ ان کی زندگی روشنی تھی اور ان کی موت ایک تیز تازی چنگاری بن گئی ہے۔ اگر ہم نے اس چنگاری سے انقلاب نہ پیدا کیا، تو آنے والی ثناء یوسفیں بھی اندھیرے میں گم ہو جائیں گی۔ میری پیاری ، میرے گائوں کی گڑیا ثناء یوسف نے اپنی کہانی ادھوری چھوڑ کر چلی گئی، مگر ان کے امن کا پیغام مکمل تھا، انکار عورت کا حق ہے اور اسے سننا مرد کی ذمہ داری، اگر وہ مرد کا بچہ ہے تو، لیکن انکار پر کسی کی جان لینا بزدلی ہے۔

جواب دیں

Back to top button