Column

امن کے نعروں کے پیچھے ٹرمپ کا خوفناک ایجنڈا

امن کے نعروں کے پیچھے ٹرمپ کا خوفناک ایجنڈا
تحریر : عقیل انجم اعوان
ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارت کے ابتدائی دنوں میں بارہا اعلان کیا تھا کہ وہ امریکہ کو مزید جنگوں میں نہیں جھونکیں گے اور اپنی توانائیاں ملک کے اندرونی مسائل پر مرکوز رکھیں گے مگر حالیہ حملے نے ان کے تمام دعووں کو یکسر جھوٹا ثابت کر دیا ہے۔ ایران کی ایٹمی تنصیبات پر امریکی بمباری نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے بلکہ اس نے پورے مشرق وسطیٰ کو ایک نئی تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ جوہری عدم پھیلائو کے معاہدے پر دستخط کرنے والی ریاست پر حملہ کر کے امریکہ نے عالمی برادری کو یہ واضح پیغام دے دیا ہے کہ وہ اب کسی بھی قانون یا معاہدے کا پابند نہیں رہا۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ دو بڑی جوہری قوتوں نے مل کر ایک غیر جوہری ملک کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنایا ہو اور یہ عمل نہ صرف ایک نئی جنگ کی بنیاد رکھتا ہے بلکہ عالمی امن کے لیے بھی ایک سنگین خطرے کی گھنٹی ہے۔ امریکہ کے اس اقدام نے نہ صرف ایران بلکہ دیگر کئی ممالک کو بھی مجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنی خود مختاری کے تحفظ کے لیے روایتی دفاعی سوچ سے ہٹ کر نئے راستے تلاش کریں۔ حملے سے چند روز قبل یہ تاثر عام تھا کہ شاید امریکہ آخری لمحے میں سفارتکاری کا راستہ اپنائے گا اور خطے کو ایک بڑی تباہی سے بچا لیا جائے گا خود ٹرمپ نے عندیہ دیا تھا کہ فیصلہ اگلے دو ہفتوں میں ہوگا گویا بات چیت کے دروازے ابھی بند نہیں ہوئے مگر یہ تمام باتیں ایک سیاسی چال سے زیادہ نہ تھیں۔ جب فردو، نطنز اور اصفہان میں بمباری ہوئی تو یہ ظاہر ہو گیا کہ امن کے تمام دعوے محض ایک دھوکہ تھے۔ ٹرمپ کی جانب سے رات گئے خطاب میں حملے کو شاندار کامیابی قرار دینا اور یہ دعویٰ کرنا کہ ایرانی ایٹمی تنصیبات مکمل طور پر تباہ کر دی گئی ہیں صرف آگ پر تیل ڈالنے کی مترادف ہے ساتھ ہی انہوں نے ایران کو دھمکی دی کہ اگر کسی قسم کی جوابی کارروائی کی گئی تو امریکہ کہیں زیادہ شدت سے جواب دے گا۔ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اسے بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے نتائج نہایت دور رس اور خطرناک ہوں گے، ان کا کہنا تھا کہ ایران اپنے دفاع کے لیے ہر آپشن محفوظ رکھتا ہے، ایران نے یہ بھی عندیہ دیا ہے کہ وہ اپنا ایٹمی پروگرام ترک نہیں کرے گا بلکہ ممکن ہے کہ وہ عالمی جوہری ادارے کے ساتھ تعاون بھی ختم کر دے، اس کے علاوہ تہران نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ اگرچہ ایران کو اس امکان کا بخوبی اندازہ تھا کہ امریکہ کسی بھی لمحے عسکری کارروائی کر سکتا ہے مگر اب صورتحال اس نہج پر آ چکی ہے جہاں تہران کے لیے فیصلے کی ہر راہ نقصان دہ دکھائی دیتی ہے اگر ایران کھل کر جوابی کارروائی کرتا ہے تو اسے ایک بڑی جنگ میں داخل ہونا پڑے گا اور اگر وہ خاموشی اختیار کرتا ہے تو اپنے عوام اور خطے میں اپنے حلیفوں کے سامنے کمزور دکھائی دے گا چنانچہ ایران کی حکمت عملی یہی دکھائی دیتی ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف جاری محدود نوعیت کی کارروائیاں جاری رکھے اور امریکہ کو مزید کسی جارحیت کا جواز نہ دے۔
اس پورے بحران کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ سفارتکاری پر سے اعتماد مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے جب ایک امریکی صدر خود عالمی قوانین کی دھجیاں اڑاتا ہے تو پھر دنیا کے کسی کونے میں کوئی ملک مذاکرات پر کیوں کر اعتبار کرے گا خود ٹرمپ نے اپنے عمل سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ امن کے نعروں کے پیچھے جنگ کے ایجنڈے کو چھپائے بیٹھے تھے۔ اب ایران سمیت کئی ممالک کے لیے یہ تصور ناقابل قبول ہو چکا ہے کہ امریکہ کے ساتھ کوئی بھی مفاہمتی عمل قابل بھروسہ ہو۔ اب ایران کے پاس آبنائے ہرمز بند کرنے کا آپشن موجود ہے جس کے ذریعے عالمی تیل کی رسد بری طرح متاثر ہو سکتی ہے اور توانائی کا عالمی بحران پیدا ہو سکتا ہے مگر ایران کے لیے یہ اقدام بھی بیک فائر کر سکتا ہے۔ اس لیے غالب امکان یہی ہے کہ تہران فی الحال ٹرمپ کو مزید جارحیت کا جواز دینے سے گریز کرے گا۔ ادھر ٹرمپ کا یہ حملہ خود ان کے سیاسی مستقبل پر بھی ایک سائے کی مانند چھا گیا ہے ایک جانب انہوں نے اپنے ووٹرز سے کیے گئے وعدوں کی صریح خلاف ورزی کی ہے تو دوسری جانب امریکہ کو ایک نئی جنگ کے کنارے پر لا کھڑا کیا ہے۔ ٹرمپ کے ناقدین اب یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ آیا ان کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع ہونی چاہیے، کیا انہوں نے اپنے ذاتی اور سیاسی مفاد کی خاطر ایک ایسی کارروائی کی جو امریکی عوام کی مرضی کے خلاف تھی؟ امریکی ایوان نمائندگان میں کئی اراکین اس امکان کا جائزہ لے رہے ہیں کہ ٹرمپ نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا اور کانگریس کی منظوری کے بغیر ایک بڑی عسکری کارروائی کی جس کے سنگین اثرات امریکہ کے اندر اور باہر دیکھے جا سکتے ہیں۔
معاشی لحاظ سے بھی یہ حملہ امریکہ کے لیے مہنگا سودا ثابت ہو سکتا ہے، پہلے ہی امریکی معیشت افراط زر اور قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے اور اب ایک نئی جنگ کے مالی بوجھ نے اقتصادی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ تیل کی عالمی قیمتوں میں فوری اضافہ دیکھا گیا ہے جس کے براہ راست اثرات پوری دنیا پر پڑیں گے، اسٹاک مارکیٹ میں گراوٹ اور سرمایہ کاروں کی بے چینی بھی بڑھ رہی ہے بین الاقوامی مالیاتی ادارے خبردار کر رہے ہیں کہ اگر جنگ طول پکڑتی ہے تو امریکہ کو دفاعی اخراجات کے لیے مزید قرض لینا پڑے گا جس سے اقتصادی استحکام مزید کمزور ہو گا ۔ یہ بات اب قریباً واضح ہو چکی ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کی مشترکہ جارحیت نے ایران کو اُس راستے پر دھکیل دیا ہے جہاں وہ بالآخر ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی کوشش کر سکتا ہے جب ایک ملک اپنی دفاعی تنصیبات کو غیر محفوظ سمجھنے لگے اور سفارتکاری پر سے اس کا اعتبار اٹھ جائے تو اس کے پاس ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل ہونے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچتا، اگر ایسا ہوا تو یہ بین الاقوامی سفارتکاری کی ایک بدترین ناکامی ہو گی، جس کا الزام براہ راست امریکہ اور اسرائیل پر عائد ہو گا۔ ٹرمپ کی جانب سے کہا گیا کہ وہ اسرائیلی وزیر اعظم کے ساتھ ایک ایسی ٹیم کی مانند کام کر رہے ہیں جیسا پہلے کبھی نہ کیا گیا تھا اور یہی بات اس پورے بحران کا نچوڑ ہے۔ ایران پر اسرائیل کے بلااشتعال حملے سے چند روز قبل امریکہ اور ایران کے درمیان عمان میں مذاکرات کی ایک اور نشست طے تھی، مگر عین اسی وقت حملہ کر کے اسرائیل نے وہ سفارتی کوشش تباہ کر دی۔ ٹرمپ نے اعتراف کیا کہ انہیں اس حملے کا پہلے سے علم تھا مگر انہوں نے اسے روکنے کے لیے کوئی قدم نہ اٹھایا، بلکہ بالواسطہ اسے اپنی منظوری دے دی۔ ایران کے وزیر خارجہ کا کہنا بالکل درست تھا کہ جب ہم امریکہ سے مذاکرات کر رہے تھے تو اسرائیل نے سفارتکاری کو تباہ کر دیا اور جب ہم یورپ سے بات کر رہے تھے تو امریکہ نے خود اس کوشش کو سبوتاژ کر دیا۔
موجودہ حالات تیزی سے بدل رہے ہیں اور کوئی حتمی پیش گوئی ممکن نہیں، مگر اگر امریکہ نے اسی روش پر چلتے ہوئے ایران کو مذاکرات سے مکمل مایوس کر دیا تو ممکن ہے تہران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول کی جانب بڑھنے کے سوا کوئی اور راستہ نظر نہ آئے اور اگر ایسا ہوا تو دنیا ایک ایسے خطرناک مرحلے میں داخل ہو جائے گی، جس سے نکلنا ممکن نہیں ہوگا اور یہ سب کچھ اس شخص کی سربراہی میں ہو رہا ہے جس نے اقتدار میں آنے سے قبل دنیا کو امن کا خواب دکھایا تھا، مگر آج وہی شخص اس خواب کو ایک بھیانک حقیقت میں تبدیل کر چکا ہے۔

جواب دیں

Back to top button