Column

اسرائیل کا خوف ختم نہیں ہو رہا

اسرائیل کا خوف ختم نہیں ہو رہا
تحریر : ایم قاروق قمر

اسرائیل، امریکا کا دنیا میں سب سے پیارا بیٹا ہے اور اس کا وجود بھی امریکی مدد کا محتاج ہے، امریکا بجائے اس کے کہ اپنے لے پالک کی غیر انسانی کارروائیوں پر تنقید کرے ، وہ اس کی حمایت کرتا ہے۔
عربی کی ایک کہاوت ہے کہ گیدڑ کی جب موت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے اور یہی کام نیتن یاہو نے کیا اس نے سب سے پہلے عراق میں انتشار پھلا کر صدام کو شہید کرایا اور یہی کام لیبیا میں معمر قذافی کے ساتھ کیا پھر غزہ میں معصوم بچوں کو بے دردی کے ساتھ شہید کیا اور غزہ رفع کو ملیا میٹ کر کے یہودی آبادی بنانے کا منصوبہ بنایا نیتن یاہو اس وقت شتر بے مہار ہو چکا ہے اور اپنی غلطی کو دہراتے ہوئے امریکہ کی آشیرباد کے پیچھے اس نے ایک اور ریڈ لائن عبور کر لی جو اس کے لیے گلے کا پھندا بن گئی اسے احساس نہ تھا کہ مجھے اس قدر جوابی طاقتور وار ملے گا جو میری نیندیں حرام کر دے گا۔ یہودی قوم جو دنیا میں اپنے اپ کو سب سے افضل اور اعلیٰ سمجھتی پے کھلم کھلا دہشتگردی کر رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا میں 57مسلم ممالک سوائے مذمت کرنے کے اور کچھ نہیں کر سکتے۔ 13جون 2025بروز جمعہ طلوع فجر سے کچھ دیر پہلے اسرائیلی حملوں سے ایران ، تہران اور ایران کے بہت سے مقامات دھماکوں سے لرز اٹھے اس حملوں میں ایران کی اعلیٰ فوجی قیادت اور سینئر سائنس دانوں سمیت کئی افراد شہید ہوئے۔ اس وقت بظاہر ایران بہت دبائو اور مشکل میں ہے مگر ایرانیوں کے حوصلے پست نہیں ہیں، وہ جنگ کرنا اور موت کو گلے لگانا اچھی طرح جانتے ہیں۔ جواب میں ایران نے بھی اسرائیل پر کئی میزائل داغے، پاکستان نے اپنی مکمل اور بھرپور حمایت کی یقین دہانی ایران کو دلائی ہے اور سفارتی سطح پر بھی ایران کی حمایت کی ہے۔ ایران نے اپنے بھرپور موثر کاروائی کے ذریعے نیتن یاہو کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل کو یہ ہرگز علم نہیں تھا ایران اس قدر سخت جواب دے گا اور اب ان کی سمجھ میں آگیا ہے پاکستان اور ایران ایسی قوتیں ہیں جنہیں زیر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ روس نے اس جنگ میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیش کش ہے۔ یہ دنیا مکافات عمل ہے، آج اسرائیل موت کے وہی مزے چکھ رہا ہے جو عرصہ دراز سے وہ مظلوم فلسطینیوں کے موت کے مزے چکھ رہا تھا۔ ایران کی جانب سے اسرائیل کے شہر تل ابیب، حیفہ اور یروشلم میں فوجی تنصیبات اور شہری آبادی پر ویسے ہی میزائل برسائے گئے جیسے غزہ میں برسائے گئے تھے۔ اسرائیلی سائرن بجتے ہی پناہ گاہوں کی طرف دوڑتے پھر رہے ہیں جبکہ فلسطینی کبھی ایسے دوڑے نہیں ہیں۔ اسرائیلی حملوں سے جہاں ایران کے متعدد شہری شہید ہوئے ہیں، ان کے سائنس دان اور اہم کمانڈر شہید ہوئے ہیں وہاں ایسی افراتفری دکھائی نہیں دی جیسے گیدڑ اسرائیلیوں میں دکھائی دے رہی ہے۔ اب وہ امریکہ کی جانب بھاگ رہا ہے کہ جنگ بندی کرائو، جیسے مودی مار پڑنے کے بعد فورا امریکہ کی طرف بھاگ تھا کہ پاکستان سے ہماری جان چھڑائو۔ مسلمان موت سے نہیں ڈرتا وہ تو شہادت کو گلے لگا لیتا ہے
اقبالؒ نے بھی کہا تھا:
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
اسرائیلی حملے کے بعد خلیجی ممالک میں بڑھتی بے چینی نے عرب حکمرانوں کو شدید تشویش کا شکار کر دیا ہے، وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ خطے میں ایران کی حمایت یافتہ قوتیں کمزور ضرور ہوئی ہیں لیکن مکمل ختم نہیں ہوئیں، اگر دیگر خلیجی ممالک جنگ کی لپیٹ میں آجاتے ہیں تو ایسے ناپسندیدہ حالات عرب ممالک کی مضبوط معیشت کو غیر مستحکم، بیرونی سرمایہ کاری اور داخلی سلامتی کو شدید خطرات سے دوچار کر سکتے ہیں، اسرائیل کے پڑوسی ممالک اردن اور مصر کے تعلقات میں بھی تنائو آ سکتا ہے، جنگی صورتحال سے مختلف عرب ممالک کے اندرونی حالات شدید متاثر ہوسکتے ہیں، اسرائیل کے پڑوسی ممالک کی حکومتوں پر دبائو بڑھ سکتا ہے، اسی طرح عرب ممالک میں موجود امریکی اڈے ان کے لئے وبالِ جان بن سکتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ ایسے حالات میں اسرائیلی حملے کس طرح عرب ممالک کیلئے مفید ثابت ہونگے؟ میری سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ غزہ میں معصوم فلسطینیوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک کے بعد کسی بھی عرب حکمران کا اسرائیل کی حمایت میں ایران کی مخالفت کرنا سیاسی خود کشی کے مترادف ہے، مشرق وسطیٰ پہلے ہی عدم استحکام کا شکار ہے اور اسرائیلی حملوں سے اس کو مزید تباہی کی طرف نہیں لے جایا جا سکتا، مسلمان ممالک اپنی موثر حکمت عملی اور سفارت کاری کے ذریعے اسرائیل کو لگام ڈال سکتے ہیں۔ ایک دوسرے کا احترام اور مذاکراتی واحد راستہ ہے جس سے تمام مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button