Column

نمک

نمک
تحریر : علیشبا بگٹی
ایک بار کا ذکر ہے کہ ایک بادشاہ کی تین بیٹیاں تھیں۔ ایک دن بادشاہ نے اپنی تینوں بیٹیوں کو بلایا اور کہا ’’ تم سب مجھے کتنی محبت کرتی ہو؟‘‘۔ سب سے بڑی بیٹی نے کہا ’’ ابا حضور۔ میں آپ سے سونے جتنا پیار کرتی ہوں‘‘۔ دوسری بیٹی بولی ’’ میں آپ سے ہیرے جواہرات جتنا محبت کرتی ہوں‘‘۔”جب چھوٹی بیٹی کی باری آئی تو اس نے مسکرا کر کہا۔ "ابا جان میں آپ سے نمک جتنا محبت کرتی ہوں‘‘۔ یہ سن کر بادشاہ غصے سے آگ بگولا ہوگیا’’ نمک؟، نمک جیسی سستی چیز سے میری محبت کا موازنہ کیا؟ نکلو میرے محل سے‘‘۔ بادشاہ نے اپنی چھوٹی بیٹی کو محل سے نکال دیا۔ وہ بیچاری جنگل میں جا پہنچی۔ کچھ عرصے بعد ایک دوسرے بادشاہ کے بیٹے سے اس کی شادی ہوگئی۔ نئی زندگی شروع ہوئی۔ اتفاق سے ایک دن اس بادشاہ یعنی اس کے والد کو اس نئی ریاست میں دعوت پر بلایا گیا۔ بادشاہ خوشی خوشی دعوت میں آیا۔ لیکن کھانے میں کچھ عجیب تھا۔ ہر کھانے کا ذائقہ پھیکا تھا۔ نہ مزہ، نہ لذت۔ بادشاہ نے حیران ہوکر پوچھا ’’ یہ کیسا کھانا ہے؟ ذائقہ کیوں نہیں؟‘‘۔ میزبان نے جواب دیا۔ ’’ جناب۔ اس کھانے میں نمک نہیں ڈالا گیا‘‘۔ تب چھوٹی بیٹی سامنے آئی اور کہا ’’ ابا جان۔ آپ کو آج پتہ چلا کہ نمک کی کیا قیمت ہوتی ہے۔ میں نے کہا تھا کہ میں آپ سے نمک جتنا پیار کرتی ہوں، کیونکہ نمک کے بغیر سب کچھ بے ذائقہ اور بے معنی ہوتا ہے‘‘۔ یہ سن کر بادشاہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا اور بیٹی سے معافی مانگی۔ اس دن کے بعد بادشاہ نے جان لیا کہ دنیا میں چھوٹی چھوٹی چیزوں کی کتنی بڑی قدر ہوتی ہے۔ زندگی میں بعض اوقات جو چیزیں ہمیں معمولی لگتی ہیں، وہی دراصل سب سے قیمتی ہوتی ہیں۔ نمک اگرچہ ایک معمولی چیز نظر آتی ہے، لیکن اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ زندگی میں بھی چھوٹی چھوٹی چیزوں اور نعمتوں کی قدر کرنی چاہیے کیونکہ انہی چیزوں سے زندگی کا اصل حسن قائم ہوتا ہے۔
دنیا میں بے شمار نعمتیں ایسی ہیں جن کی اہمیت کا اندازہ ہمیں تب ہوتا ہے جب وہ نہ ہوں۔ انہی نعمتوں میں سے ایک نعمت ’’ نمک‘‘ ہے۔ نمک کو عام طور پر معمولی چیز سمجھا جاتا ہے، لیکن اگر کھانے میں نمک نہ ہو تو بہترین کھانے بھی پھیکے لگتے ہیں۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ ہمیشہ نمک جیسا منفرد کردار رکھیں۔ اس کی موجودگی محسوس نہیں ہوتی، لیکن اس کی عدم موجودگی سب کچھ بناتی ہے۔ بے ذائقہ۔۔ نمک جیسی چھوٹی چیز بھی پوری زندگی کا ذائقہ بدل سکتی ہے۔ زندگی کی مثال بھی نمک کی طرح ہے۔ جیسے کھانے میں ذائقہ نمک سے آتا ہے، ویسے ہی زندگی میں اخلاق ، ہمدردی ، وفاداری، سچائی اور دیانت داری وہ خوبیاں ہیں جو زندگی کے ذائقے کو مکمل کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اردو زبان میں ایک مشہور محاورہ ہے ’’ نمک حلال‘‘۔ اس محاورے سے وفاداری، دیانت داری اور احسان شناسی مراد لی جاتی ہے۔ ہمیں نمک کی طرح وفادار اور سچ بولنے والا انسان بننا چاہیے تاکہ دنیا ہمیں بھی ’’ نمک حلال‘‘ کہہ کر یاد رکھے۔ اس دُنیا میں نمک سے زیادہ تاثیر بھی کسی دوسری چیز کی نہیں ہے اس نمک کو اگر کوئی نمک حلال کھا لے تو وہ مالک کے لئے گولی بھی کھا سکتا ہے۔ مگر کچھ لوگوں کی عادت ہے وہ بس زخموں پر نمک پاشی کرتے رہتے ہیں۔ شعر ہے کہ
جہاں پہ پینے پلانے کا اہتمام نہ ہو
کسی شریف کو ایسی جگہ پہ شام نہ ہو
میں دوستی کا ہر اک بڑھتا ہاتھ چومتا ہوں
بس ایک شرط ہے بندہ نمک حرام نہ ہو
نمک دو کیمیائی عناصر سوڈیم اور کلورین کے کیمیائی تعامل سے حاصل ہوتا ہے۔ اور اس کا کیمیائی فارمولا یا سائنسی نام سوڈئیم کلورائیڈ ہے۔ تمام زندہ اجسام کی بقاء کے لیے یہ بہت اہم عناصر ہیں۔ انسان کے زیرِ استعمال نمک کئی صورتوں میں بنتا ہے۔ ناخالص نمک جیسے سمندری نمک، خالص نمک خوردنی نمک اور آیوڈین مِلا نمک۔ یہ قلمی ٹھوس اور رنگ میں سفید یا خاکستری ہوتا ہے۔ یہ سمندری آب یا چٹانوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ زمین کی ایک قیمتی معدنیات ہے جو سمندری پانی اور زیرِ زمین ذخائر سے حاصل کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے پنجاب میں موجود کھیوڑہ کی کانیں نمک کے بڑے ذخائر میں شمار ہوتی ہیں، جو دنیا بھر میں مشہور ہیں۔
نمک ایک معدنی غذا ہے جو حیواناتی حیات اور انسانی صحت کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ یہ جسم میں پانی کا توازن برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے اور اعصابی نظام کو درست طریقے سے کام کرنے کے قابل بناتا ہے۔ لیکن نمک کا زیادہ استعمال صحت کے لیے نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔ زیادہ نمک کھانے سے بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے جو دل اور گردوں کی بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں بھی نمک کی اہمیت کا ذکر ملتا ہے۔ حضرت محمد ٔ کھانے سے پہلے اور بعد میں نمک کھانے کو پسند فرماتے تھے تاکہ معدے میں موجود کیڑے ختم ہوں اور بیماریوں سے تحفظ حاصل ہو۔ نمک صرف خوراک کا ذائقہ بڑھانے کے لیے ہی نہیں بلکہ کھانے کو محفوظ رکھنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ پرانے زمانے میں جب فریزر ایجاد نہیں ہوئے تھے تو گوشت اور دیگر چیزوں کو نمک لگا کر محفوظ کیا جاتا تھا تاکہ وہ خراب نہ ہوں۔
شاعر کہتا ہے کہ
یوں تو ہیں میرے ارد گرد اپنے بے اشعار
لیکن وفا ہے کیا یہ انہیں کچھ خبر نہیں
آتے ہے میرے حصے میں اکثر نمک حرام
عارف میرے نمک میں ہی شاید اثر نہیں

جواب دیں

Back to top button