ایران مرزا یار کا قبرستان بنے گا

ایران مرزا یار کا قبرستان بنے گا
تحریر : سیدہ عنبرین
امریکہ نے ایران کے تین شہروں پر براہ راست حملہ کر دیا ہے، یوں وہ اسرائیل کی جنگ میں اب واضع طور پر شریک بن چکا ہے۔ اس سے قبل وہ در پردہ شریک تھا۔ امریکی صدر کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز، مخالف جماعت سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز کے علاوہ امریکیوں کی ایک بڑی تعداد اس کی مخالفت میں خم ٹھونک کر سامنے آگئی ہے، ان کا کہنا ہے کہ امریکی ایوان کی منظوری کے بغیر کوئی فرد واحد اتنا بڑا فیصلہ نہیں کر سکتا، لہذا ٹرمپ نے جو کیا وہ غلط کیا۔
انتخابات میں ٹرمپ کی کامیابی کیلئے مندروں میں مالائیں اور پھول چڑھانے والے ہندو اور بزرگان دین اسلام کے مزاروں پر چادریں چڑھانے والے مسلمان آج حیران و پریشان بیٹھے ہیں کہ یہ شخص تو دنیا میں جاری جنگیں بند کرانے کا نعرہ لیکر آیا تھا لیکن کامیابی کے بعد وہ جنگوں کو بڑھاوا دے رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے اس بات کا پرچار کر رہا ہے کہ وہ امن قائم کیلئے کوشاں ہے اور امن کے نوبل پرائز کا حق دار ہے۔
امریکہ بھر میں مقیم ہندو، سکھ اور مسلمان آج اپنے فیصلے پر پچھتا رہے ہیں کہ انہوں نے ڈونلڈ کی حمایت کی، وہ ٹرمپ کی امریکہ اور خطے کیلئے پالیسیوں سے سخت پریشان ہیں، وہ سمجھتے ہیں ٹرمپ ان کی آبرو ریزی کر رہا ہے۔ یہ بات اس کے ووٹرز، سپورٹرز کو اس وقت سوچنی چاہیے تھی جب وہ اس کی حمایت کیلئے نکل رہے تھے۔ ٹرمپ کا اس حوالے سے کردار ہی اس کی ہمیشہ سے پہچان ہی۔ امریکہ کا صدر ہو یا اس کی پالیسیاں، یہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ دونوں ہی بہت مکروہ ہیں، وہ اپنی کسی بات کسی وعدے کا پاس نہیں کرتے، سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے عرصہ دراز قبل کہا تھا امریکہ کی دشمنی خطرناک ہے لیکن اس کی دوستی بھی کم خطرناک نہیں ہوتی۔ سانپ دودھ پینے سے پہلے ڈس لے یا دودھ پینے کے بعد دودھ پلانے والے کو ڈس لے اس کا کام ڈسنا ہی ہے، جو لوگ اس کی خوش نما کھال کو دیکھ دیکھ خوش ہوتے ہیں انہیں یاد رکھنا چاہیے سانپ ایک خاص وقت کے بعد اپنی کینچلی بدل لیتا ہے۔ نئی کینچلی اور نیا رنگ ڈھنگ نیا جال ہوتا ہے۔ سانپ ڈسنا نہیں بھولتا۔ امن کا نوبل پرائز بھی اسی طرح ملتا ہے جس طرح پاکستان میں حسن کارکردگی کے نام پر ریوڑیاں بانٹی جاتی ہیں، ٹرمپ کو نوبل پرائز دینے کا سودا طے پا چکا ہے، ٹرمپ اچھی بزنس ڈیل کر ہی لیتا ہے، خصوصاً ایسی ڈیل جو اس کے من کو بھائے۔ سابق امریکی صدر اوبامہ کو بھی ایسی ہی ایک جعلی کارکردگی پر نوبل پرائز ملا تھا۔ جس کے مطابق اس نے دنیا کے ایک بڑے دہشت گرد اسامہ بن لادن کو گرفتار کر کے ہلاک کروادیا تھا، اس ڈرامے کی ایک جعلی فوٹیج بھی ریلیز کی گئی تھی، جس میں اوبامہ اور اس کے نو رتن آپریشن روم میں بیٹھ کر یہ جعلی کارروائی براہ راست دیکھ رہے تھے۔ ہمارے یہاں ایک شخص کو انعام میں ایکسٹینشن ملی تھی۔ ایران پر حملوں اور اس کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کی جعلی فوٹیج بھی تیار کی گئی ہے۔ جو ٹرمپ دنیا کے سامنے جلد پیش کریگا، اس حملے میں حصہ لینے والے طیاروں نے کس کس ملک کی فضائی حدود استعمال کیں وہ نام سامنے آئے تو ڈوب مرنے کو جی چاہا، ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل پرائز کیلئے نامزد کرنے والے مکروہ کردار بھی سامنے آچکے ہیں، انہوں نے حق نمک ادا کر دیا ہے، نمک حرامی کا انعام دینا کی توقع سے بڑھ کر ہوگا، یہاں ان سے ایک چوک ہوگئی، ضروری تھا ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ساتھ امن قائم کرنے کی کوششوں کو سراہتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم کو بھی اس اعزاز کا مستحق قرار دے دیتے اور اپنی نامزدگی میں اسے بھی شامل کر لیتے تو کوئی ان کا کیا کر سکتا تھا۔ شاید انہوں نے اس بات کی گنجائش رکھی ہو کہ ایران پر حملے کے بعد یہ امریکی اور اسرائیلی پراجیکٹ ختم تو نہیں ہو جاتا اس کے بعد بھی تو کسی کی باری ہے۔ لہذا اسرائیل کی دوسری کامیابی پر اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو نوازا جاسکتا ہے۔
پورا عالم اسلام جواب صرف کاغذوں میں موجود ہے، گزشتہ پچاس برس سے خوابیدہ ہے اب تو شاید حالت کومہ ہے، لہذا بیداری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ افغانستان نشانہ بنا تو ہر طرف نظر آیا، عراق تاراج ہوا تو جب بھی کوئی نہ بولا، لیبیا برباد کر دیا گیا تو کسی کی آنکھ نہ کھلی، شام کی باری آئی تو سب پرسکون رہے، لبنان کو تہہ تیغ کر دیا گیا تو جب بھی کوئی نہ بولا، غزہ اور فلسطین کھنڈر بنا دئیے گئے، سب نے زبانی مذمت پر زور رکھا، آج ایران پر حملے کے بعد بھی سب کی دراز زبانیں تو نظر آئی ہیں، لیکن سب کے ہاتھ امریکی دربار میں بندھے نظر آتے ہیں۔
کڑے ترین وقت میں پاکستان کے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر شاہ صاحب نے امریکی صدر کو ورکنگ لنچ میں سمجھانے اور عقل کے ناخن لینے کی بات ضرور کی ہو گی۔ لیکن ایک نفسیاتی مریض نے وہ تمام باتیں ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیں۔ دو ہفتے خاموش رہنے کا وعدہ کیا لیکن ٹھیک دو گھنٹے بعد ایران پر حملے کی تیاریاں شروع کر دی گئیں اور دو روز بعد یہ حملہ کر دیا گیا۔ جس میں قم کے تاریخی شہر کے قریب فردو، نطنز، اصفہان اور اراک کے علاقوں پر بمباری کی گئی، رات اڑھائی بجے شروع ہونے والے حملے میں بی ٹو بمبار طیارے استعمال کیے گئے، جنہوں نے مختلف ممالک کی فضائی حدود استعمال کیں، یہ طیارے بنکر بسٹر طیارے کہلاتے ہیں، ان سے ملتے جلتے طیارے امریکہ نے افغانستان میں اسامہ بن لادن کی تلاش اور اس کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کیلئے استعمال کئے تھے، ایک موقع پر جعلی کامیابی کا اعلان بھی کر دیا گیا کہ اسامہ ان حملوں میں مارا گیا ہے، یہ وہی اسامہ بن لادن تھا جسے روس کے خلاف لڑنے کیلئے میدان میں اتارا گیا تو وہ عظیم مجاہد تھا، وائٹ ہائوس میں اس کے استقبال کیلئے سرخ قالین بچھائے گئے تھے۔ اپنا کام نکل جانے کے بعد اسامہ امریکہ کی نظروں میں دنیا کا بڑا دہشت گرد قرار پایا، آج امریکہ کے حصے کی چلمیں بھرنے والے کل دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد قرار پائیں گے۔ امریکہ انہیں بھی نشان عبرت بنائے گا اس وقت ان کی حالت زار پر کوئی افسوس نہ کریگا، کیونکہ جب ان سے پہلے جنگ آزادی لڑنے والے اور اپنے آپ کو امریکہ، اسرائیل اور یورپ کے شکنجے سے نکالنے کی جدوجہد کرنے والے اپنی جانوں کا نذرانے پیش کر رہے تھے تو یہ مکروہ شکلیں امریکہ کے مکروہ کردار کے ساتھ کھڑی تھیں اور اس کی سہولت کار بنی تھیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماضی کے کئی معمے حل ہو گئے۔1977ء میں جب منتخب حکومت کو گھر بھیجا گیا تو افغانستان میں امریکہ کی جنگ لڑنے کا انتظام کیا گیا۔1999ء میں حکومت پر قبضہ کیا گیا تو پھر امریکی خوشنودی کیلئے دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے امریکہ کی جنگ لڑی گئی۔2022ء میں عدم اعتماد کے ذریعے ایک اور حکومت ختم ہوئی۔ مقصد ایران کے خلاف یلغار سے قبل اس دروازے کو بند کرنا تھا جہاں سے مزاحمت ہو سکتی تھی ۔ لیکن تمام تر امریکی اسرائیل کوششوں کے باوجود نہ گلیاں ویران ہونگی نہ مرزا یار دندناتا پھر سکے گا، ایران مرزا یار کا قبرستان بن سکتا ہے۔