Column

اسلام دشمن قوتوں کا دوہرا معیار

اسلام دشمن قوتوں کا دوہرا معیار
تحریر : امتیاز عاصی

ایران اسرائیل جنگ میں امریکہ کے کود پڑنے سے خطے کی صورت حال کشیدہ ہو گئی ہے۔ امریکہ نے ایران پر حملہ کے وقت جدید ترین ہتھیار استعمال کرکے ایرانی ایٹمی تنصیبات کو نقصان پہنچانے کا دعویٰ کیا ہے جب کہ دوسری طرف ایران کا کہنا ہے امریکی حملے سے قبل ایٹمی مواد انہوں نے کہیں اور منتقل کر دیا تھا۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو اسرائیل اور امریکہ نے ایران کو underestimateکیا تھا اسرائیل اور امریکہ سوچ نہیں سکتا تھا تہران سے انہیں منہ توڑ جواب ملے گا۔ حالات اور واقعات سے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا ایران کے پاسداران انقلاب کسی صور ت میں سرنڈر کرنے کو تیار نہیں۔ امریکہ کے اثر و رسوخ کا یہ عالم ہے قطر، بحرین اور امارات نے اسے اڈے دے رکھے ہیں جو اس امر کا غماز ہے مسلمان ذہنی طور پر امریکہ کے غلام ہیں البتہ یہ امر خوش آئند ہے پاکستان نے اس بات کی وضاحت کر دی ہے اس نے امریکہ کو ایران پر حملہ کرنے کی سپس نہیں دی تھی۔ پاک ایران دوستی مدتوں پرانی چلی آرہی تھی افغانستان پر روسی جارحیت کے بعد امریکہ کا فرنٹ لائن اسٹیٹ بننے سے دونوں ملکوں کی دوستی میں تعطل آیا لیکن پندرہ بیس برس کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات بحال ہو گئے۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں امریکی صدر کسی کو ایسے ڈنر پر مدعو نہیں کرتے جہاں ان کا مفاد ہوتا ہے وہ سب کچھ کر گزرتے ہیں۔ اس ناچیز کے خیال میں امریکہ نے ہمارے سپہ سالار کو یہ بات ضرور کہی ہو گی پاکستان ایران اسرائیل جنگ میں غیر جانبدار رہے۔ یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کوئی ملک جنگ نہیں چاہتا ماسوائے تباہی کے جنگوں کا نتیجہ کچھ نہیں نکلتا ہے۔ تعجب ہے دنیا کے ستاون ملکوں میں سے کوئی امریکہ سے یہ کہنے کی جرات نہیں کرتا کیا اٹیمی طاقت بننا صرف اسلام دشمن طاقتوں کا حق ہے؟ اسرائیل ایٹم بم بنا لے تو ٹھیک کوئی مسلمان ملک ایٹمی پروگرام شروع کرے تو دنیا کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں، یہی اسلام دشمن قوتوں کا دوہرا معیار ہے۔ امریکہ جہاں بھی گیا اسے منہ کی کھانی پڑی، عراق گیا تو بھی اسے مایوسی ہوئی۔ افغانستان اور ویت نام میں اس کے مفروضے غلط ثابت ہوئے۔ اس وقت چین امریکہ کے مقابلے میں ایک طاقت ور ملک ہے جو امریکہ کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتا ہے۔ چین جس ملک کے ساتھ کھڑا ہو جائے امریکہ لومڑی بن جاتا ہے۔ پاسدران انقلاب جس جوش و جذبے کے ساتھ کھڑے ہیں امریکہ کا رجیم چینج خواب پورا نہیں ہوگا۔ ایران نے آبنائے ہرمز بند کرنے کی دھمکی دے دی ہے اگر ایسا ہوگیا تو توانائی کے مسائل کھڑے ہو جائیں گے اور دنیا کے بیشتر ملکوں میں توانائی کے بحران کے خدشات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا پاسدران انقلاب نے اسرائیل پر میزائلوں کی بارش کرکے امریکہ کو کودنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ایران کے پاس میزائلوں کا بہت بڑا ذخیرہ ہے اللہ نہ کرے جنگ طویل ہو گئی تو خطے کے حالات مزید کشیدہ ہونے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ عجیب تماشا ہے بھارت کا دعویٰ ہے پاکستان بھارت نے باہم مشاورت سے جنگ بند کی تھی جب کہ ہماری حکومت اس کا کریڈٹ امریکہ صدر ٹرمپ کو دے رہی ہے اور اسے نوبل انعام دینے کی سفارش کی ہے جب کہ جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمن نے حکومت سے یہ سفارش واپس لینے کا مطالبہ کر دیا ہے ان کا کہنا ہے وہ امریکہ کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے حامی ضرور ہیں مگر غلامی کی نہیں۔ ماضی کی طرف دیکھیں تو کبھی اسرائیل ایران دوست تھے شاہ ایران کے دور میں اسرائیل میں ایران کا سفارت خانہ تھا۔ اسرائیل کے قیام کے فوری بعد جن ملکوں نے اسرائیل کو تسلیم کیا ان میں پہلے نمبر پر ترکی دوسرا ایران اور تیسرا مصر تھا۔ جب 1951ء میں مصدق ایران کی صدر بنے تو انہوںنے اسرائیل کے ساتھ تعلقات محدود کر دیئے تھے ورنہ رضا شاہ پہلوی کے دور میں دونوں ملکوں کے تعلقات خوشگوار تھے۔ یہ ستر کی دہائی کی بات ہے جب اسرائیل نے تہران میں اپنا سفارت خانہ کھولا جس کے بعد ایران نے بھی اسرائیل میں اپنا سفارت خانہ کھولا تھا۔ ایک دور میں ایک لاکھ یہودی ایران میں آباد تھے لیکن آج صرف آٹھ ہزار یہودی آباد ہیں۔ کبھی ایران اسرائیل کے آپس میں دوستانہ تعلقات تھے۔ عرب ملکوں نے اسرائیل کو اسلحہ کی فراہمی پر احتجاج کیا تو انہوں نے بطور ہتھیار امریکہ اور اسرائیل کو تیل کی سپلائی بند کر دی۔ ایرانی انقلاب کے وقت بھی ایران، اسرائیل کے دوستانہ تعلقات تھے۔ عراق نے ایران پر حملہ کیا تو اسے امریکہ سمیت عرب ملکوں کی حمایت حاصل تھی۔ ظاہر ی طور پر ایران کی نئی قیادت اسرائیل کے خلاف تھی مگر عراق کے خلاف اسرائیل کی ضرورت اس وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت جاری رہی۔1983ء میں ایران نے اسرائیل سے کروڑوں ڈالر کا اسلحہ خریدا یہاں تک کہ ایران کے کمانڈروں نے اسرائیل میں تربیت حاصل کی۔ درحقیقت اسرائیلی وزیراعظم شمعوں کا خیال تھا ایران میں امام خمینی کا دور عارضی ہوگا اس لئے اسرائیل کو ایران کی مدد جاری رکھنی چاہیے۔ تعجب ہے امریکہ ایران مذاکرات جاری تھے چند روز بعد عمان میں دونوں ملکوں کے نمائندوں نے آپس میں ملنا تھا کہ امریکہ نے ایران پر حملہ کرکے مسلم امہ کو مشکلات سے دوچار کر دیا۔ چلیں مسلم ممالک اسرائیل کے خلاف ایران کی دفاعی مدد کرکے امریکہ کی ناراضی مول لینے کو تیار نہیں کم از کم امریکہ پر سفارتی سطح پر دبائو ڈال کر دونوں ملکوں کے مابین جنگ کو روکا جا سکتا ہے۔ پاکستان کو سب سے بڑا خطرہ بھارت سے ہے، کہیں وہ اسرائیل سے مل کر ہم پر حملہ آور نہ ہو جائے۔ تاہم یہ بات یقینی ہے پاکستان کا دفاع اللہ کے فضل سے مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ ہماری فضائیہ نے چار روز جنگ کے دوران نہ صرف بھارت کو عالمی دنیا کو اپنی صلاحیتوں سے حیرت زدہ کر دیا ہے۔ دراصل اسلام دشمن قوتیں مسلمانوں کو کسی طور مضبوط نہیں دیکھنا چاہتی ہیں ۔ یہ اسلام دشمن طاقتوں کا دوہرا معیار ہی تو ہے اسرائیل ایٹم بم بنا لے تو کسی کو خطرہ نہیں اگر مسلمان ملک ایٹمی پروگرام شروع کرے تو دنیا کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button